اب سب کو سب کچھ معلوم ہے – گہرام اسلم بلوچ

196

اب سب کو سب کچھ معلوم ہے

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہوش سنبھالتے ہی ایک کالونی کے اندر زندگی کی شرعات کرنے والے ایک مظلوم قوم کے فرزند سے یہ امید کیونکر کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوکر خوشحال سی زندگی گذارنے کی عادت اپنے اندر ڈال دے اور اُنکو یہ باور کرائیں کہ سب اپنی جگہ درست سمت میں جارہے ہیں اور میرے شہر میں بھوک افلاس دور دور تک نظر نہیں آتا اور نا ہی کوئی خالی پیٹ سوتا ہے۔ علاج سب کو اپنے گھر کے دہلیز پہ میسر ہے ، نظام ِ تعلیم سب کے لیے ایک ہی رائج ہے۔ میرے شہر کے جفاکش و ماہیگیر کے بچے اور میرے وطن کے حکمران کے بچے صبح ایک ایک ہی راستے سے پیدل ایک ہی خستہ حال سکول میں زیور تعلیم سے آرستہ ہورہیں۔ کسی کو بچپن سے یہ تاثر دیکر اور زمینی حالات بالکل اس کے برعکس ہونا کتنی تکلیف دہ ہے۔ اُنکے لیے جنہیں عمر کی ایک دہائی بلکل بے خبر رکھا گیا ہو۔

یہی تقاضہ دنیا کی اور یہی ضروریات اسوقت دنیا بھر میں بسنے والے مظلوم اقوام کی ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہی بنیادی انسانی زندگی کی ضروریات سے خود کو محروم ہوتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور عمر بھر یہی برابری کی زندگی گذارنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اس وقت پوری دنیا کیساتھ ساتھ یہی کچھ ہمارے اطراف میں بھی ہو رہا ہے، جسکی وسائل کے مرہون منت دنیا میں ایک مقام ہے، اُسی کے باسی اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانا دور کی بات ہے دو وقت کی روٹی کے خاطر اٹھارہ گھٹے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ہے میرے مظلوم بلوچستان کے مزدور کی داستان، کہ بھوک افلاس ، پسماندگی ظلم، جبر اب اسکی مقدر کا حصہ بن چکا ہے۔ اور پھراسی سے یہ توقع رکھنا کہ اس بیانئے کی پاسداری کریں کہ ترقی کے راہ میں حائل رکاوٹیں آپکے اپنے ہیں۔

ابھی تو بس اُنکو ہر جگہ افلاس ہی نظر آرہا ہے ، وہ کیسے مان جائے گا کہ جہد مسلسل کے میرے ساتھی کو میرے وجود سے کوئی سرو کار ہی نہیں؟ بے شک اس میدان میں اختلافات کی بھرمار ہوسکتا ہے، مگر ہر ذی شعور کو اپنے دردمندوں کا ادراک ضرور ہے۔ یہی بداعتمادی ایک ہتھیار ہے کہ اپنوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنا۔ مگر وقت اور حالات کیساتھ ساتھ حالات قدرِ مختلف ہیں ہر کسی کو ذمینی حالات کا خود سے جائزہ لینے کا شعور آچکا ہے۔ اب ہر کوئی چیزوں کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب ایک باشعور نوجوان کو اتنی جلدی سے یہ باوار کرانا مشکل ہے کہ آپ کی پسماندگی کے ذمہ دار آپکے اپنے ہیں کیونکہ اب اُنکو بلوچستان سے نکلنے والے وسائل اور اُس پہ کتنا خرچ ہو رہا ہے سب معلوم ہے۔ اب وہ اچھی طرح جان چکا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔