چار ہزار قدم چلیں، صحت مند رہیں – گریچن رینالڈز

359

چار ہزار قدم چلیں، صحت مند رہیں

تحریر : گریچن رینالڈز :  نیو یارک ٹائمز

دی بلوچستان پوسٹ 

چارہزار قدم روزانہ چلنے سے ہم قبل از وقت موت کا رسک کافی حد تک کم کرسکتے ہیں، بے شک یہ قدم تیز رفتاری سے نہ بھی اٹھائے گئے ہوں، یہ بات واک اور شرح اموات کے موضوع پر ہونے والی ایک نئی اور بڑے پیمانے پر ہونے والی سٹڈی میں بتائی گئی ہے، ایسے حالات میں جب ہم میں سے اکثریت اپنے گھروں تک محدود ہوچکی ہے، اور اس بات پر ایک تشویش میں مبتلا ہے کہ کیا ہم جسمانی طور پر متحرک بھی ہیں یا نہیں، سٹڈی میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ یہ چار ہزار قدم چلنے کیلئے نہ بھاگنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قسم کی جسمانی مشقت اور ایکسرسائز کی ضرورت ہے۔

اس سٹڈی سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہم جب بھی روزانہ چار ہزار قدم چلتے ہیں، خواہ اپنے کمرے کے اندر چلیں یا گھر سے باہر چلیں اور جتنی بھی سست روی سے چلیں، دل کے مرض، کینسر یا کسی بھی دوسری بیماری سے قبل از وقت مرنے کے امکانات پچاس فیصد تک کم ہوجاتے ہیں، حتی کہ اس وقت جب ہم کورونا وائرس جیسی مہلک وباء کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں میں مقید ہوکر بیٹھے ہیں، اس وقت ہر چار میں سے تین امریکی یا دنیا بھر میں کروڑوں انسان اپنے گھروں میں ٹھہرنے کی پابندی پر عمل کررہے ہیں، اس صورت حال میں یہ اہم سوال پیدا ہورہا ہے کہ ہم اپنی صحت اور جسمانی بہتری کیلئے کتنے وقت کیلئے اور کس قسم کی جسمانی ورزش کرسکتے ہیں یا پیدل چل سکتے ہیں؟

خاص طور پر ہمارے موبائل فونز میں اپیس، جسمانی سرگرمیوں کے مانیٹرز یا گھڑیاں لگی ہوئی ہیں، جن کی مدد سے ہم ایک دن میں دس ہزار قدم چلنے کا ریکارڈ بڑی آسانی سے مرتب کرسکتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسی سٹڈیر نہیں ہیں، جو روزانہ دس ہزار قدم چلنے کی بات کو سپورٹ کرتی ہوں، جبکہ بعض حالیہ ثبوتوں سے بتا چلتا ہے کہ دس ہزار قدم روزانہ چلنے کی باتیں انیس سو ساٹھ کے عشرے میں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب چاپان میں پیدل چلنے والوں کی آسانی کیلئے ایک پیڈومیٹر کی فروخت بڑھانے کیلئے ایک مہم شروع کی گئی تھی، اس پیڈو میٹر کا نام ہی جاپانی زبان میں ایسا رکھا گیا تھا، جس کا مفہوم ”دس ہزار قدم“ تھا۔

حال ہی میں ایسی بہت کم سٹڈیر کی گئی ہیں، جن کا مقصد قدموں کی تعداد اور عمر کی طوالت کا تعلق واضح کرنا ہو، جو سٹڈیز کی گئی
ہیں، ان میں بھی لوگوں کی اپنی جسمانی سرگرمیوں کے بارے میں زبانی یاداشت پر یا لوگوں کے ایسے مخصوص گروپس پر انحصار کیا گیا ہے، جن میں بڑی عمر کی خواتین، کا کیشیا کے رہنے والے لوگ یا ایسے افراد شامل تھے جنہیں زبابیطس یا اس طرز کے صحت سے متعلق دیگر مسائل کا سامنا تھا، ان پابندیوں کی موجودگی میں آپ کا فون خواہ کچھ بھی بتائے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ زیادہ تر لوگوں کیلئے جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کیلئے روزانہ کتنے قدم چلنا کافی ہوگا۔

جہاں تک ایک نئی سٹڈی کا تعلق ہے، جو مارچ کے مہینے میں JAMAمیں شائع ہوئی ہے، اس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ریسرچرز نے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کے صحت اور جسمانی سرگرمیوں کے اعداد و شمار میں تعلق کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان حقائق کا تجزیہ کرنے کے لئے انہوں نے نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ایگزامینشن سروے کے ریکارڈز کی طرف رخ کیا،جس میں ہزاروں شہریوں کی اپنی زندگیوں اور صحت کے بارے میں دیا گیا ردعمل شامل کیا گیا ہے، ان جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے شرکاء کے بازوؤں میں ایک ہفتے یا اس سے زیادہ مدت کیلئے ایکٹویٹی مانیٹرز پہنائے گئے تھے، جو اس عرصے میں ان کی نقل و حرکت کو ٹریک کرتے رہے۔

ان ریسرچرز نے پانچ ہزار سے زائد خواتین و حضرات کا ڈیٹا جمع کیا، جو اپنے بازوؤں میں مانیٹر پہنے ہوئے تھے، یہ سب لوگ درمیانی عمر کے یا بوڑھے لوگ تھے، یہ سب کاکیشین نسل کے، سیاہ فام امریکی یا ہسپانوی نسل کے امریکی شہری تھے، جن کا ہر طرح کے سماجی اور معاشی پس منظر سے تعلق تھا، Cancer Epidemiology and Genetice کے ماتحت والے نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے ایک سینئر ریسرچر چارلس میتھیوز جو ایک نئی سٹڈی کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ، ہمیں ایسے سیمپل لینے کی ضرورت تھی، جو امریکہ کے تمام بالغ شہریوں کی نمائندگی کرتے ہوں، ریسرچ کرنے والے سائنس دانوں نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ تمام مردوں اور خواتین نے روزانہ اوسطاََ کتنے قدم واک کی اور فی منٹ اوسطََ کتنے قدم اٹھائے، دونوں طریقوں سے اکٹھے کئے گئے قدموں کے اعداد و شمار سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ امریکی شہری روزانہ کتنا پیدل چلتے ہیں، اور فی منٹ چلے ہوئے قدموں سے ہمیں ان کی نقل و حرکت کی شدت کا پتا چل گیا۔

اس کے بعد ریسرچر نے لوگوں کی ایکٹویٹی کی بنیاد پر گروپس میں تقسیم کردیا جن میں چار چار ہزار قدموں کا فرق تھا۔ (اس تعداد سے انتہائی بامعنی تقابلی جائزہ لینے کا موقع مل گیا) پھر انہوں نے نیشنل ڈیتھ رجسٹری سے ان شرکاء کا ریکارڈ چیک کیا، جن کا پچھلے ایک عشرے کے دوران انتقال ہوگیا تھا اور آخری مرحلے میں ان ریسرچرز نے لوگوں کی نقل و حرکت کے پیٹرن یا انداز کا شرح اموات کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا، ڈاکٹر چارلس میتھیوز کہتے ہیں کہ، ہمیں بہت حیران کن نتائج ملے، انہوں نے بتایا کہ ریسرچر ز کو امید تھی کہ قدموں کی تعداد اور شدت کا شرکاء کی عمر کی طوالت سے باہمی تعلق ثابت ہوگا، مگر جنسی بنیادوں پر تقسیم، عمر، سگریٹ نوشی، باڈی ماس انڈیکس، خوراک اور کئی دیگر عوامل کو کنٹرول کرنے کے بعد قدموں کی تعداد کو صرف مرنے کے رسک کے ساتھ ہی جوڑا جاسکا۔

اسٹیپ انٹینسٹی یعنی قدموں کی شدت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ثابت نہ ہو سکا، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے روزانہ اوسط آٹھ ہزار قدم چلے تھے، ان چار ہزار قدم روزانہ چلنے والوں کے مقابلے میں کینسر، امراض قلب یا کسی دوسری وجہ سے مرنے کے امکانات نصف رہ گئے، اور جن خواتین و حضرات نے روزانہ بارہ ہزار یا اس سے زیادہ قدم چلے تھے، ان کے چار ہزار قدم چلنے والوں کے مقابلے میں مرنے کے امکانات 65فیصد تک کم پائے گئے، مگر ریسرچرز کو شرکاء کے قدموں کی تعداد اور شرح اموات میں کوئی خاص تعلق نہ مل سکا، یہ سٹڈی محض مشاہدات پر مبنی تھی، جس میں ان لوگوں کی زندگی کا ایک لمحے کیلئے مشاہدہ کیا گیا تھا، چنانچہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کیا لوگ زیادہ قدم چل کر زیادہ عرصے کیلئے زندہ رہ سکتے ہیں۔

اس سٹڈی میں صرف متذکرہ بالا دو باتوں کا باہمی تعلق ہی ثابت کیا جاسکا، ڈاکٹر چارلس میتھیوز کہتے ہیں کہ پھر بھی اس ڈیٹا سے ملنے والا پیغام بالکل واضح ہے، اور وہ یہ ہے کہ دن بھر کسی نہ کسی صورت پیدل چلنے کی کوشش کرو، خواہ سست رفتاری سے چلو یا تیزرفتاری سے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔