قومی جنگ، ہمارا رویہ – میر حمل

497

قومی جنگ، ہمارا رویہ

تحریر: میر حمل

دی بلوچستان پوسٹ

قومی جنگ اور دہشت گردی میں تفاوت نہ رکھنے والے قومی تحریکوں سے ناواقف ہیں، اپنی بقاء کی جنگ کو کوئی کیسے دہشت گردی سے تعبیر کرسکتا ہے، ایسے لوگ لفظ دہشت گردی کو بولتے اور لکھتے ہیں لیکن اس کی مفہوم سے نابلد ہیں۔ دشمن قومی جنگ اور بلوچ جہد کاروں کے خلاف یہ لفظ استعمال کرے کوئی دکھ اور تکلیف نہیں ہوتی لیکن اگر اس جہد میں شامل کوئی ساتھی ایسا عمل کرے تو یہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ ایک طرف افتادگان خاک اپنی تمام خواہشات کو گھونٹ کر اپنی زمین پر جانیں نچھاور کررہے ہیں، ہم جیسے آرام پسند کچھ نہیں کرسکتے تو اپنے کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے تحریک پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ طریقہ کار، خامیوں، کمزوریوں پر بات ہوسکتی ہے، جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کو دور کرنے کے لئے بات کی جاسکتی اس کی گنجائش موجود ہے لیکن تحریک اور شہیدوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے، جہد کاروں کو دہشت گرد اور فاشسٹ قرار دینے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ آرام پسند یورپ میں بیٹھ کر بلوچ قومی تحریک کو قومی آزادی کی تحریک سے انسانی حقوق کی جدوجہد میں تبدیل کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لئے یہ تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا بلکہ تحریک آزادی کی وجہ سے لوگ لاپتہ ہوئے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، گمشدگیاں،قتال یہ آزادی کی تحریکوں کا حصہ ہے، کسی بھی خطے میں اگر آزادی کی تحریک کا جنم ہوا ہے تو وہاں ایسے بہت سے پیچیدگیاں جنم لیتے ہیں، ہزاروں انسان آزادی کی تحریکوں میں موت کی منہ میں چلے گئے ہیں۔ آزادی کی تحریکوں میں خون ایندھن کا کام دیتی ہے جس طرح روشنی کے لئے چراغ میں تیل ضروری ہے۔ اسی طرح خون سے ہی آزادی کی چراغ روشن ہے اور نوجوان جذباتی نہیں بلکہ شعوری بنیادوں پر اپنا لہو آزادی کی راہ میں نچھاور کررہے ہیں، وہ علم کو عمل میں پرو رہے ہیں۔

دنیا کے دیگر لیڈروں کو عظیم مانتے ہیں، ہمارے اپنی زمین سے چی گویرا، نکروما، سپارٹکس، جنم لے رہے ہیں انہیں ہم فاشسٹ قرار دیتے ہیں، یہ ہماری علمی،فکری نا پختگی کا مظہر ہے، اب تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں ہم ہیں کون، سیاسی عمل جب ساکت ہوگی تو ایسے بے عمل لوگ مسلط ہونگے جو ہر قدم پر مایوس ہونگے۔

سوشل میڈیا پر سیاسی کارکنوں کی حرکات کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہ کسی سیاسی عمل کے پیداوار ہیں بلکہ حالات اور حادثات کی پیداوار کچھ غیر شعوری لوگ سیاسی عمل پر مسلط ہیں، اس وجہ سے بلوچ سیاسی عمل زوال پذیری کا شکار ہے۔ سیاسی پارٹیاں نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ کچھ خاندان اور گروہوں نے پارٹیاں بنائے ہیں، جو عملی سیاست کے بجائے منفی پروپیگنڈوں کے ذریعے صرف سوشل میڈیا پر اپنی ساکھ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

ان گروہوں کی سیاست عملی میدان کے بجائے فیس بک پر خوب سجتا ہے، جگت بازی، طنز، اور بہتان تراشی ان کا مشغلہ ہے، میں نے کھبی نہیں دیکھا کہ سوشل میڈیا کی پلیٹ فارم پر مثبت و نتیجہ خیز علمی و فکری بحث مباحثہ ہو، سیاسیات، تاریخ، ادب، فلسفہ، سائنس پر بات ہو جس سے کارکنوں اور طالب علموں کی شعوری ذہن سازی ہوسکے یا وہ کچھ سیکھ سکیں۔ ہماری سیاست علم و فکر کے بجائے بوتاروں کی تصاویر اور بے جاء، بے مقصد خوشامد کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ ان گروہوں کے ایمپلائز یہ ثابت کرنے میں لگے ہوتے ہیں کہ کون بڑا لیڈر ہے، لیڈر شوخ تصاویر لینے، باتوں اور فیس بک ڈی پی تصاویر لگانے سے نہیں بنا جاتا، اس کے لئے کھٹن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، تکالیف جھیلنا پڑتا ہے، سیاست اور سیاسی داو پیچ پر عبور رکھنا پڑتا ہے، علمی، ذہنی لحاظ سے پختہ ہونا پڑتا ہے، علاقائی و عالمی سیاست پر نظر رکھتے ہوئے، حکمت عملی بنانا پڑتا ہے، لیکن بلوچ تحریک میں اس کے برعکس ہے خاندانی قربانیوں پر کھڑے ہوکر لیڈری کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ کوئی مرکز، کوئی ڈسپلپن، کوئی ادارہ کوئی کسی کو جوابدہ نہیں اب یہ روایتی اور خاندانی سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ کرکے حقیقی بنیادوں پر ادارے تشکیل دے کر سیاسی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔

آزاد کا کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملے کے بعد جو بیانیہ سامنے آیا ہے، اس پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے، جن لوگوں کا مزاحمتی تحریک میں کوئی عملی کردار نہیں وہ اس حملے کی مذمت کررہے ہیں اور حملے کو مسنگ پرسنز کی جاری احتجاجوں کے خلاف تصور کررہے ہیں، یہ ایک عجیب منطق ہے کہ قومی آزادی کی جنگ کو روکنا چاہیے کیونکہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھاسکتے، مسنگ پرسنز سے زیادہ انہیں خطرہ اپنے اسائلم کا ہے اس لئے یہ ٹولہ حد سے زیادہ مہذب بننے کا ڈرامہ رچا رہے ہیں، تحریک میں افراتفری پیدا کررہے ہیں، جن کو بلوچ قوم اور قومی تحریک کا نمائندہ بنا کر بھیجا گیا وہ اب قوم پرستی کو فاشزم سمجھتے ہیں، قومی آزادی کی تحریک کو انسانی حقوق کی تحریک بنا بیٹھے ہیں جن کو حق خودارادیت پر اعتراض تھا اب وہ صوبائی خود مختاری سے بھی کم مطالبے پر آگئے ہیں اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ آزاد بلوچ نامی ترجمان کا انتہائی بچگانہ بیان نظروں سے گزرا جو اپنے غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے تحریک کیخلاف وعدہ معاف گواہ بن کر بیان جاری کررہے ہیں اس سے ایک تنظیم کو نقصان نہیں بلکہ مجموعی طور پر تحریک پر منفی اثرات پڑیں گے اس سے آزاد نے بی ایل اے کو انڈیا کا پراکسی قرار دیا تھا۔ آج انڈین ریٹاہرڈ میجر کے ساتھ ٹاک شوز میں ڈسکورس کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، اب بی ایل اے کو ایران کی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں ان کا یہ بیان ان کے لئے فائدہ مند ہوسکتی ہے تحریک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔

آزاد تحریک کو انڈیا کی پراکسی قرار دے کر پاکستان سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا اب بی ایل اے کو ایران کا ایجنٹ قرار دے کر سعودی سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔