بلوچستان کے لخت جگر نصیر آباد کی پکار – آصف بلوچ

932

بلوچستان کے لخت جگر نصیر آباد کی پکار

تحریر: آصف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ دل خون کے آنسو روتا ہے. جب دیکھتا اور محسوس کرتا ہے. کہ بلوچستان کے لخت جگر، میری شہیدوں کی سر زمین پر ظلم و جبر کے انبار گرائے جا رہے ہیں.کیا تیرے سینے میں جو دل دھڑکتا ہےم اسے درد نہیں ہوتا؟ کیا اسے محسوس نہیں ہوتا کہ اسکی ماں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے؟

نصیرآباد کو 1974ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا. اور یہ نام نصیرآباد اس لیئے رکھا گیا کہ اس سر زمین کے بہادر بیٹے نوری نصیر خان کے نام سے منسوب ہو، یہ سر زمین بنجر ہو کے بھی نوری نصیر خان جیسے بہادر بیٹوں کو جنم دے گی. جو اس لاوارث ماں کا سہارا بنیں گے. اور جب جب اس سرزمیں پہ ظلم ہوگا , جب جب اس سرزمین کے باسیوں پہ مشکل وقت آئے گا، تو یہ بیٹا اپنی اس سر زمین کا بہادر بیٹا ہونے کے ناطے اپنا فرض نبھائے گا اور ہم آواز ہو کر اپنے باقی بھائیوں سمیت ہر ظلم پہ آواز اٹھائے گا.

لیکن! اے میری سر زمین، تیرے اس بیٹے نے تیرے دودھ کا قرض نہیں چکایا. تیرے اس بیٹے نے دودھ کے قرض کو کبھی سمجھا ہی نہیں. بلوچستان میں ہونے والے تمام مظالم پر میری سر زمین کے باقی بھائی چیختے چلاتے رہے. تجھے پکارتے رہےم یہ سرزمین تجھے پکارتی رہی. اٹھ کہ اب وقت ہے آیا. پر لخت جگر خواب خرگوش سوتا رہا. بات آتی ہے پورے بلوچستان میں ہونے والے مظالم کی باقی تاریخ پہ تو بات کرتے نہیں، بس تاریخ کے ان سیاہ دنوں پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، جن میں بلوچستان جھلس رہا تھا اور لخت جگر(نصیرآباد) اپنی خوش گمانیوں میں مگن تھا۔

28 مئی1998ء کو راسکوہ کے مقام پر جب اس سر زمین کے سینے پہ ایٹم بم رکھ کے دھماکے کئے گئے. تو اس وقت وہاں کے مقامی لوگوں کے رگوں میں اس خوش فہمی کی لہر دوڑ اٹھی کہ اگر ہمارے زمین کا سینہ چیر دیا گیا ہے، تو اسکے بدلے میں ہمیں کینسر جیسے مرض سے لڑنے کے لیئے ہسپتال فراہم کئے جائیں گے. ہمیں تعلیم جیسیے زیور سے آراستہ کیا جائے گا. ہمیں زندگی کی تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں گی. لیکن سب کچھ اسکے بر عکس تھا. پھر سے سر زمین چیخ اٹھی اور کہیں نہ کہیں اس چیخ کو پورے بلوچستان کے بیٹوں نے محسوس کیا. کیونکہ اس چیخ میں ایسا درد تھا کہ اسے سنتے ہی بلوچستان کے بیٹوں کے کلیجے پھٹ گئے. اور انہوں نے اس ماں کی آواز پہ لبیک کہا لیکن اسکا نصیرآباد چین کی نیند میں مبتلا سوتا رہا. خیر ماں تو ماں ہوتی ہے ناں.اس لاورث ماں نے امیدوں کی پوٹلی اپنے دامن سے باندھے رکھا کہ ایک نہ ایک دن میرا بیٹا میری چیخ کو محسوس کرے گا، میری پکار پہ آئے گا۔

.وقت گذرتا گیا، ماں کی امیدیں اپنے لخت جگر سے اب بھی وابستہ تھیں26 اگست2006ء کو پھر سے اس بہادر ماں کے ایک عظیم اور بہادر بیٹے نواب اکبربگٹی کو چھین لیا گیا. ایک بار پھر اس ماں کے کوکھ کو اجاڑ دیا گیا.

اس آہ نے اسکے بیٹوں کو ایک بار پھر سے بیدار کیا. لیکن پھر سے اس بلوچستان کو اپنے لخت جگر سےمایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملا.

لیکن ذرا اس ماں کی محبت کو تو دیکھو، اس ماں نے اب بھی اپنے بیٹے کو اپنایا اور اپنے امیدوں کی پوٹلی کو اٹھائے اسی سوچ میں مگن رہی کہ ایک دن میرا یہ بیٹا بھی جاگ جائے گا۔ ایک دن آسمان کا سینہ چیر کے آئے گا. زمین کے چھاتی کو پھاڑ کے آئے گا، اور میری سسکتی ہوئی جان میں ہمت بھر دے گا. اور اپنے بیٹے ہونے کا ثبوت دے گا.لیکن دن گذرتے گئے تاریخ خود کو دہراتی گئی.اور نصیرآباد اس تاریخ میں بس ایک بد نصیبی کی علامت بنتا رہا. اور خود کو اس سیاہ تاریخ میں لپیٹ کر بس یوں سوتا رہا.

اے سر زمین بلوچستان اب تو اپنی امیدوں کو یوں چکنا چور ہونے مت دے. اب تیری پکار کی کوئی اہمیت نہیں، یہاں نصیرآباد وہ بد قسمت خطہ ہے، جو اپنے لئیے نہیں بول سکتا.کیونکہ اس نے کبھی اپنی محکومیّت کو سمجھا ہی نہیں.

ایک ہلکی سی جھلک نصیرآباد میں موجود اوچ پاور پلانٹ پر جو قریباً 800_میگاواٹ بجلی پیدا کرتی ہے. اور پورے بلوچستان کو صرف 600_میگاواٹ بجلی چاہئیے. لیکن یہ بد قسمت نصیرآباد بلوچستان سمیت اس بجلی سے بھی محروم ہے. اور نا ہی کبھی یہاں کے نوجوانوں کو اس محکومی کا احساس تک ہوا ہو.

بس یوں یہ لخت_جگر اب اپنے بیٹے ہونے کا حق بھی کھوتا جا رہا ہے.اور یہ الفاظ ذہن میں آتے ہی واقعی یہ دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا ہےکہ جس دن یہ بیٹا اپنی ماں سے الگ تصور کیا گیا تو کیاہوگا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔