شہرِ سسی بارود کا نذر – کلمت بلوچ

495

شہرِ سسی بارود کا نذر

تحریر: کلمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

رومانوی قصوں، عشاق کے پنوں اور دنیا کے لوک داستانوں میں اس شہر کا نام اپنا ایک الگ پہچان رکھتا ہے، اس شہر کو اگر آپ مہر و محبت کا ڈگر کہیں تو بےجا نہ ہوگا. بلوچستان کے مشہور شہر حب چوکی اور انتہائی گرم علاقہ اوتھل کے درمیان ایک چھوٹا سا شہر وندر نام سے مشہور ہے، یہاں کسی دور میں روڈ پر ایک جھونپڑی نُما ہوٹل ہوا کرتا تھا، وندر نام محض اسی جھونپڑی کا ہی نام ہوا کرتا تھا، سسی پُنھو کی داستان محض اُس وقت اس شہر کے ریگستان میں ملا کرتا تھا لیکن آج کل بلوچستان کے دیگر علاقوں سے لوگ ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اب اس جھونپڑی کی جگہ نئی ریسٹورنٹ، دوکانیں اور دوسرے کاروباری مراکز نے لے لیا ہے. اس جھونپڑی کا وجود ہی اب نہیں ملتا. اور ایک بات یہاں مشہور ہیکہ یہاں چوری کرنے والا جتنا بھی ہوشیاری سے اپنا ڈکیتی انجام دے لیکن وندر میں وہ پکڑا جاتا ہے اور سسی کے مُریدوں سے اکثر یہ بات سننے کو ملتا ہے کہ یہ شہر سسی کا شہر ہے، اس پر سسی کی دعا کا اثر ہے اس لئے اس شہر میں بسنے والوں پر کوئی بھی میلی نظر سے دیکھے تو اندھا ہو جائے یا پھر خود اپنے چال کے جال میں پھنس جائے.

خیر یہ سسی کے عقیدت مندوں کے قصے ہیں کہ اس شہر پر سسی کے دعا کا اثر ہے لیکن یہاں حقیقت کچھ اور ہے، یہاں سچائی سے سب نے اپنے آنکھوں پر کالی پٹی باندھے ہوئے ہیں، سسی اب ان بے حسوں کیلئے پناہ نہیں مانگتی، یہ شہر سسی کا تھا اس کو یہ نام بھی سسی نے عطا کردیا لیکن آج اس شہر کے ساتھ وہی سب نا انصافیاں ہو رہے ہیں جیسے سسی اور پنھو کے ساتھ اُس کے اپنوں نے کیا تھا، اس شہر پر ایک بلا کا سایا ہے. ایک چڑیل کئی برسوں سے اس شہر کے چہرے کو نوچ رہی ہے. اس شہر میں اب اژدھاؤں کا بسیرا ہے، سسی نے اس شہر کو جس کیفیت کی وجہ سے یہ نام(وندر) دیا تھا وہ رونق اور وہ کیفیت اب اس شہر سے چھین لیا گیا ہے، یہاں غیروں نے گھر کرلیا ہے یہاں پر اپنوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے غیروں کو اپنا مسیحا سمجھا جاتا ہے یہ شہر اب سسی کا شہر نہیں رہا اس پر غیر مہذب طاقتوں کا قبضہ ہے.

کچھ دن قبل اس شہر میں کسی دوست کے پاس اس لئے ٹہرا کہ یہاں رومانوں کی ایک ہستی موجود ہے، جس کے وفاؤں کی چراغ کو آج بھی محبت کرنے والے روشن دیکھتے ہیں، اور سُنا تھا کہ یہاں سسی کے پیروں کی آہٹ اور پُنھو کے عاجزی میں صدائیں ہر وقت محسوس ہوتے ہیں لیکن یہاں مجھے نہ سسی کی آثار ملے نہ پُنھو کی صدائیں یہاں کے فضاء میں آلودگی کے سوا کچھ بھی نہ تھا، یہاں جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کا شور و غُل تھا، یہاں صدائیں محض گولہ بارودوں کی شکل میں ہمیں ملتے ہیں، یہاں پر ہر وقت کالی سی دھواں کا سایا ہوتا ہے، یہاں روز زلزلہ ہوتا ہے، گھروں کے چھتیں بھی گر جاتے ہیں کئی دفعہ لوگ چھتوں تلے دب گئے ہیں لیکن اس زلزلے کا نہ کسی ٹی وی پہ ذکر ہوتا ہے نہ زلزلہ زدگان کا ذکر ہوتا ہے، اور یہاں کے لوگ اکثر کہتے ہیں کہ یہاں پر میڈیا بھی مکمل آزاد ہے جبکہ اخباروں میں جام کمال اور صالح و اسلم بھوتانی کے صفت و ثناء کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، یہاں کا جرنلسٹ برائے نام ہوتا ہے، اس کی چھپائی کی ہیڈینگ محض جام کمال اور بُھوتانی حویلی سے تیار ہوکر انہیں پہنچ جاتی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کی حالت زار پر ان کی نظر بھول کر بھی نہیں پڑتا، یہاں ماہی گیروں کے سمندر پر ریاستی اداروں کے اڈے مزید بڑھتے جا رہے ہیں.

سونمیانی جیسے قدیم بندرگاہ پر اب مقامی لوگوں سے آبادکار ماہانہ مخصوص رقم وصول کرتا ہے، یہاں استحصال کا عروج ہوتے ہوئے بھی پڑھا لکھا طبقہ گنگے اور بہرے نظر آتے ہیں، یہاں کے پڑھے لکھے طبقے کے پاس تاریخی حوالے سے مطالعہ پاکستان کے علاوہ باقی سب کتابیں محض چند کاغذوں کے گُچھے ہیں.

یہاں نہ اب سسی کی داستان ملتی ہے نہ پنھو کی فریاد یہاں بس روڈ کے کنارے ان دونوں کے نام کا ایک تختی لگا ہوا ملتا ہے کہ دو محبت کرنے والے اس شہر سے کئی میل دور اپنے آرام گاہ میں سکون فرما رہے ہیں.

یہ میلوں دور وہ مشہور عاشقوں کا مزار ہے، جن کے نام پر لکھی شعر کیلئے شاہ لطیف بھٹائی مطلع و مقطع ڈھونڈتا رہا، ان کو اپنے کتاب کا سینگار سمجھا، وہی شاہ لطیف بھٹائی جو بلوچستان کے کوہِ ساروں میں سرمچاروں کا روپ دھار لیتا تھا جبکہ اس شہر کے لوگوں نے خود کو شاہ کا مُرید تسلیم کرتے ہوئے بھی اس بات سے انجان رہتے ہیں کہ آج وہ شاہ بھٹائی کے پیروں تلے کانٹے بچھا رہے ہیں، دشمن کو اپنا کہہ کر اپنوں کو حقارت کے بھینٹ چڑھا رہے ہیں، مگر ان سے ایک گزارش ہیکہ کبھی فرصت ملے تو “شاہ جو رسالو” کتاب پر بھی ایک نظر ڈالنا شاید تیرے غفلت میں دیکھا خواب تجھے بُرا لگے اور شاید تو حقیقت شناس بن جائے تاکہ اپنوں اور غیروں میں فرق کرنے کی ہنر سیکھ سکے.

یہ شہر کبھی وہ شہر تھا جسے سسی نے اپنے ادا کی ہوئی لفظوں میں یوں بیان کیا تھا کہ “یہ شہر دل کو بہلانے والا شہر ہے یہاں وقت کیسے گزر جاتا ہے، کیا ہیکہ اب اس شہر پر خدا بھی رحم نہیں کرتا؟

دراصل جہاں غلامی کی تن پر چڑھا ہوا کھال موٹا ہو جائے تو وہاں دعائیں بھی اثر نہیں کرتے.!

یہ تمہیں اس شہر کے دلکشیوں سے فرصت کے بعد پتا چلتا ہے” لیکن اب اس شہر میں وہ کیفیت نہیں رہی جس میں سسی نے وقت صرف کیا تھا یا چند سال پہلے اس شہر میں سسی و پنھو کے پیروں کی آہٹیں محسوس ہوتے تھے، اب تو اس قدر بھیڑ یئے کہ دشمن بھی نظروں سے اوجھل ہونے لگا ہے اور اب وہ بم برساتا ہے ہم ڈھابے پر بیٹھ کر چائے کا چسکی لیتے ہی ان بموں کا تعریفوں میں تجزیہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے دن اس شہر کے ہر گلی میں پھوڑے پھنسی کے دوا بیچنے والا کار گاڑی میں بیٹھا ہوا دوا فروش کسی نیم حکیم کے دواؤں کا تفصیل کسی لوڈ اسپیکر پر اعلاناً سنا رہا ہوتا ہے اور ڈھابے پر بیٹھ کر بموں کو تعریف کرنے والا بھی ان دواؤں کو لئے بغیر گھر نہیں جاتا، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کینسر و وباء لانے والوں کی تعریف اور بدن پر نکلے پھوڑوں سے پریشانی کا اظہار خود اس دیش بھگت کے منہ پر کالا سا تلک جیسا ہے.

ضلع لسبیلہ میں آلودگی کی اثرات بھی اس شہر سے شروع ہوکر حب چوکی کے آخری حد تک ایک جیسا ہی پھیلے ہوئے ہوتے ہیں، یہ زہر سے بھرا آلودگی یہاں کے رہنے والوں کو اس قدر عقل سے اندھا کرچکا ہے کہ یہ لوگ زہریلی دھواں میں بیٹھ کر صحت مند معاشرے کی باتیں کرتے ہیں اور عین اسی وقت صاحبِ رائے کے منہ میں پان کا کتھا ہوتا ہے، یہاں پر کبھی گُٹکا چھالیا کے خلاف ریلیاں نکلا کرتا تھا جبکہ آج یہاں وہ نشے آپ کو بازار میں دستیاب ملتے ہیں، جس کے نام سے ابھی تک عام آدمی کو آشنائی تک نہیں ہے. گوادر جیونی سے لیکر حب رئیس گوٹھ تک ہر پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر فوجی چیک پوسٹوں کے ہوتے ہوئے یہ منشیات کا سامان کس طرح اس نسل کو تباہ کرنے کیلئے پہنچایا جاتا ہے کبھی سوچ کر گمان گہرائیوں کو چھو لیتی ہے کہ خوابِ غفلت میں پڑا بلوچ قوم کی کس قدر جڑیں اکھاڑا جا رہا ہے اور ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں کیا یہ کوفیوں کا شہر تو نہیں؟

یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ریاستی جنگی جہازوں کا یہاں پر تب سے مشق بازیاں ہوتی ہیں، جب سے انہیں یہ ساحلی پٹی دیا گیا ہے یہاں پر اکثر جنگی جہاز گولہ بارود اور گولیاں برساتے رہتے ہیں آبادی کے بالکل قریب ان کی نشانہ بازیاں ہوتی ہیں، موجودہ غدارِ پاکستان، قاتلِ بلوچ اور پاکستان کا سابقہ صدر مُشرف نے اسی شہر کے آبادی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایٹمی میزائل کا ٹیسٹ کیا تھا، لوگوں کو وارننگ کے طور پر گھروں سے باہر نکل جانے کا مخصوص وقت بھی بتا دیا گیا تھا اور یہ وہی بارودی بلائیں ہیں جو ہر وقت بلوچ سرزمین کو جلاکر بھسم کرتے ہیں اور کینسر جیسے موزی مرض کو جنم دے کر وبائیں پھیلاتے ہیں. چاغی کے پہاڑوں سے جو ایٹمی بو محسوس ہوتا تھا آج وہی زہر کی بدبو اس شہر میں ہر وقت منڈلاتا پھرتا ہے، یہاں ہر دو دن بعد بارودیں اُڑائی جاتی ہیں، یہاں ایسا بھی گھر نہیں جس میں دراڑ نہ ہو اور یہاں ایسا بھی گھر نہیں جس کے دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے نہ ہوں. یہاں کے لوگ اس قدر ان بارودوں کی آواز کے عادی ہوچکے ہیں کہ کوئی دوسرا آکر ان پر بم برسائے بھی کہیں گے پاک فضائیہ کے جہازوں کا مشقیں ہو رہی ہیں۔.

یہاں کے لوگ صبح تب تک نیند سے نہیں اُٹھتے ہیں، جب تک ان کے آس پاس ملٹری کیمپ سے بارودی دھوآں نہ اُٹھے یا کسی فیکٹری کی آلودگی اسے چھوکر نہ گزرے. حب چوکی کی فضائیں تو ایسے ہیں جیسے بتدریج سانسوں کو اپنی طرف کھنچنے والا وباء جو سزا دے دے کر موت کے منہ میں دھکیل دے، یہاں کے لوگوں کا تقدیر نہ اٹک کمپنی نے بدل دیا نہ دوسرے چھوٹے بڑے سینکڑوں ملوں نے لیکن یہاں کے لوگ پھر بھی اس خوش فہمی میں ہیں کہ ڈی جی کمپنی کے بغل میں ان کی دو دو ایکڑ زمین موجود ہیں، وندر میں بارودوں اور غیروں کا بسیرا ہے حب چوکی میں تو اتنی کاربن پھیلا دیا گیا ہے کہ دشمن کو بھی یہ شہر اب اچھا نہیں لگتا.

کئی برسوں سے یہاں کے لوگوں کا سکون دودُر کمپنی کے مشینوں کی چیخوں نے چھین لیا ہے جبکہ چین اور اسلام آباد ان مشینوں کی چیخوں کو اپنا موسیقی سمجھ کر ہمیں غلامی کی راگ میں مبتلا کر چکے ہیں، اسی وندر شہر میں غریبی عروج پر ہے، بیماریاں ایسے کہ ڈاکٹر مریض کو دیکھ کر ہکا بکا رہ جائے. ہڈیوں کی کمزوری، جوڑوں کا درد، پھوڑے پھنسی اور کئی طرح کے بیماریاں، یہاں ہر دوسرے شخص کو گھیر چکے ہیں، باشعور شہریوں نے ان بیماریوں کو اکثر ان بارودی دھماکوں کا شاخسانہ قرار دے چکے ہیں لیکن پُرانی کہاوت ہے کہ ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی اور یہ چند باشعور لوگ بھی اب ان کوفیوں کے بھیڑ میں گم نظر آتے ہیں.

سسی کے دعا کا اثر شاید اب نہیں رہا اب یہاں کے لوگوں پر میلی آنکھیں تو کیا بارودوں کی بوچھاڑ ہر تیسرے روز ہوتا ہے یہاں چوروں نے قبضہ بھی کرلیا ہے لیکن انہیں جال میں پھنستے ہوئے نہیں دیکھا میں نے یہاں سسی کے مُریدوں کو کئی امراض میں مبتلا دیکھا ہے، شاید سسی نے ان کی بےحسی اور ظلم سہنے کی عادت کو دیکھ کر منہ پھیر لیا ہے، یا پھر ان کے اپنے رضامندی سے اس شہر کو بارودوں کا مرکز بنا دیا گیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔