مٹّی اور نمک – افراسیاب بلوچ

290

مٹّی اور نمک

تحریر :  افراسیاب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سنگت احسان جان اور شاہ داد جان نے میری طرح سب بلوچ دوست واحباب کے ساتھ ساتھ باقی قومیت کے احباب کو بھی ایک گہری سوچ و فکر میں مبتلا کردیاہے۔ کیسے ایک ریاست کے “نمبر ون” جامعہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، بجائے سرکاری دفاتر میں “ڈیسک جاب” کرنے کے انہوں نے پہاڑوں کا رخ کیا؟.

سیاسی حالات کے مدنظر جامعہ کے احباب نے تو یہی موُقف بنایا کہ احساسِ محرومی اور سیاسی و معاشی پسماندگی نے اُنھیں یہ راستہ اپنانے پر مجبور کردیا. یہاں تک کہ یورپ سے “پی ایچ ڈی” کرنے والی ایک پروفیسر بھی اپنے احساسات وجذبات کو اپنے مرے ہوئے قابل طالب علم کیلئے روک نہ سکی. انہوں نے بھی یہی موّقف دیا کہ شاہ داد اور احسان جیسے بلوچ طالب علموں کو اور انکی صلاحیتوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے.

یہ سنہ 2001 کی بات ہے جب میں جب میں تیسری جماعت میں صوبے کے ایک نجی سکول سے تعلیم حاصل کر رہا تھا. تب معلوم ہوا کہ “دنیا کا سب سے بڑا نمک کا کان پاکستان میں کیّوڑا کے نام سے جانا جاتا ہے”. اس اہم معلومات کو گھر جاکے اپنے ابّا حضور سے شیئر کیا تو ابّا مجھے شاباشی کے ساتھ ایک نصحیت بھی کی “کہ بیٹا نمک صرف کھانے میں استعمال نہیں ہوتا, اسکا قرض بھی چکانا پڑتا ہے”.

پھر چار سال بعد 2005میں جب میں ساتویں جماعت میں تھا. تب معلوم ہوا کہ خطّے میں سب سے زیادہ سونا سیندّک اور ریکوڈک کی مٹّی میں موجود ہیں جوکہ بلوچستان میں ہے. اس بار بھی اہم معلومات کو گھر لے جانے گیا تو چچا سے روبرو ہوگیا. انکے ساتھ اس معلومات کو شیئر کرنے پر بھی نصیحت ملی “کہ مٹّی سے صرف معدنیات نہیں نکلتے بلکہ اسکا قرض بھی چکانا پڑتا ہے”.

اسی قرض چکانے کے دو مختلف پہلؤں کو سمجھنے کیلئے کافی سال لگے. تب جاکے ریاست کے “نمبر ون” جامعہ میں داخلہ مل گیا. جہاں مجھ جیسے اور بھی بلوچ زیر تعلیم تھے، جو سمجھ چکے تھے کہ زندگی کرنے کیلئے اور اپنے بلوچ قوم کی احساس محرومی اور سیاسی و معاشی پسماندگی کو دور “نمک کا قرض چکا کر ہی کیا جاسکتا ہیں”. جس میں اعلیٰ معیار تعلیم اور ریاست کے بڑے اداروں میں “ڈیسک جاب” کرکے ہی ممکن ہے.

جب یہی مؤقف میں اور میرے ساتھ باقی ترقی پسند بلوچ دوست, شاہ داد اور احسان کو بتانے گئے چونکہ وہ دونوں نئے نئے داخلہ لے چکے تھے. تب ہی شاہ داد نے اپنے نمدیدہ آنکھوں سے مجھے یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ “افراسیاب تم نمک کا قرض ادا کرو اور میں مٹّی کا قرض ادا کرتا ہوں”.

اب احباب کو کون سمجھائے کہ احسان و شاہ داد تو دیوانے اور پاگل تھے. اُن کم عقلوں اور مجنؤں کو تو اپنا خون وطن کی مٹّی میں ملانا تھا. تاکہ مجھ جیسے اور باقی بلوچ دوستوں کو مٹّی میں ضم انکی خون کی خوشبو محسوس ہوسکے..
“”اور شاید ہم بھی خود کو مٹّی کا قرضدار مان لیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔