چھلا کوٹھی – سمیر آسکانی

520

چھلا کوٹھی

سمیر آسکانی

دی بلوچستان پوسٹ

یہ کہانی ایک کمسن لڑکی صباء کی ہے، صباء یوں تو کافی ذہین، چالاک اور جماعت میں اول درجہ لینے والی طالبعلم تھی لیکن میٹرک کےبعد اس کے اباجان نے اسے مزید تعلیم سے روک دیا اور اسکی والدہ سے اصرار کیا کہ صباء کےلئے ایک خوش بخت اور طالعِ مند لڑکا ڈھونڈے۔ یوں تو صباء کو تحصیل علم سے خاصا شغف تھا لیکن تقدیر شکن والدین اور ریشہ دوان سماج کے آڑے مجبور ہوکر بہرکیف اسے دستبردار اور ساکت رہنا پڑا۔ مختصر سی مدت کے بعد دلی گھٹن کےساتھ وہ اس شادی کے رشتے میں پابجولاں ہوجاتی ہے، اسامہ اسکا رفیقِ حیات بن چکا تھا۔ اس وقت، اسامہ چونکہ پیشے کے اعتبار سے اپنے گاؤں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر تھا، شادی کےبعد اس رشتے میں ایک خوشی کی جھلک بھی نظر آئی۔ اسامہ مع اسکا والد اور صباء آپس میں حددرجہ بشاش رہتے، ایک دن بوقتِ شب اسامہ گھر لوٹا تو صباء نے اپنی باقی تعلیم جاری رکھنے کی اک معمولی سی خواہش ظاہر کی، لیکن بےتوجہی کےساتھ اسامہ برملا کہہ اٹھا کہ “تمہیں کیا ضرورت ہے پڑھنے کی تمہیں کونسی پیشہ کاری کرنی ہے؟ یہ خواب اپنے ذہن سے نکال دو۔” پھر تھوڑی دیر بعد اسامہ کہنے لگا سارا موڈ خراب کردیا جاؤ کھانا گرم کرکے لاؤ۔

یہ رات تھوڑی ذہنی سراسیمگی کےساتھ گزر جاتی ہے، اگلے ہی روز صباء کے والدین صباء کے ہاں حاضری دینے پہنچتے ہیں۔ صباء اور اسامہ ان دونوں کو دیکھ کر لمحہ بھر کےلئے ہشاش بشاش ہوجاتے ہیں، شام کی چائے کےبعد جب صباء کے والدین رخصتی چاہتے ہیں تو اسی دم اسامہ اٹھتا اور کہتا “آیئے میں آپکو چھوڑ دیتاہوں ” راستے میں گاڑی چلاتے وقت اسامہ تسلسل سے فون پر بات کرنے میں مصروف رہتاہے اور اسی لمحہ سامنے سڑک پر ایک ٹرک سے ان کے گاڑی کی ٹکر ہوجاتی ہے لمحے بھر میں تینوں حادثے کی تاب نہ لاتے ہوئے حیات ابدی کی جانب منتقل ہوجاتے ہیں۔ صباء اور اسامہ کے والد کےلئے یہ خبر تازیست کےلیے ایک دلخراش، افتاد کے مانند ٹوٹ پڑی اس حادثے نے تو جیسے صباء کو اندر ہی اندر خراش کررکھ دیا اس حادثے کو مہینہ بھر بھی مکمل نہیں تھا کہ اسامہ کے والد نے صباء سے خفگی آمیز لہجے میں ایک شکوہ کیا کہ “یہ سب تمھارے والدین کی غلطی ہے تمھارے والدین کی وجہ سے میں نے اپنا بیٹا کھویاہے، تم مزید اس گھر میں نہیں رہوگی” اور یہ کہہ کر صباء کو گھر بدر کردیا، اصولاً تو نہ تو اتنی پڑھی لکھی تھی اور نہ ہی کسی کام میں بھرپور مہارت اور نہ ہی اس سے قبل کسی پیشے سے وابستہ تھی۔

گھپ اندھیری رات میں صباء سرڈھانپنے اور قیام کےلئے کسی ٹھکانے کی متلاشی تھی، ایک جگہ اسے بہت سی عورتیں چھوٹی چھوٹی جھروکوں سے منہ باہر نکال کر آوازہ کستی نظر آئیں، اسی لمحے ایک غم خوار خاتون کی نظر صباء کی بھیگی نظروں کی جانب پڑی اس نے صباء کو اوپر بلایا، صباء اسے اپنا درد شریک سمجھ کر اوپر پہنچ گئی، صباء کو وہاں بہت ساری عورتیں نظر آئیں۔ ناک نقشے، چال چلن اور کردار وار عمومی عورتوں سے ازحد مختلف وہ شاید گمان اور اندر سے قیافہ کرچکی تھی کہ یہ ایک قحبہ خانہ(چھلا کوٹھی) تھا۔ یہ محسوس کرنےکے بعد صباء سیڑھیاں رفتاری سے گزر چکی اس غم خوار عورت نے دریچے سے منہ نکال کر پیچھے سے صباء کو آوازہ کسا کہ ” میری جان کہاں جارہی ہو ایک دن تھک ہار کر یہی ہی آنا ہے اسی طرح تم نے بھی ہماری طرح عمر کا لمبا سفر تنہا ہی طے کرناہے ”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔