کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

100

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4044 دن مکمل ہوگئے۔ پشتونخوامیپ کے سینئر رہنماء قادر آغا، بی ایس او پجار کے زبیر بلوچ اور نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر محمد اسلم بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

آٹھ سے لاپتہ گدو بگٹی کے بیٹے نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی نے انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ، یورپی یونین اور مہذب ملکوں کو متوجہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کا چین و سکون چھین لیا گیا ہے، مختلف علاقوں میں آج بھی فورسز کی جانب سے فوج کشی جاری ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ خواتین اور بچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے جبکہ مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

احتجاج کیمپ میں موجود محمد امین بگٹی نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ محمد امین نے میڈیا نمائںدوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد گذشتہ آٹھ سالوں سے جبری طور پر لاپتہ ہے۔

انہوں نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد گدو خان ولد دلدار بگٹی پیشے کے لحاظ سے مستری تھا جنہیں 5 دسمبر 2012 کو کوئٹہ کے علاقے مشن روڈ سے لاپتہ کیا گیا جس کے بعد ان کے حوالے سے ہمیں کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

محمد امین کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا جائے کہ میرے والد کا کیا قصور ہے، ان پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ والد کے گمشدگی سے پورے گھر والے پریشانی میں مبتلا ہے۔