اور نکلیں گے عشاق کے قافلے – ریاض بلوچ

226

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

تحریر : ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں شہداء کی ایک طویل فہرست ہے، جو اس مادر وطن کی آزادی اور قومی بقاء کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

بلوچستان پہ پاکستانی قبضے کے بعد یا اس سے بھی پہلے بلوچ نے ہمیشہ اپنے سرزمین کی دفاع کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے لیکن دھرتی کا سودا نہیں کیا ہے.

13 نومبر کو بطور یوم شہدائے بلوچستان کا دن مقرر کرنا ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتا ہے. اس دن کو شہداء کا مشترکہ دن منانے کا مقصد اس دن کی اہمیت اور قومی آزادی کی طویل جدوجہد کو نہ صرف اجاگر کرنا ہے بلکہ 13 نومبر 1839 کو پہلی بار انگریز سامراج نے بلوچ وطن پر قبضہ کرکے بلوچ قومی آزادی کو سلب کرکے آزاد بلوچ مملکت پر نہ صرف غاصبانہ قبضہ قائم کیا بلکہ انتہائی بے رحمی کے ساتھ تاریخی بلوچ قومی وحدت کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے پارہ پارہ کیا جس وقت بلوچ ریاستی امور کے سربراہ خان میر محراب خان تھے. جنہوں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کا پرچم بلند کیا بلوچ قومی لشکر کے ساتھ بلوچ وطن کی آزادی اور دفاع کے لئے غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ کا اعلان کیا اور اس قومی دفاعی جنگ کے دوران شہید محراب خان اور ان کے ساتھی جام شہادت نوش کرگئے اور آنے والی نسلوں کو جدوجہد کے لئے اپنے خون سے روشنی اور راہ دکھائی.

عظیم شہداء نے تاریخ رقم کرکے انگریز سامراج پر واضح کردیا کہ بلوچ قوم اپنی جانیں قربان کرسکتے ہیں لیکن کسی غیر کی غلامی قبول نہیں کرسکتے ہیں اور اسی فکر و فلسفے نے بلوچ تاریخ کو قابل فخر بنا دیا ہے.
اس طویل بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد اسی قربانیوں کے ساتھ جاری ہے.

پاکستانی ریاست کے ناجائز قبضہ کے خلاف بلوچ فرزندان وطن نے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کی جو داستانیں رقم کی ہیں، وہ بلوچ قومی تاریخ کا انمول سرمایہ ہیں.

مقبوضہ بلوچستان پر ریاستی قبضے کو 72 سال ہوچکے ہیں- مارچ 1948 سے لے کر اب تک ہزاروں بلوچ فرزند آزادی کے روشن کل کے لئے اپنا آج قربان کرکے اپنے لہو سے آزادی کے چراغ کو ایندھن دے کر روشن کر رہے ہیں اور 1839 سے لے کر اب تک آزادی کے لئے کام آنے والے وہ تمام سپوت ہمارے قومی ہیرو ہیں، ہزاروں نامور اور گمنام شہداء جنہوں نے آزادی کی صبح کو اگرچہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہوں نے غلامی کے خلاف بیش بہا قربانیاں دیکر آزادی کی جدوجہد کے وجود کو زندہ رکھا ہے. ان کی تقلید اور پیروی کرتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کا خواب اور شہداء کے ارمانوں کی تکمیل آزاد بلوچ ریاست کی تشکیل میں ضرور ابھر کر سامنے آئے گا-

بلوچ قومی شہداء نے کسی قابض کے سامنے سرنگوں ہونے کو قومی توہین سمجھتے ہوئے بہادری سے جدوجہد کا بے پناہ کٹھن رستہ اپنایا اور آج تک بلوچ تمام مشکل مرحلوں سے گذر کر قومی جدوجہدِ آزادی کی شاہراہ پر گامزن ہیں. اب تک ہزاروں افراد لاپتہ کئے گئے ہیں، جن میں سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، اس مارنے اور پھینکنے کی ریاستی پالیسی کے تحت بلوچ قوم کو غلام رکھنے اور آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنے کے لئے بلوچ قوم کی بدترین نسل کشی کی جارہی ہے لیکن ریاست کی اس ننگی جارحیت کے باوجود وطن کے پروانے مصیبتوں کے بیگانے بلوچ کاز سے بتدریج منسلک ہوکر ریاستی جبر اور تسلط کے خلاف آزادی کے عظیم مشن سے وابسطہ ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں، یہ عشاق کا قافلہ ابھی رکا نہیں تھکا نہیں.

حالیہ جدجہد آزادی کی شدت اور ہزاروں شہدا کے گرتے لہو نے عالمی دنیا کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، ریاست پاکستان کی غلیظ پروپیگنڈے زیادہ دیر تک دنیا کے آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے ہیں.

بہتر یہی ہوگا کہ اقوام متحدہ عالمی طاقتیں امریکہ اور یورپی یونین وغیرہ بلوچ شہداء کے لازوال قربانیوں کو مدنظر رکھیں اور اس خطے میں مستقل امن کی بحالی کے لئے ایک آزاد بلوچ ریاست کے قیام کیلئے بلوچ قوم کی اخلاقی حمایت کریں اور بلوچ قومی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے بلوچ قوم کے طویل المیعاد اور دیرینہ مطالبہ اور بلوچ قومی مسئلہ کے حل کیلئے کوششیں کریں. ایک آزاد بلوچ ریاست کو خطے کے امن کے لئے ناگزیر اور واحد حل سمجھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں