نورا نور ہے – شہیک بلوچ

260

نورا نور ہے

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نورا زندہ ہے، نورا نور ہے, نور تو پھیلتا ہے، نورا کے نور سے آج وطن کا کونا کونا منور ہوچکا ہے۔ شہید شہیک و دلجان سے لے کر نورا تک ایک قافلہ ہے، عشاق کا نہ رکنے والا قافلہ اور نا ہی تھکنے والا قافلہ۔

یہ وہ قافلہ ہے جس میں دھرتی کے فرزند اپنے قول پر پورا اتر کر منزل کو مزید واضح اور نزدیک کرتے جارہے ہیں۔ اب یہ بلوچ قوم کی تحریک چند مخصوص بڑے ناموں یا چند قبائل کی بغاوت نہیں بلکہ اس میں پورے قوم کی ترجمانی ہے۔ اب یہ لڑائی کسی بڑے نام کی خاطر نہیں لڑی جارہی، اب یہ لڑائی بلوچ مادر وطن کی آبرو کے لیے لڑی جارہی ہے۔ بلوچ دھرتی کے غیور فرزند نوآبادیاتی نظام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

ان سرکلز میں ہونے والی باتیں وہ شعوری تربیت آج ہر میدان میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ چاہے جو بھی ہو لیکن بلوچ فرزندوں نے ریاستی جبر کے آگے قومی تحریک کے آبرو کو بڑی بہادری کیساتھ برقرار رکھا ہے۔

شہیک جو تحریک کے اندرونی انتشار کو لے کر پریشان تھا، جو اتحاد کی تشنگی کو لے کر بھٹک رہا تھا، جو ہر بات میں اتحاد و یکجہتی کا پیامبر تھا۔ آخری وقت میں اپنے رستے خون و گہرے زخم کو لے کر وہ کسی ذاتی خواہش کی بجائے اس تحریک کو منظم کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ اس حالت میں بھی وہ تحریک کو لے کر سنجیدگی سے اتحاد کا درس دیتا ہے۔

دوسری جانب دلجان جو تحریک کو منظم دیکھنا چاہتا تھا، جو اتحاد کی ہر سنجیدہ کوشش میں پیش پیش نظر آتا تھا۔ جوکہیں بھی نفرت زدہ سوچ کا شکار نہیں ہوتا، جو اس جدوجہد کو بڑے ناموں کی نظر ہونے نہیں دینا چاہتا تھا۔ جس نے منظرنامہ کوبدلنے میں کردار ادا کیا۔ جو دشمن کے لیے بیرگیری جذبہ رکھتا تھا۔ وہ بھی اسی تگ و دو میں ہم سے جدا ہوا کہ کس طرح مظلوم بلوچ قوم کی اس تحریک کو کامیاب بنایا جائے۔

نورا جس نے اتحاد کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے خود اپنا نورانی کردار ادا کیا۔ نورا جو قہر بن کر نوآبادیاتی منصوبوں پر ٹوٹ پڑتا تھا۔ نورا جو دھرتی پر مٹ کر امر ہوگیا۔

آج بلوچ دھرتی کے یہ عظیم فرزند اپنے مادر وطن کے سینے میں آرام کررہے ہیں لیکن آخری سانس تک ان کے سنجیدہ کردار نے جہاں دشمن کو تکلیف دی، وہیں ان کی جدائی ہمارے لیئے ایک تکلیف دہ خلاء کا احساس ہے گوکہ تحریک بغیر قربانیوں کے نہیں چلتی لیکن بلوچ تحریک میں اگر یہ کردار مزید ہوتے تو تحریک کو مزید مستحکم کرتے۔ آج یہ کردار بلوچ تحریک کے بنیاد بن چکے ہیں، اب بلوچ تحریک کی رہنمائی یہ کردار ادا کرتے رہینگے۔

انہوں نے جس خلوص نیت سے اپنا کردار ادا کیا اور جس طرح سنجیدگی سے تحریک کو آگے بڑھایا، اب یہ دیگر تمام بلوچ جہدکاروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس خلاء کو پر کرنے اور جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے سنجیدہ کردار ادا کریں۔

بلوچ قومی تنظیمیں اپنی پالیسیوں پر ازسر نو غور کرتے ہوئے اس بات پر بھی توجہ دیں کہ گذشتہ مسلسل چند واقعات میں اہم کرداروں کو ریاست ردعمل کے طور پر نشانہ بنا رہا ہے، جو تنظیموں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ جنرل استاد اسلم سے لے کر نورا تک ریاست کے لیے جس طرح سافٹ ٹارگٹ بنے اس پر مستقبل میں لائحہ عمل طے کرنا لازمی ہے تاکہ ریاست آئندہ آسانی سے ردعمل نہ دے سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔