بلوچستان میں جہاد فوج کے خلاف – مولوی عبدالحق

866

بلوچستان میں جہاد فوج کے خلاف

تحریر: مولوی عبدالحق بلوچ مستونگی

دی بلوچستان پوسٹ

لفظ ‘جہاد’کے معنی حق کی حمایت میں انتہائی کوشش کے ہیں۔ یہ لفظ جنگ کے مترادف نہیں ، جسے عربی میں قتال کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔ رضائے الہی کے حصول کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد لفظ ‘جہاد ‘کے معنوی حدود میں داخل ہے ۔ مجاہد وہ شخص ہے ، جو خلوص دل سے خودکو اس مقصد کے لیےوقف کردیتاہے اوراپنی تمام ترجسمانی ، ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو اس راستے میں صرف کرتاہے اوراپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے مخالف قوتوں کو زیر کرتاہے، حتٰی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک کی پروانہیں کرتا۔ جہاد فی سبیل اللہ ایسی جدوجہدکانام ہے۔

جب کوئی جماعت سرکشی پر اتر آتی ہے، تو وہ کوئی ایک فتنہ نہیں ہوتا، جو وہ برپا کرتی ہو؛ بلکہ ان میں طرح طرح کے شیطان صفت انسان بھی شامل ہوتے ہیں اور ہزاروں طرح کے فتنے ان کی بدولت وجود پذیر ہوتے ہیں، ان شیطانوں میں سے تو بعض طمع وحرص کے پجاری ہوتے ہیں، جو غریب قوموں پرڈاکہ ڈالتے ہیں اور عدل وانصاف کو مٹاکر جور وجفا کے علَم کو بلند کرتے ہیں، ان کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں، تو ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں؛ بلکہ فرض ہوجاتی ہے، اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالم بھیڑیوں کے خون سے صفحہٴ ہستی کے سینے کو سرخ کردیا جائے اور ان مفسدوں کے شر سے اللہ کے مظلوم وبے کس بندوں کو نجات دلائی جائے، جو شیطان کی امت بن کر اولادِ آدم پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں، وہ لوگ انسان نہیں؛ بلکہ انسانوں کی شکل وصورت میں درندے اورانسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں، جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی ہے کہ ان کو صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے، ایسے وقت میں ہر سچے، بہی خواہ انسانیت کا اولین فرض ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور اس وقت تک آرام نہ کرے، جب تک کہ خدا کی مخلوق کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق اور زمین واپس نہ مل جائیں۔

یہی فساد وبدامنی ظلم وجبر کے خلاف جنگ ہے، جس کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو ہتیھار اٹھانے کا حکم دیا ہے،

ایک خونخور ریاست پاکستان کے خلاف اب بلوچ قوم کے ہر فرزند ، مرد عورت پر فرض ہے کہ ان کے خلاف جہاد کرئے، کیونکہ اس نے صرف قبضہ گیریت کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی بے رحمی سے تذلیل کیا ہے، جو تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے بعد ان کو بےرحمی سے شہید کردیا گیا، ہزاروں ماوں سے ان کے بیٹے، بہنوں سے ان کے بھائی اور بچوں سے ان کے باپ چھین لیئے گئے ، گوادر سے ڈیرہ غازی خان تک ان لوگوں نے بلوچستان کو خون میں نہلایا ہے، ایسا شہر ایسا گلی اور گھر نہیں جہاں سے لوگوں لاپتہ اور شہید نہیں ہوئے ہیں، شہر سے زیادہ اب قبرستان آباد ہورہے ہیں ، ظلم یہاں تک ختم نہیں ہوا بلکہ ہمارے ماوں اور بہنوں کو کیمپوں میں منتقل کرتے ہیں ، اگر اب بھی پاکستان کے خلاف جہاد فرض نہیں ہوگا تو پھر کب ہوگا، ان کے کافروں کے خلاف ہر بلوچ نوجوان مرد کو نکلنا ہوگا اور بلوچستان کے آزادی تک جہاد کرنا ہوگا۔

قابض پا کستانی فوج میدان جنگ میں بلوچ سرمچاروں سے بری طرح شکست کھانے کے بعد مشکے ،آواران،مستونگ اورکو ہلووڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں معصوم اور نہتے بلوچ خواتین ، بچوں ، بوڑھوں کوگرفتار کر نے کے بعد تشدد کر کے ان کی لاشیں پھینک رہا ہے، گھروں پر حملہ آور ہوکر انہیں لوٹا اور جلا یا جارہا ہے۔

بلوچستان میں ظلم،جبر اور استحصال میں پاکستانی فوج کے ساتھ بلوچستان کی گماشتہ سیاسی پارٹیاں بھی شریک ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ظلم اور جبر کی راہ ہموار کرنے میں ان کی مدد شامل حال ہے، دوسری جانب بلوچستان میں میڈیا کی چشم پوشی کوئی نئی بات نہیں ہے، بلوچ عوام ہمیشہ سے ہی پاکستانی جارحیت اور بر بریت سہتے ہوئے میڈیا کے تعصب کا شکار رہے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستانی فورسزبلوچ آبادی پر بمباری سے گریز نہیں کرتا کیونکہ بمب برسانے والوں کے علاو ہ صرف وہی لوگ اس بربریت کے بارے میں علم رکھتے ہیں، جن پر بم برس رہے ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں، اغوا ء نما گرفتاریوں ، بلوچ جہدکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ، اور بلوچ آبادیوں پر پاکستانی بمباری جیسے کئی انسانیت سوز اقدامات پر پاکستانی میڈیا پر خاموشی اس لئے طاری رہتی ہے کیونکہ یہ سارے اقدامات پاکستانی اداروں کی کارستانیاں ہوتی ہیں۔ پاکستانی قبضہ گیر ادارے بلوچ فرزندوں کو اغوا کرکے سالوں سال ٹارچر سیلوں میں رکھنے کے بعد اُن کی لاشوں کو مسخ کر کے جنگلی جانوروں کے سامنے پھینکتے ہیں، بلوچ ماؤں اور بہنوں کو شہید کیا جاتا ہے لیکن میڈیا اپنی خاموشی توڑنے کے بجائے فورسز کا ترجمان بنتے ہوئے بلوچ بچوں اور بچیوں کو دہشت گرد کہنے سے بھی نہیں کتراتی، ان تمام ظلم وجبر بے بعد آزادی کی جنگ کو روک نہیں سکتی ، اور ہر نئے بلوچ فرزند صبح کی سورج کی طرح اٹھتا ہے اور اس جہاد میں شامل ہوتا ہے۔

قرآن وحدیث کے صفحات بھرے پڑے ہیں، یہی وہ حق پرستی کی جنگ ہے، جس میں ایک رات کا جاگنا ہزار راتیں جاگ کر عبادت کرنے سے بڑھ کر ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔