احتیاجِ دقیق جانچ – برزکوہی

680

احتیاجِ دقیق جانچ

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جج نے مصری صدر انور سادات کے قاتل سے پوچھا: تو نے سادات کو کیوں قتل کیا؟
قاتل : کیونکہ وہ سیکولر تھا۔
جج : یہ سیکولر کیا ہوتا ہے؟
قاتل : مجھے نہیں پتہ۔

مشہور مصری ادیب نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے
ملزم سے جج نے پوچھا: تو نے نجیب کو کیوں چھرا گھونپا؟
مجرم: کیونکہ وہ ایک دہشت گرد ہے، اور اس نے دہشت گردی کو شہہ دیتی کتاب “رواية اولاد حارتنا” لکھی ہے۔
جج : کیا تو نے رواية اولاد حارتنا پڑھی ہے؟
مجرم : نہیں۔

جج نے مشہور کاتب فرج فودة کو مارنے والے
تین مجرموں میں سے ایک سے پوچھا: تو نے فرج کو کیوں قتل کیا؟
قاتل: کیونکہ وہ کافر تھا۔
جج : تجھے کیسے پتہ چلا کہ وہ کافر تھا؟
قاتل : اس کی کتابوں سے۔
جج : تجھے اس کی کونسی کتاب سے پتہ چلا کہ وہ کافر تھا۔
قاتل: میں اس کی کتابیں نہیں پڑھتا۔
جج : تم اس کی کتابیں کیوں نہیں پڑھتے؟
قاتل: کیونکہ میں لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔

اکثر ہم اپنے نیم سیاسی سماج میں کچھ زیر بحث سنی سنائی باتوں، اصطلاحات، الفاظ پر جب غور کرتے ہیں، تو ہمیں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی طرح ہمیں بھی کچھ معلوم نہیں ہے۔

مثلاً یہ رٹابازیاں شروع سے بازگشت کررہی ہیں کہ قومی تحریک میں موثر حکمت عملی و پالیسی ہو، ایک پروگرام ہو، تنظیم و ادارہ ہو، سسٹم ہو، انقلابی رویئے ہوں، سائنسی انداز میں جدوجہد ہو، بہترین پلاننگ ہو، بحث و مباحثہ ہو وغیرہ وغیرہ ہو۔

بس اتنا ہی اور آگے کچھ نہیں اگر پوچھا جائے کہ جی بالکل یہ ساری چیزیں ہوں، لیکن کیسے اور کس طرح ہوں؟ تو پھر سامنے سے جواب انہی قاتلوں جیسا بے خبری سا ہوگا۔ گوکہ یہ ساری خوبصورت چیزیں ایک صحت مند تحریک کے لیئے بے حد ضروری اور بنیادی ہیں، مگر ان کو عملی شکل میں لانے اور لاگو کرنے والے کے ساتھ ساتھ سمجھنے اور کہنے والے بھی خود ایک صحت مند سوچ و اپروچ سے لیس ہوکر تحریک میں خود ایک متحرک و فعال کردار کا مالک ہو۔ دوسری اہم بات یہ کہ میں خود اپنے اندر یعنی عملاً کس حد تک ایسی خوبصورت چیزیں پیدا کرچکا ہوں، یا کرسکتا ہوں۔ خود سوچ و اپروچ صلاحیت، ہمت، محنت و ایمانداری و سنجیدگی کا ایک ٹکہ نہ ہو، باتیں و تاویلیں آسمان کو چھولیں پھر ایسے لغو قسم کے دلائل صرف لغو ہی ہوتے ہیں۔ جو صرف بدزنی، مایوسی، الجھن پھیلانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتے اور تحریک پر اس کے مضر و منفی اثرات پڑتے ہیں۔

کہنے کا مقصد سنی سنائی باتوں و خیالوں میں ہم جلدی محو سفر ہوتے ہیں، جو خود الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی الجھن کا شکار بناتے ہیں، بنیادی وجہ ہمارے خود کی لاعلمی ہے۔

نیم حکیم خطرہ جان، نیم مولوی خطرہ ایمان کی طرح نیم دانشور، نیم لیڈر، نیم کمانڈر، نیم انقلابی، نیم سرمچار، نیم سیاسی کارکن، نیم ادیب، نیم صحافی، نیم نقاد، سب کے سب ہمیشہ خطرہ تحریک و خطرہ معاشرہ ہوتے ہیں۔

ایک بری قسم کی نفسیات شروع سے ہمارے بلوچ سیاست کے اندر موجود رہا ہے، جہاں کچھ کرنے کی ہمت و صلاحیت نہ ہو، وہاں ہم خوامخواہ نام نہاد نقاد بن کر نقطہ چینی کے ماہر بن جاتے ہیں، صرف اور صرف اپنی بے عملی کو نام نہاد نقاد کی خوبصورت پردوں میں ڈھانپنے کی خاطر۔ یہ ہم آسانی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، جہاں بھی عمل و کردار موجود ہو، وہاں خواہ مخواہ کے نقاد بننے کا رویہ ظاہر نہیں ہوتا۔

بے عملی اور تحریک میں کردار کے فقدان کی پہلی علامت تنقید برائے تنقید اور صرف نقطہ چینی اور ہر چیز میں کیڑا نکالنا ہوتا ہے۔

ایسے عناصر کی حمایت و حوصلہ افزائی بھی، انکے جیسے ہی عناصر کرتے ہیں، ان میں آپسی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کوئی بھی احساس و ہمدردی کا رشتہ نہیں ہوتا ہے، صرف اور صرف اپنی بے عملی، بے حسی، بے کردار تکھاوٹ و راہ فراریت کے ناجائز و شرمندہ شکل کو جائز و سرخرور شکل دینے کی خاطر وقتی طور پر ہم خیال بنتے ہیں۔ پھر ایک مقام پر یہ ایک دوسرے سے بھی بیزار ہوکر نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ وقتی اور وقت پاسی ہی صحیح مگر طویل مدت تک بے عمل ہوکر صرف نقطہ چینی پر گذارہ کرنا ممکن نہیں ہوگا بلکہ ایسا ماحول خود بیزاری و نفرت کے بیج بو جاتا ہے، جو آخرکار ایک دوسرے سے نفرت و لاتعلقی کا فصل تیار کرتا ہے۔

اصول کی بات ہو تو خود اصولوں پر چل کر، ایمانداری و مخلصی اور سنجیدگی کی بات ہو، تو خود مخلص و ایماندار اور سنجیدہ بن کر، علم و عمل اور کردار کی بات ہو، تو خود علمی و عملی اور کردار کا مالک بن کر تنقید برائے تعمیر، پرمغز و پر نیتجہ اور پراثر بحث و مباحثہ تحریک و تنظیم کے لیے آب و ہوا کی طرح ہوتا ہے، جو ہمیشہ تحریک کو جاندار اور صحت مند رکھتا ہے۔

اگر تنقیدی اصولوں و طرز و طریقے سے نابلدی و لاعلمی ہو، پھر یہ عمل خود تحریک کے دشمن کے منفی پروپگنڈے اور بیانیئے کو موثر انداذ میں تشہیر کرنے کی مترادف ہوگی، براہِ راست دشمن کے پروپگنڈے اور بیانیہ اتنا زیادہ خطرناک و تحریک و قوم پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں لیکن ایسے عناصر جو دانستہ و غیردانستہ ایسے منفی عمل کو سرانجام دیتے ہیں، وہ دشمن کاکام آسان کردیتے ہیں۔

دشمن خود ایسے عناصر و گروہوں کو تحریکوں و تنظیموں میں داخل کردیتے ہیں، ان کاکام ہی صرف یہی ہوتا ہے کہ تحریکی و تنظیمی لوگوں کو جانی اور مالی نقصان ہرگز نہیں دینا، صرف اور صرف ذہنی طور پر نقصان دینا یعنی نقطہ چینی، منفی پروپگنڈے کے ذریعے نفرت، بدظنی و مایوسی پھیلاکر تحریکی لوگوں کو مایوس و ناامید کرکے دشمن کے سامنے سرنڈر کرنے کے مقام تک پہنچانا اور ایسے عناصر کا بلوچ تحریک میں موجودگی خارج ازامکان نہیں ہے۔

آج کہیں بلوچ جہدکار دشمن کے جبر و تشدد، خوف، دہشت، لالچ اور مراعات کی وجہ سے نہیں بلکہ ایسے عناصر کے زہر اگلنے والی منفی پروپگنڈوں، نفرت، مایوسی اور بدظنی پھیلانے کی وجہ سے تحریک اور تحریکی لوگوں سے لاتعلق ہوکر دشمن کے سامنے جھک گئے ہیں۔

ایک بار نہیں بار بار اور مسلسل کمزور فکر لوگوں کے سامنے یہ کہنا اور تبلیغ کرنا کہ کچھ نہیں ہے، تحریک ختم، جنگ ختم، کوئی پروگرام، کوئی پالیسی نہیں ہے، پھر وہ مایوس اور بدظن ہوکر آخر کار دشمن کے سامنے سربسجود ہوجائیگا یا راہ فراریت اختیار کریگا۔

وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ بلوچ تحریک میں ایسے عناصر کی نشاندہی و بیخ کنی ہونا چاہیئے، دوسری بات یہ کہ اگر تحریک و جنگ نہیں، پالیسی و پروگرام نہیں تو یہ سوال ہونا چاہیئے کیسے نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے پھر آپ کا کردار و عمل اس حوالے سے کیا ہے؟ اگر خود کا کردار صفر برابر صفر ہے تو یہ جان لینا چاہیئے، ایسے عناصر دانستہ یا غیر دانستہ دشمن کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں یا پھر ایسے لوگ بھی ہونگے جو مستقبل میں سرینڈر یا راہ فراریت کے سوچ کو لیکر باقیوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ جو خود تو رسواء ہونگے، اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو ملاکر اپنے اس رسوائی کے احساس کو کم کرنا چاہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔