سماجی برائیاں، اسباب اور اصلاحات – بختیار رحیم بلوچ

2887

سماجی برائیاں، اسباب اور اصلاحات

تحریر: بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج ہم سب کسی نہ کسی سماج یا معاشرے میں رہتے ہیں، جو مختلف رنگ نسل، ذات، قوم ، مسلک، فرقے اور مختلف پیشے سے وابستہ لوگوں پر مشتمل ہے۔

ہم سب اپنے اپنے معاشرے کو ایک شعوری نظر سے دیکھ لیں، ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارا معاشرہ ایک مثبت معاشرہ ہے یا کہ منفی؟ ساتھ یہ سوچیں ایک مثبت اور منفی معاشرے میں فرق کیا ہے؟ اس میں لوگوں کے کردار کیا ہوتے ہیں؟ اسکی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ اور منفی معاشرے کے ذمہ دار کون لوگ ہوتے ہیں؟

ایک مثبت معاشرے میں رہنے والے لوگ چاہے کسی بھی رنگ، نسل، ذات، فرقے چاہے جس پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سب کے سوچ مثبت ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مثبت سوچتے ہیں اور مثبت کام سر انجام دیتے ہیں۔ دوسروں کی کوتاہیوں کو پوائنٹ آوٹ کرنے کے بجائے اپنی کوتاہیاں دور کرنے کے لیے برسر پیکار رہتے ہیں۔ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، دیانتداری اور وقت کی پابندی کے ساتھ نبھاتے ہیں۔

مثال کے طورپر معاشرے میں ڈاکٹر کا پیشہ لوگوں کی خدمت یعنی علاج ہے۔ وہ بس اپنے کام سے کام رکھ کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں، اپنے فرض کو پورا کرنے کے لئے اسے کوئی دباؤ ،پریشر، تشدد ،تنقید، ،تعریف، لالچ اور رشوت کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اپنے فرض کو روزانہ کی بنیاد وقت کی پابندی کے ساتھ پورا کرتے ہیں لوگوں کی زندگی محفوظ کرکے پیسہ اور ثواب کا عمل جاری رکھتے ہیں۔

اسی طرح مثبت معاشروں میں استادوں کا کام اسکول کے بچوں کا درس اور تدریس ہوتا ہے، وہ کسی دباؤ کے بغیر سکول کے بچوں کا پڑھانا اپنا فرض عبادت کی طرح پورا کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک مثبت معاشرے کے طالب علموں کا سوچ ، نظریہ، فلسفلہ، ہر ایک کام مثبت عمل اور کردار پر منحصر ہوتا ہے، وہ اپنا منزل اور مقصد علم حاصل کرنا سمجھتے ہیں۔ وہ یہی سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں علم حاصل کرکے قوم کے مستقبل کا معمار بننا ہے۔ وہ ہر وقت علم حاصل کرکے اپنا مقصد کو پایا تکمیل تک پہنچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کامیابی کے بعد ملک اور قوم کی خدمت سرانجام دے کر اپنا روزی اور روٹی کمانے کے ساتھ عزت اور شہرت حاصل کرتے ہیں۔

مثبت معاشرے کے والدین بھی مثبت سوچ، عمل اور کردار کےمالک ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو مثبت سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
گھر میں بچوں کو بڑوں کی عزت و احترام، چھوٹوں پر شفقت سے پیش آنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ صفائی کا خیال سکھا دیتے ہیں۔ اپنے بچوں پر ہمیشہ نظر رکھتے ہیں۔

ایک مثبت معاشرہ میں پولیس کا کام عوام کو تحفظ دینا ہوتا ہے، وقت کا پابند ہوکر عوام کو تحفظ دیتی ہے، ہمیشہ معاشرے میں نشہ، جنسی زیادتی، چوری، ڈاکہ زنی، قبضہ مافیا، بھتہ خوری تمام چھوٹے بڑے جرائم کرنے والوں کے خلاف ہر وقت کاروائی کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوکر اپنی زمہ داریاں پورا کرتے ہیں۔ جو مجرم ہوتا ہے اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرکے قانون کے تحت سزا دیتے ہیں۔

عدالت لوگوں کو انصاف دینا اپنا فریضہ سمجھ کر ادا کرتی ہے۔ ہر وقت مدعی اور مدعالیہ کے روبرو بیٹھ کر مجرم کو سزا سناتا ہے، مظلوم کو انصاف فراہم کرتا ہے۔ نا انصافی اور رشوت بٹورنے سے کتراتا ہے۔

اسی طرح ایک مثبت معاشرے میں بینک کے ملازمین بھی اپنا کام دیانتداری، ایمانداری، اخلاص سے پورا کرتے ہیں، ایسی کاہلی اور غفلت سے ہر وقت محتاط رہتے ہیں، جس سے لوگوں کو نقصان اور پریشانیاں کا باعث بنے۔

اچھے معاشروں کے دکاندار، ٹرانسپورٹ، مکینکس ، الیکٹریشن، حجام، ٹیلر ماسٹر، ریسٹورینٹس سے لے کر چھوٹے بڑے کارباری اور سرکاری ملازم اپنے اپنے کام احتیاط اور ایمانداری مخلصی سے پورا کرتے ہیں، ناجائز منافع خوری، لالچ، ہوس، غیر ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہر وقت ایسے حرکات اور عمل سے محتاط رہتے ہیں، جس سے معاشرے کے دوسرے لوگوں کو تکلیف یا دل آزاری پہنچے یا کوئی اسکے لہجے اور حرکات، فعل اور قول سے تنگ اور پریشان ہو یا کسی کو مالی ، جانی، نقصان پہنچے۔

اسی طرح ایک برے اور مثبت سماج میں بھی مختلف رنگ، نسل، ذات مسلک فرقہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان میں ہر کسی کا اپنا سوچ اور ذریعہ معاش ہوتا ہے۔

ان میں بسنے والا ہر ایک شخص مثبت سماج کے لوگوں سے ذہنی ، نظریاتی طور پر الگ ہوتا ہے۔ نہ ڈاکٹر کو پتہ ہوتا ہے میرا فرض کیا ہے، مجھے لوگوں سے کس لہجے سے پیش آنا ہے، نہ وہ اپنی ذمہ داری پورا کرنے کیلئے سوچتا ہے، نہ کوئی وقت کی پابندی کا خیال اسکے دل اور دماغ میں موجود ہوتا ہے۔ نہ عزت و احترام، انسانی ہمدردی کے احساس اور جذبہ اسکے دل میں موجود ہوتا ہے۔

اسی طرح منفی معاشرے کے استاد بھی اپنے فرض سے ہٹ دھرم اور غیر زمہ دار ہوتے ہیں۔ نہ اس میں وقت کی پابندی ہوتی ہے نہ بچوں کو اچھے طریقے سے گائیڈ کرکے انکی حوصلہ افرائی کرنے کا کوئی طریقہِ فن ہوتی ہے۔ بچوں کو دو لفظ رٹاکراس پر جسمانی تشدد اپناتے ہیں۔ جس سے بچے جسمانی تشدد سے ذہنی طور پر نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سیکھنے کے بجائے خوف میں مبتلا ہوکر سب کچھ بھول جاتے ہیں ، اسی وجہ سے اسکول سے فرار ہوکر گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں، اس سے وہ مختلف سماجی برائیاں اپناتے ہیں، وہ نہ صرف اپنے قیمتی وقت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ وہ نشہ، چوری، ڈاکہ زنی، جنسی زیادتی، بدفعلی اور دوسرے سماجی برائیوں میں مبتلا ہوکر اپنے معاشرے کے دوسرے لوگوں کے لئے پریشانیوں اور خطرے کا باعث بنتے ہیں۔ والدیں انکے بچانے کے لیئے سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ وہ پھر بھی نہیں نکل پاتے۔

کچھ بے بس اور مجبور والدیں شادی کروا کے انہیں گھر کی زمہ داری سونپ دیتے ہیں شاید وہ راہ راست پر آئیں، سماجی برائیوں سے باز رہیں۔ ایک اچھی زندگی گذار سکیں۔

اسی طرح برے سماج میں پولیس بھی اپنے فرض اور زمہ داریوں سے نا اہل، کاہل ،اور غافل ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔

منفی معاشرے کے عالم دین بھی دین اور اسلامی تعلیم دینے کے علم کے بجائے تفرقات، فرقہ واریت کی درس و تدریس دیتے ہیں، جس سے لوگ دینی اور دنیاوی علم حاصل کرنے کے بجائے معاشرے میں فرقہ واریت، ذات پرستی، تضاد، تفرقات اور تناؤ جنم لیتی ہے، اس سے ہر ایک شخص نسل، ذات، فرقہ، قوم پرستی، امیریغریبی اپنے زہن میں پیدا کرتا ہے، جس سے معاشرہ بٹ جاتا ہے۔ انسانی ہمدردی ہر طرف ختم ہو جاتی ہے۔ ہر طرف نفسانفسی، اناپرستی۔ زر پرستی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کو غیر مسلم کا لقب سے نوازتا رہتا ہے۔

ایک مثبت معاشرے کے لوگ اور منفی معاشرے کے لوگوں میں کچھ اور نہیں بلکہ صرف مثبت سوچ، زمہ داری ، شعور ،اخلاق ، ادب اور احترام کا فرق ہوتا ہے۔

ایک مثبت، پر امن، معاشرہ بنانے کے لئے
لوگوں کو نسل، ذات، رنگ کے بجائے سب انسان اور انسانیت کا خیال رکھنا چاہیئے۔ سب کو برابر انسان سمجھنا چاہیئے اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کو اپنی زمہ داری مد نظر رکھ کر وقت کے پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے۔

اس سے ایک مثبت معاشرہ پیدا ہونا ممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے معاشرے کے لوگ نہ صرف کامیاب ہونگے بلکہ دوسرے اقوام کی ترقی کے لئے نسخہ، نمونہ اور مثال ثابت ہونگے۔

آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں، کیا ہمارا معاشرہ ایک مثبت معاشرہ ہے؟ ہم سب کے سوچ مثبت ہیں؟ یقیناَ ہمارا جواب نفی میں ہوگا، کیونکہ جب ہم منفی سوچ کے مالک ہیں، ایک مثبت معاشرہ کے فرد ہونا کیسے ممکن ہے۔ ہمارے معاشرے کے منفی ہونے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ ہمارے سوچ کے منفی ہونے کا اثر و اسباب سے ہے۔

آج ہم سب اپنے معاشرے کے بکھاری سے لے کر حکمران تک ہر رنگ ، نسل، قبائل، اپنے کام سے کاہل، نااہل غیر زمہ دار ،اور ہٹ دھرم ہیں۔ جب معاشرے میں برے اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک اپنے کپڑے جھاڑنا شروع کرکے دوسرے لوگوں کو برائیوں کا ذمہ دار ٹہرانا شروع کرتے ہیں۔ در اصل ہم سب ہر ایک بدی، برائی کے نقصانات اوراسکے اسباب اور اثرات کے ذمہ دار ہیں۔

خدارا مثبت سوچو! مثبت کام اور کردار سرانجام دو، اپنے فرض سے کاہلی اور نااہلی سے بچتے رہیں۔ اپنے لیے نہیں معاشرے کے ہر فرد کے لئے مثبت سوچو تاکہ ایک مثبت، پرامن، خوشحال، معاشرہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ ہم اور ہماری آنے والی نسلوں کو منفی سوچ اورمنفی سرگرمیاں حتیٰ کہ تمام سماجی برائیوں سے پاک معاشرہ میسر ہو سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔