دل کے اِس پار! – محمد خان داؤد

142

دل کے اِس پار!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں بانک کریمہ کہاں بستی تھی؟
اس سیدھے سے سوال کا جواب بھی بہت سیدھا ہوسکتا ہے!
پر ان لوگوں کے لیے جو دل کی بات دل سے نہیں جانتے،جو ملکی سرحدوں سے تو گوگل کے ذریعے واقف ہو تے ہیں پر وہ دلوں کی سرحدوں سے واقف نہیں ہو تے۔انہیں یہ جواب دے کر مطمئن تو کیا جاسکتا ہے کہ بانک کریمہ کینڈا میں مقیم تھی۔وہ وہاں اس لیے مقیم تھی کہ اس پر اس کی دھرتی کے دروازے بند کیے گئے تھے،پر اس کا دل یہی کہیں دھڑک رہا تھا،جب بھی بلوچستان میں کسی کا گھر جلتا تھا تو اس کا دھواں کریمہ کے سینے سے اُٹھتا محسوس ہوتا تھا۔جب بھی کسی بہن کا بھائی قتل ہوتا تھا تو آنکھیں غمناک کریمہ کی ہو جا یا کرتی تھیں، جب بھی آدھی رات کے گیدڑ کسی کے گھر میں گھس کر کسی کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے تھے تو کریمہ کا جی جل اُٹھتا تھا۔کبھی بھی کسی کی آنکھوں پر اس کی ہی قمیض کے دامن کو پھاڑ کر اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی جا تی تھی تو محسوس ہوتا تو بلوچستان سے بہت دور بسنے والی کریمہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہو
”خدارہ میری آنکھوں کھول دو مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا“

یہاں جب بھی کسی ماں کے لال کو گم کر دیا جاتا تھا تو اس کا پہلا دلاسہ کریمہ دیتی نظر آتی تھی
جب بھی کوئی بہن دکھوں کو لیے مسافر بنتی تھی تو کریمہ آگے بڑھ کر اسے سسئی بن جانے کا درس دیتی دکھائی دیتی تھی
کریمہ تقریرتھی
کریمہ تحریرتھی
کریمہ دھرتی پر بستے انسانوں کا نیا صحیفہ تھی
کریمہ بلوچستان کی تقدیرتھی
تو ان لوگوں کو تو جواب دیا جا سکتا ہے جن کی دل کو دل سے کوئی راہ نہیں
انہیں اس سادھے سے سوال کا سادھا سا جواب دیا جا سکتا ہے کہ کریمہ کینڈا میں بستی تھی
وہ جو بات پہ بات اور بلا وجہ پوچھ رہے ہیں کہ وہ وہاں کیوں رہتی تھی؟
کاش ان صدمات کے دنوں میں ان کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ
”آپ کو کاش یہ خبر ہو تی
ہم پہ نازل ہے کیا عذاب ِ علیم“
پراس دل کو کیسے جواب دیا جائے جو بار بار پوچھ رہا ہے کہ بانک کریمہ کہاں بستی تھی؟
کیا اس دل کو اتنی سی بات ایسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ کریمہ کینڈا میں مقیم تھی؟
شاید ہاں
شاید نہیں!

پر جب وہ بلوچستان کے پہاڑوں سے دور کی جا رہی تھی(اسے ان پہاڑوں سے،اپنے گھر سے،اپنی گلیوں سے زبردستی دور کیا گیا)تو وہ پہاڑ رو رو کر سب سے یہ کہہ رہے تھے کہ
”نگر ہو جائے گا۔۔۔۔۔ویران سارا
اُسے رو کووہ ہجرت کر رہا ہے!“
پر پہاڑوں کا شور کس نے سُنا؟
جب پہاڑوں کا شور ہی کوئی نہ سنیں تو
میں بھی چیخوں تو کیا
اور تم بھی چیخو تو کیا
پر یہ سوال اب بھی وہیں پر موجود ہے کہ بانک کریمہ کہاں مقیم تھی؟
اگر اس کا بہت سہل جواب دیا جائے تو وہ استاد کیوں اُداس ہے جو کئی دنوں سے نہیں سویا؟
وہ جو دھرتی جیسا ہے
وہ جو باتوں جیسا ہے
وہ جو پہاڑوں کے دامنوں میں کھلتے پھولوں جیسا ہے
وہ بانک کریمہ کے بغیر بہت اداس ہے اور وہ اپنے کمپیوٹر اسکرین پر بار بار ایسے الفاظ لکھ رہا ہے اور پوسٹ کر رہا ہے کہ
”جب والدین مر جا تے ہیں تو بچے یتیم ہو تے ہیں
میری بیٹی میں تو تم بن یتیم ہو گیا ہوں؟“
جب کمپیوٹر اسکرین پر لکھے الفاظ چغلی کھا جا تے ہیں کہ یہ الفاظ نہیں یہ آنسو ہیں۔

جو استاد میر محمد کی اداس آنکھو ں سے بہہ رہے ہیں اور الفاظ کی شکل لیکر کمپیوٹر اسکرین پر پوسٹ ہو جا تے ہیں
استاد روئے نہیں تو اور کیا کرے جب جلاد دھرتی کے نوجوان،تو نوجوان پر سسئی جیسی مسافر بیٹوں کو بھی نہ چھوڑیں،وہ سسیاں پہلے اپنی دھرتی چھوڑیں۔اپنے گھر چھوڑیں،اپنی گلیاں چھوڑیں اور وہ جلاد انہیں وہاں جا لیں جہاں وہ درد میں اپنی مات کو بھی نہ بُلا پائیں اور وہ وہیں مار دی جائیں کیا ایسی حالت میں بھی استاد جیسے بزرگ اپنے کمپیوٹر اسکرین کو آنکھیں بنا کر نہ روئیں؟

جب وہ ایسا شعر پوسٹ کرتا ہے تو وہ شعر سیدھا دل کے آر پار ہو جاتا ہے کہ
”جلاد سے ڈرتے ہیں،نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اُسے،جس بھیس میں جو آئے“

کمپیوٹر اسکرین پر آنسو ایسے نمودار ہو جا تے ہیں جیسے بعد شبنم کے پھولوں پر قطرے رہ جائیں۔

تو وہ سوال پھر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بانک کریمہ کہاں رہتی تھی؟
اس سوال کا جواب دل والے جان پائیں گے جو گوگل سے مدد نہیں چاہتے،جو دل کی بات دل سے سنتے ہیں اور اگر دل کی بات دل کولگ جائے تو آنکھیں اشکبار ہو جا تی ہیں،
تو بانک کریمہ بلوچستان میں رہتی تھی،
پہاڑوں میں
پہاڑوں کے دامنوں میں کھلنے والے پھولوں میں
بارش کے قطروں میں
سفید چھنتے برف کے گولوں میں
آبشاروں میں
بلوچستان کے میدانوں میں
بہتی شور کرتی ندیوں میں
اداس ماؤں کے دلوں میں
تقریروں میں
دانشوروں کی تحریروں میں
شاعروں کی نظموں میں
دیس کے گیتوں میں
آزادی کے جذبوں میں

سرمچار کی دلوں اور دیس کی محبت بھری باتوں میں
جو دل کے اُس پار ہیں وہ ہما ری باتوں کو نہیں جان پائیں گے
پر جو دل کے اِس پار ہیں وہ ہما ری باتوں کو ضرور جانیں گے
کریمہ دیس اور دھرتی جیسی بڑی ہے وہ قتل تو نہیں ہو سکتی
پر منظر ضرور بدلتا ہے اور منظر ضرور رُلاتا ہے
اس وقت بلوچستان کا منظر بدل رہا ہے اور بلوچستان رو رہا ہے
بانک کریمہ تو دھرتی کا ایک کاندھا تھی
جس سے دھرتی کا بیلنس برابر تھا اب اس کے جانے کے بعد معلوم ہو رہا ہے کہ
دھرتی ڈگمگا رہی ہے
دھرتی جھول رہی ہے
دھرتی گر ہی جائیگی
میرے اوپر
تمہا رے اوپر


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں