شھید اسلم کی کچھ یادیں – ظہیر امام

484

شھید اسلم کی کچھ یادیں

تحریر: ظہیر امام

دی بلوچستان پوسٹ

شہید اسلم ایک ایسے انسان تھے کہ ان کو کسی سے لینا دینا نہیں تھا، وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ شھید اسلم جان اپنی غریبی میں مشغول تھے لیکن ایک دن ایک موٹرسائکل والا آیا، میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ہمارے گھر کے پچھے رک گیا، میں دیکھ رہا تھا، اس نے مجھے آواز دی، میں وہاں پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ میں ایک آدمی کے تلاش میں ہوں کیا آپ مجھے بتا سکتے ہو کہاں ملے گا؟ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا، میں نے اس کو جواب دیا جی ہاں! میں نے پوچھا وہ کون ہے؟ وہ کہنے لگا اسلم تیرا کیا ہے؟ میں نے جواب میں کہا جی وہ میرا چچا ہے، وہ گھبرائے کہنا لگا کہ مجھے ان سے ملنا ہے۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، وہ کیوں ایسے پوچھ رہا ہے، میں نے اس سے کہا کہ وہ ایک کسان ہے، وہ ابھی اپنے زمینوں پر کام کر رہا ہے۔ اگر اسے ملنا چاہتے ہو تو اسے ابھی وہاں پر جانا ہوگا، اپنے زمینوں پہ ہے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کو اسلم سے کیا کام ہے؟ وہ بندہ بولا مجھے ان سے کچھ باتیں کرنیں ہیں۔ اس وقت میرے دل میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ایجنسی والا ہے، میری ماں نے مجھ سے پوچھا وہ کون تھا تو میں نے ماں کو جواب دیا وہ ایک بندہ تھا، چچا کا پوچھ رہا تھا۔ تو ماں نے بولا اُس کو کیا کام تھا؟ میں نے بولا وہ بس اسلم کے بارے میں پوچھ رہا تھا، امی نے مجھ کو بہت ڈانٹا، تم کو عقل نہیں ہے، حالات اتنے خراب ہیں، تم نے اُس کو اسلم کی بارے میں کیوں بتایا؟

میں اس وقت گیارہ سال کا تھا مجھ کو اتنا معلوم نہیں تھا، ماں بہت پریشان ہوئی، میں بھی پریشان ہوا، کچھ دیر بعد میں نے دیکھا اسلم آرہا تھا۔ میں اسلم کو دیکھ رہا تھا، اسلم آیا میری ماں نے اسلم کی طرف دیکھا، رونے لگی، ماں نے پوچھا اسلم جان آپ اس وقت آئے ہو، اسلم نے جواب دیا وہ بندہ پھر واپس آیا بولا آپ کو کرنل نے بلایا ہے، میری ماں نے شھید اسلم کو بولا تم مت جاو اسلم جان نے جواب دیا کیوں؟ ماں نے بولا حالات بہت خراب ہیں۔

اُس وقت ہم جس شہر میں تھے، اُس شہر میں بلوچ سرمچاروں نے تین ایجنسی والے مارے تھے دو تین دن پہلے، ماں نے بولا مت جاو، اسلم جان نے جواب دیا میں ابھی جاتا ہوں، پھر آؤنگا۔ شھید اسلم کے باپ میرا دادا بولا اسلم میں تہمارے ساتھ آؤنگا، شھید اسلم بولا ٹھیک ہے وہ گھر سے نکلے میں اور میری ماں نے ان کو خدا حافظ کہا، میری ماں رونے لگی، میں نے بولا ماں آپ کو کیا ہوا ہے؟ ماں نے جواب دیا پتہ نہیں اسلم واپس کب لوٹے گا، جب میں مدرسے سے گھر آیا تو سب لوگ پریشان تھے، دو دن کے بعد میرا دادا آیا۔ اُس نے بولا اسلم جان کو فوج نے گرفتار کیا ہے۔ تین دن کے بعد میں اور میرا دادا پھر فوجی کیمپ پہنچے، تو وہاں کرنل کے پاس گئے، کرنل نے کہا آپ کا بیٹا بلوچ سرمچاروں کے لے راشن، پٹرول وغیرہ بازار سے خرید کر لے جاتا ہے۔ میرا دادا بہت پریشان ہوا، کہا ایسا نہیں ہے۔ پھر اگلی صبح ہم بازار گئے تو ایک دکان دار نے میرے دادا سے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہو؟ میرے دادا نے ان سے مخاطب ہو کر کہا، ہم فوجی کیمپ جارہے ہیں۔ دکاندار نے کہا آج خضدار نال میں ایک لاش برآمد ہوئی ہے، پتہ نہیں وہ بندہ کون ہے؟ میرا دادا بہت گھبرا رہا تھا، ہم وہاں سے واپس ہوکر گھر جارہے تھے دادا کو سب کچھ پتہ تھا لیکن وہ مجھے نہیں بتارہا تھا، ہم جب گھر پہنچے تو میرا دادا رونے لگا، ہم سب پریشان ہوگئے، سب لوگ مجھے پوچھ رہے تھے کیا ہوا ہے؟ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کچھ لمحات کے بعد میرے دادا کہنے لگا پاکستانی فوج نے اسلم کو شہید کردیا ہے، لاش کو خضدار نال میں پھینک دیا ہے۔

ان ظالموں نے شہید اسلم کو مار مار کر شہید کر دیا ہے حالانکہ وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہا تھا، وہ اپنی غریبی میں مصروف تھا، کسی جھوٹی الزام میں ان کو شہید کیا گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔