بلوچستان کے باشندوں کے لیے تعلیمی دروازے بند کیوں؟ – ارسلان بلوچ

200

بلوچستان کے باشندوں کے لیے تعلیمی دروازے بند کیوں؟

تحریر: ارسلان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو روز بند کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں، اپنے کئے کرتوت چھپانے یا مراعات بنانے کے چکروں میں بلوچ کو اندھیروں کی طرف دھکیلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ وہ بلوچستان کے بارے میں لاعلم رہیں۔

بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں ہر کسی کو کوئی مسئلہ ضرور درپیش ہوتا ہے، اور یہ مسائل باقی صوبوں میں کہیں نظر نہیں آتے، وہ صرف بلوچستان میں نظر آتے ہیں۔

کبھی بلوچستان یونيورسٹی میں کیمرے لگائے جاتے ہیں، تو کبھی ڈیرہ بگٹی کے ایک نجی اسکول میں، اور کبھی بولان میڈیکل کالج کوٸٹہ میں مسائل پیدا کئے جاتے ہیں، کبھی پنجاب کے یونيورسٹيوں میں بلوچ طلبہ پر لاٹھی چارج کی جاتے ہے، کبھی ملتان میں بلوچ طلبہ پر تشدد کرکے اُن پر فائیرنگ کی جاتی ہے، اور کبھی غربت کے وجہ سے فیس عدم ادائیگی کے بنا پر ان کے داخلے مسترد کی جاتی ہیں، جس سے اُن کی سالوں کا محنت ضائع ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ کچھ مہینے پہلے بلوچستان یونيورسٹی کوٸٹہ کے ہاسٹل میں واش رومز تک میں کیمرے لگائے گئے تھے، جن کے بدولت وہاں کے طالبات و اساتذہ کو بلیک میل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں، اس غیر اخلاقی عمل کے بعد سینکڑوں طالبات مجبور ہوکر اپنی ڈگریوں کو چھوڑ کر چلی گئیں۔

اس سے چند مہینے بعد ایک اور واقعہ بولان میڈیکل کالج میں ہوتا ہے، جہاں طلبہ کے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کی جاتی ہے، جو کہ عام طلبہ برداشت نہیں کر سکتے، جس کے خلاف احتجاج بھی کی جاتی ہے اور حکومت سے فیسوں میں کمی کی اپیل کرتے ہیں۔

اس احتجاجی ریلی سے پہلے سینکڑوں طلبہ، طالبات فیس ادائيگی سے قاصر رہتے ہیں اور اپنے تعلیمی ادارے کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، جو کہ ایک المیہ ہے۔

بی ایم سی کے بعد بلوچستان کے دوسرے بڑے ضلع خضدار میں شہید سکندر یونيورسٹی کو جھالاوان میڈیکل کالج میں ضم کرنے کی کوششيں و سازشیں کی جاتی ہیں، جس میں طلبہ یکجا ہوکر حکومت کے ایسے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، اور پریس کلب خضدار کے سامنے ایک احتجاجی اور پُر امن ریلی میں کچھ مقررین شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے خطاب کرتے ہیں، خضدار میں تعلیمی اداروں کی بندش ہمارے نسلوں کو زوال کی طرف لے جانے کی سازش ہے، ہم ہرگز ایسی سازشوں کو کامیاب ہونے نہیں دینگے اور کچھ دن بعد حکومت مجبور ہو کر شہید سکندر یونيورسٹی کو بحال کرتی ہے۔

کچھ دن پہلے حکومت کی طرف سے ایک نوٹفکیشن جاری ہوتی ہے، جس میں پولی ٹیکنیکل کالج اور سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی کیمپس کو ختم کرنے کی سفارش کی جاتی ہے، جس کا مقصد طلبہ و طالبات کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازشیں ہیں ، ہم طلبہ و طالبات متحد ہو کر ایسے فیصلے کامیاب ہونے نہیں دینگے۔

خضدار کی عوام پہلے بھی ایسے فیصلے مسترد کرچکی ہے اور آئیندہ بھی مسترد کریگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔