گوردت سنگھ – شعیب امان سمالانی

222

گوردت سنگھ

 تحریر : شعیب امان سمالانی

دی بلوچستان پوسٹ

شہر کے منتظم اعلیٰ نے اخبار میں اشتہار دیا کہ شہر کی کچھ سڑکوں کے نام تبدیل کرنا مقصود ہے لہذا عوام سے نئے ناموں کی تجاویز مقصود ہیں . چونکہ یہ شہر بٹوارے کے بعد ان کے حصے میں آگیاتھا جن کا اس پر کوئی دعویٰ ہی نہیں تھا تب ہی ’’اب شہر کی گلیوں کوبھی نئی شناخت کی ضرورت تھی ‘اس کے درودیوار اور پرانے درخت تک گرادیئے گئے تھے ‘وہ شہتوت اور چنار کے درخت گرائے جاچکے تھے ‘ان پر چہچہاتے پرندے اڑ چکے تھے ۔

چونکہ نام تو نام ہوتے ہیں ‘ایک دفعہ پڑ گئے تو پھر انہیں خون سے دھویں بھی نہ دھلیں ‘یہ شناخت کے معاملے بڑے عجیب ہوتے ہیں ان کو مٹانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیاگیا لیکن کچھ نہ ہوسکا‘شہر کے باسی گئے ‘انہیں پارٹیشن کے نام پر ہولوکاسٹ طرز پر ماراگیا لیکن ان کے نام اب بھی سڑکوں اور گلیوں پر موجود ہیں جو نئے نظریئے کے مجاہدین کو ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔ اب سرکاری اعلان آخری حربہ بچا تھا سووہ بھی کردیاگیا

چونکہ سرکار نے شاہرائوں گلیوں اور کوچوں کے نام بدلنے کی ٹھان لی تھی .
تاریخ مقرر کی گئی کہ شہری آئیں درخواست دیں اور اپنے اپنے نام تجویز کرائیں

مقررہ تاریخ پر لوگوں کی لائنیں لگ گئیں

سب کے ہاتھوں میں تجاویز بھری درخواستیں تھیں ‘گویا بت گرانے آئے تھے ‘ہرایک کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی

کافرنکالے جاچکے تھے‘شہر’’ پاک‘‘ ہوچکاتھا لہذا درودیواراور ان کے نام تک بدلنے کی ٹھان لی گئی تھی ۔

“ٖفلاں نام بہتر رہے گا کہ اس مرد مجاہد کے نام کوئی شاہراہ نہیں”

“شاہراہ چونکہ فلاں آبادی سے متصل ہے وہاں کے سرکردہ کا نام موزوں رہیگا “

“سڑک پرفلاں تاجر کا بڑا پلازہ ہے اس کے نام رہے تو بہتر رہیگا”

ایک سیانا نوجوان کہہ رہاتھا کہ سب سے بہتر نام “میاں صاحب” کانام موزوں رہیگا جس کو اسی گلی میں متروکہ جائیدادملی ہے ‘یہ تجویز اسے بہت منطقی معلوم ہورہی تھی

جتنی درخواستیں اتنی تجاویز اوراتنے نام

منتظم اعلیٰ نے میدان میں کھلی کچہری لگائی ہے درخواستیں ٹیبل پر رکھی ہوئی ہیں ‘ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے جس سے ٹیبل پر رکھی کاغذوں کی نوکیں کبھی اوپر کبھی نیچے اڑتی رہیں اس دوران صاف دیکھاجاسکتا تھا کہ لوگوں نے نام تجویز کرتے ہوئے کس قدر موٹی موٹی دلیلیں لکھی تھیں

بعض کو اگر کوئی تجویز نہیں سوجھی تھی تو انہوں نے سنے سنائے نام بھی تجویز کررکھے تھے.مثلا علوی نقوی صدیقی وغیرہ وغیرہ

منتظم اعلیٰ کے ساتھ دیگر افسران بھی بیٹھے ہوئے تھے ان کے سامنے چائے رکھی ہوئی تھی ‘تلاوت کلام پاک کے بعد درخواستوں کا جائزہ لیاجانے لگا

ایک ضعیف العمر شخص نے بھی اس دن اپنی چھڑی سنبھالی اور منتظم اعلیٰ کے دفتر کی راہ لی ۔ وہ بھی ان درخواست دہندہ افراد کیساتھ کھڑا ہوگیا لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی درخواست نہیں تھی

وہ مجمع سے آگے بڑھا اور لرزتے ہاتھوں سے منتظم اعلیٰ کو مخاطب کیا کہ وہ ایک بات کہنا چاہتا ہے

منتظم اعلیٰ نے کہا کہ بزرگوار!
اگر کوئی تجویز ہے تو درخواست میں دی ہوگی آپ نے. ہم سب دیکھ رہے ہیں
بزرگ نے چھڑی آگے بڑھائی اور مجمع سے چند قدم آگے بڑھا اور لرزتے ہونٹوں کیساتھ کہا
میری کوئی درخواست نہیں اور نہ ہی کوئی نام لے کرآیا ہوں .
توپھر کیا مدعا ہے آپ کی ’منتظم اعلیٰ نے قدرے حیرانگی سے پوچھا

ضعیف العمر شخص نے کہا کہ
منتظم صاحب پہلے میری بات سنی جائے اس کے بعد اگر کسی شاہراہ کا پرانا تاریخی نام شاہراہ سے ختم کیاجائے تو کرلیاجائے ‘جب انہیں اجازت دی گئی تو انہوں نے کانپتے ہاتھوں اورلرزتے ہونٹوں کیساتھ ہجوم سے مخاطب ہوکر کہا

دنیاکی جغرافیائی تقسیم یونہی ہے‘محبت دشمن قوم دشمن ‘ثقافت دشمن ‘امن دشمن‘انسان دشمن ۔ محبوب لکیر کے اس طرف تو محبوبہ لکیر کی دوسری طرف ۔ بابا گرونانک کا گھر لکیرکے ایک طرف تو اس کا مقبرہ مبارک لکیر کی دوسری طرف اور وہ بھی خونی لکیر ۔ لیکن اس پرندے کا کیا جو گرونانک کے گھر پر بیٹھ کر سریلی آواز میں گانے گانا ہے اور اس کے مقبرے پر بیٹھ کر محبوبہ سے چونچ لڑاتا ہے ۔ یہ پرندہ غزہ اور یروشلم کے اس پار اور اس پار آتا جاتا ہے . یہ نایاب پرندہ سرلٹھ کے گدان پر بیٹھ کر بولان جانے کیلئے اڑان بھرتا ہے ‘یہ پرندہ سائبیریا سے نکل کر مستونگ کے باغات سے ہوکر پیرغائب کے مزار پر حاضری دیتا ہے ‘ میٹھے پانی کا خردہ پی کر سیہون وبھٹائی کے مزارپر دھمال ڈالنے نکل پڑتا ہے ۔
جو تقسیم ہوئی وہ ہم کرگزرے ۔ خوبصورت اور عظیم طرز تعمیر کے کھنڈرات جن کے ہاتھوں کی گواہی دیتے ہیں وہ ہاتھ کاٹ دیئے گئے ان کھنڈرات کو الگ الگ نام دیئے گئے ‘امر کھوٹ کو عمر کھوٹ نام دیاگیا‘رام باغ کو آرام باغ ‘ہندو باغ کو مسلم باغ ‘خان گڑھ کو جیکب آباد بنادیا اور تو اور لاہور میں ’’اچن سنگھ کے ٹی ہائوس کو پاک ٹی ہائوس کا نام دیا گیا’لکشمی چوک کومحمدعلی جوہر کانام دیاگیا.
اور کیا ظلم کروگے ‘ تمہارے بنائے ہوئے بے روح بتوں نے افغانستان بامیان میں انسانیت کی میراث ‘زمین پر خدائی روپ بدھا کے عظیم مجسموں کیساتھ کیاکیا ‘تمہارے خمیر میں بارود ہے محبت اور انسیت نہیں ‘جارح جہاں جاتا ہے مقامیوں کے نام ونشان تک مٹا دیتا ہے وہ تاریخ کے پنے بھی دجلا اور فرات میں بہا دیتا ہے ‘یہ مقامیوں کے ہاتھوں بنی چیزوں عمارتوں اور ثقافتوں کو بھی مسمار کردیتا ہے اور رہی سہی کسر پوری کرنے کیلئے سرکاری کاغذات سے بھی ان ناموں کو نکالنے کیلئے پرتول رہا ہے ۔

ضعیف العمرشخص نے مجمع سے پوچھا کیا وہ ان ناموں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں کہ جن کو شاہرائوں سے ہٹانے کیلئے یہ لوگ یہاں اکٹھا ہوئے ہیں ۔

یہ کہہ کر وہ لمحے کیلئے خاموش ہوگیا لیکن مجمع سے کوئی جواب نہ پاکر انہوں نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا!

آج شال کی چند شاہراہیں جو اپنے قدیم باسیوں ‘سکھ ہندوئوں اور پارسیوں کے نام پر ہیں تو ان کو تبدیل کرنے کی ٹھان لی گئی ہے گویا بلوائی اب بھی موجود ہیں ‘پہلے سن لو کہ ان باسیوں کے نام یوں سڑکوں پر چسپاں نہیں ۔ یہ اس مٹی میں گھل کر اس کی خوشبو بن کر چارسو پھیل گئے ہیں ‘تم سائن بورڈ تبدیل کرنے کے علائوہ اس شال کی فضاء میں پھیلی اس خوشبو کو کیسے ختم کردوگے جس میں یہ اشخاص ہردم اور ہرلمحہ سانس لے رہے ہیں ‘تم چلتن اور زرغون کے سینے میں دفن تاریخ کو کیسے ختم کرسکوگے ‘ تم دلوں سے ان اشخاص کی انسیت کو ختم کرنے کیلئے اور کیاکیاجتن کرسکتے ہوکہ مہر گڑھ کے چند ٹھیلے اب بھی ہزاروں سال کی تاریخ کا بار اٹھائے دعوت فکر دے رہے ہیں ۔

شال کے پرنس روڈ اور آرچر روڈ کے درمیان میں ایک گلی ہے جو اس شخصیت کے نام پر تھا جس کا خمیر یہاں کی مٹی سے گوندھی ہوئی تھی جی ہاں جمعیت رائے صاحب ۔ جمعیت رائے کی شال سے محبت یہاں کے لوگوں سے لگائو کا سودا ایسے صحافی کے نام کیساتھ کیاگیا جس کی شال اور اہل بلوچستان کیساتھ کچھ بھی نہیں .جمعیت رائے کی گلی کے نام کو ترکے میں اس صحافی کے نام سے منسوب کیا گیا جس نے شاذ ہی شال دیکھا ہو ۔ یہ بندربانٹ ہے اس مال غنیمت کا ان گلیوں کا جن کے قیام اور تعمیر میں زندگیاں بتائی گئیں ‘ یہ گلیاں نہیں تھیں تو یہ اصحاب تھے . اور یہ گلیاں انہیں یوں ودیعت نہیں کی گئیں ان گلیوں کے نشانات تو گوردت سنگھ ‘جمعیت رائے ‘زونکی رام ‘ پٹیل‘ چوہڑمل اور موتی رام کی بچپن میں کھیلتے ہوئے ننگے پائوں کے نشانات سے بنے ہیں ۔ ان گلیوں کو گوردت سنگھ جمعیت رائے اور موتی رام نے سنوارا انہیں آباد کیا ۔ پٹیل نے آئس فیکٹری بنائی اور جب رحلت کا وقت قریب آیا تو مزدوروں کو بلا کر آئس فیکٹری ان کے حوالے کر دی ۔ کیاکوئی جانتا ہے کہ گوردت سنگھ نے اس شہر کیلئے کیا ۔ گو ردت سنگھ نے شال کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے اپنی ذاتی زمین پر ایک ایسا سکول’’ خالصا سکول ‘‘قائم کیاکہ جو آج بھی شال میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے ۔ (گوردت نے اس سکول میں ہاسٹل تک بنایاتھا .اردگردکانیں بنائی تھیں کہ ان کی آمدنی سے سکول کو چلایاجاسکے اور یہ سکول انگریز کے مشینری سکولوں کے مقابلے میں بنایاگیا جن کی فیسیں زیادہ تھیں اور مقامی بچوں کوداخلہ ملنا مشکل تھا ) گوردت سنگھ ایک سماجی تنظیم کے سربراہ تھے جن میں مسلمان اور ہندوبھی شامل تھے جو مل کرسماجی کام کرتے تھے لیکن پارٹیشن کی وباء جب شال پہنچی تو گوردت سنگھ کو بلوائیوں نے کہلوا بھجوایا کہ وہ اپنا خمیر چھوڑ کر ہندوستان جائیں کیونکہ سکھ اب ہندوستا ن میں ہی رہ سکیں گے کیونکہ اس کا شال اب لکیر کے اس پار تھا عین منٹو کے” ٹوبہ ٹیک سنگھ “کے افسانے کی طرز پر ۔ تب آج کے ان درخواست گزاروں کے قبیل کے لوگوں نے گوردت سنگھ کو ایک دن شال اسٹیشن پر اسپیشل ٹرین میں بٹھا ہی دیا اور اس کے قائم سکول کا نام ’’خالصا سکول سے ’’اسپیشل اسکول‘‘ رکھا ۔ گوردت سنگھ اس کے بچے اور عورتیں کن بوجھل قدموں کیساتھ اسٹیشن پہنچے ہونگے ‘گوردت سنگھ کی گلی سے ان کے قدم کیسے اٹھتے ہونگے ‘اس گلی کی مٹی کس قدران سے لپٹ کر رو رہی ہوگی ‘شال پہلی دفعہ سوگوار ہواہوگا ۔ وہ اپنا سفید بالکونی والا گھر بار‘پتنگوں کی دکانیں ‘ بچپن لڑکپن نوجوانی اور بڑھاپا اپنی روح سب کچھ گوردت سنگھ روڈ پر ہی چھوڑکرگیاہوگا زندہ لاش بن کر ۔ اس شہر کی بنیادوں کی ایک ایک اینٹ کی گواہی دینے والوں کو یوں ٹرین میں بٹھادیاگیا تھا ۔ کسی کو اس کی مٹی سے یوں الگ کرنا کتنا دردناک ہوگا جتنا کہ
“جب عیسیٰ کو صلیب پر چڑھایاگیا ہو ”
“جب حضرت محمد کو مکہ سے جانے پر مجبور کیاگیا ہو ”
“جب منصورپرسنگباری کی گئی ہو”
“جب شمس تبریز کو رومی سے دور کرنے کیلئے بغداد کی گلیوں سے دھکیلاگیاہو”
“بشن سنگھ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے دور لے جایاگیا ہو”

منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانہ ہی ہے اور ان تمام حقیقی کہانیوں کا افسانوی خاکہ ہے لیکن گوردرت سنگھ کی کہانی وہ حقیقی کہانی ہے اور یہ گوردت سنگھ حقیقی بشن سنگھ ہے جس کو اس کی مٹی سے الگ کیا گیا جس سے شاہد آج شال کے باسی واقف نہیں ۔ گوردت سنگھ جب ٹرین میں بیٹھا ہوگا اور یہ جانتے ہوئے کہ شال سے وہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہورہا ہے ٹرین کی وسل عجلت میں بجائی گئی ہوگی کہ اسے ان بے ایمان لوگوں کو یہاں سے دور اور کئی دور لے جاناتھا تاکہ ان کا اس شہر پر کبھی سایہ بھی نہ پڑے جنہوں نے اس شہر کو بنایا سنوارا اور اس کی گلیاں تک تعمیر کیں ‘اس وقت شال اسٹیشن کا منظر کیسا خوفناک ہواہوگا جب گوردت سنگھ اور اس جیسوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے وطن بدر کیاجارہاتھا ۔ اب وہ اس سرزمین پر دوبارہ کبھی قدم نہیں رکھنے والے تھے ۔ یہ حشر کے میدان سے بھی زیادہ خوفناک منظرہواہوگا ‘ٹرین کی وسل کی آواز صور پھونکنے کی آواز سے بھی زیادہ خوفناک ہوئی ہوگی ‘یہ اپنے ساتھ اس شہر کی یادیں ہی لے جارہے ہونگے ‘ محض کچھ مٹی کے گرد ۔ گوردت سنگھ کی نم آنکھیں شال کی درودیوار سے نہیں ہٹی ہونگی ‘ٹرین نے رفتارپکڑی ہوگی اور یہ دیواریں یوں تیزی سے پارہوتی ہونگی اور یوں اس ٹرین میں سوار جذبہ ایمان سے عاری لیکن وطن کی محبت سے سرشار لوگوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسونیچے زمین پر ٹپکتے رہے ہونگے ۔ ٹرین جب سریاب اسٹیشن سے بھی گزر گئی ہوگی تو گوردت کی آنکھیں کوہ مردار پر پڑی ہونگی اور اسے وہ منظر یاد آ گئے ہونگے کہ ان کی پتنگیں جب کٹ جاتیں تو سیدھا کوہ مردار کے سینے کو جاچھوتیں اوروہ کوہ مردار جس کے دامن میں اس کا سفید بالکونی والا گھر واقع ہے جو کہ اب بے مکین ہوچکاتھا ۔ یوں جیسے کہ ماں کا پیٹ چاک کرکے اس کا نوزائیدہ بچہ نکال دیاجائے ‘ آج اس سفید بالکونی والے گھر کا گود اجڑ چکاتھا ‘شال کی فضائیں اس ماں کے درد میں سوگوار رہی ہونگی ‘پھر جب ٹرین نے شال کا حدود کراس کیاہوگا کہ بھرے ٹرین کی نم آنکھیں بلند وبالا چلتن سے ٹکرائی ہوئی ہونگی اور ان وطن زادوں کی نم آنکھوں میں چلتن کا نظارہ شاہد ہی آج تک کوئی اور آنکھ کرسکاہو کہ اس کے تن سے اس کے بیٹے چیر کر جدا کئے جارہے تھے کہ وہ پھر دوبارہ کبھی نہیں مل پائیں گے ۔ اور جب دشت کے میدانوں سے بھی ٹرین بولان کے پہاڑوں میں داخل ہواہوگا تو ان پر کیا قیامت بیتی ہوگی کہ اب تو شال بالکل نظروں سے اوجھل ہوگیا ہوگا محض چلتن کی چوٹی نظرآرہی ہوگی جو کسی وطن زادے کو رخصت کرتے وقت رو رہاہوگا اور جب ٹرین کولپور پر رکی ہوگی تو گوردت ضرور نیچے اتراہوگا اوراس کے دل میں یہ با ت ضرور ہوئی ہوگی کہ وہ جس راستے سے آیا ہے واپس اس پٹڑی پر چلا جائے کہ یہ راستہ اس کے شال کو جاتا ہے لیکن ٹرین کو بڑی عجلت ہوئی ہوگی کہ اس کے پیٹ میں گناہوں کا بڑا ابھارہوا ہوگا کہ اسے گناہوں کے اس بوجھ کو جلد ہندوستان اتار کرآناتھا ۔ وسل پہ وسل بجی ہوگی جو کہ کولپور کے پہاڑوں سے یوں ٹکرائی ہوگی کہ کانوں کے پردے پھٹنے کو آئے ہونگے اور بالکل شیطانی آواز جیسی ۔ پھر ٹرین بل کھاتی ہوئی پرپیچ بولان میں داخل ہوئی ہوگی . پہاڑ سرنگ ان وطن زادوں کے گرد قطار بنائے ہوئے ہونگے جیساکہ شکست خوردہ فوج کے سپاہی کھڑے ہوتے ہیں آج یہ پہاڑ فتح ہوگئے تھے ا ور یہ یوں بے حس کھڑے ہوئے ہونگے ان کےباسیوں کو دور لے جایاجارہاتھاکہ جو دوبارہ واپس نہیں آنے والے تھے ۔ بولان کے ایک ایک ٹنل اورپٹڑی پرٹک ٹک کرتی ریل گوردت کے دل کی دھڑکنوں کوبڑھارہی ہونگی ۔ مچھ اسٹیشن پر ٹرین مختصر ساعت کیلئے رکی ہوگی ۔ کچھ لوگ بوجھل قدموں کیساتھ ٹرین سے اترے ہونگے پانی بھرنے کی غرض سے ۔ وہ بولان کے میٹھے پانی کی آخری بوندیں لئے دوبارہ ٹرین میں یوں بیٹھے ہونگے جیسا کہ یہ سرزمین ان کیلئے آسروخ جیسی دہکتی انگاروں سے سجائی گئی ہو ۔ انہوں نے مچھ کے پہاڑوں پرضرور نظرڈالی ہوگی کہ یہ بھی مطیع بنائے گئے تھے اور ہر طرف حصار ہی حصار تھے ۔ ٹرین کا ڈرائیور بالکل جلاد بنا رہا ہوگا کہ مختصر ساعتوں کے بعد یوں ٹرین کو روانہ کرنے کیلئے لیور کھینچتا ہوگا کہ جیسا کہ مچھ جیل کا جلاد پھانسی گھاٹ کا لیور بڑی بے رحمی سے کھینچتا ہے ۔ اس وادی سے نکلنے کیلئے ٹرین نے پھر سے رفتار پکڑی ہوگی ۔ بولان کے یہ خوبصورت وادی اپنی خوبصورت اور اپنی روح کھوچکے ہونگے اور یوں بولان کی ندیوں اور پہاڑوں سے ہوتی ہوئی ٹرین سبی پہنچی ہوگی کہ وہاں بھی کچھ وطن زاد بے ایمانی کی سزا بھگتنے کیلئے ٹرین تک ہانکے گئے ہونگے اوران کو بھی ان کیساتھ ٹھونسا گیاہوگا اور یوں ٹرین میدانی علاقوں سے ہوتا ہوا سندھ میں داخل ہوا ہوگا اور یوں ایک دن اور ایک رات کے سفر کے بعد یہ ٹرین لاہوراسٹیشن پہنچ گئی ہوگی جو کہ حشر کے ایک بڑے میدان کا منظر پیش کررہاہوگا۔ ہنگامہ خیزی کے عالم میں لوگ بے ایمانی کا اعمال نامہ لئے ٹرینوں کیلئے سرگرداں اسٹیشن کے دہکتے انگاروں جیسے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے ہونگے اور گوردت سنگھ اور اس کے قبیل کے لوگ بھی لاہور اسٹیشن پر اتارے گئے تاکہ نئی ٹرین میں ان کو واہگہ سے اس پار دھکیلاجائے ۔ گوردت سنگھ شال کو یادکررہاہوگا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بشن سنگھ کی طرح بڑابڑارہاہوگا.

شال کی وہ گلیاں ‘وہ یخ بستہ ہوائیں ‘وہ برفباری ‘وہ بہار کی پھنوار ‘وہ پتنگیں

وہ اب بھی کوئی راہ ڈھونڈ رہا ہوگا شال جانے کیلئے ۔ اپنے اس خالصاسکول کو دیکھنے کی چاہ لئے ‘اسے باربار سفید بالکونی والے گھر کی یاد ستارہی ہوگی

محشر بپا لاہور کے اسٹیشن پر جب یہ لوگ بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں ادھر ادھر بھاگتے رہے ہونگے کہ کب انہیں نئی ٹرین میں ٹھونساجائیگاکہ غزوہ ہند کے مجاہدین نمودار ہوگئے ہونگے ۔ لاہور اسٹیشن پر انہیں وسیع میدان میسر آیاتھا کفار کو تہہ وتیغ کرنے کیلئے ۔ جب وہ بابلند آواز ان پر ٹوٹ پڑے ہونگے تب جب کسی مجاہد کی تلوار گوردت سنگھ کے نرم ونازک گردن پر یوں چلی ہوگی جیسے ریشمی کپڑے پر چلی ہو ۔ گوردت کے جسم میں معجزن بے چین اور مضطراب خون کے دھارے یوں بہہ گئے ہونگے کہ جیسے وہ اس مصلوب کئے جسم سے خلاصی چاہتے ہوں ۔

جی ہاں گوردت سنگھ کو ہندوستان بھی پہنچنے نہیں دیاگیا ‘لاہور میں ہی مصلوب کیاگیا ۔یہ شال کا وہ محسن ہے کہ جس نے امن کیساتھ زندگی گزاری .یہاں اپنی زمین پر سکول بنایا سماجی خدمات انجام دیں . اگر شال کی اس شاہراہ سے ایسے محسن اور محبوب کانام ہٹا کر کسی ’’ نووارد مجاہد‘‘ کے نام کرنا ہے تو کرگزریئے ۔ یقینا شال اپنی شناخت پر بڑا نازاں رہا ہے ‘یہاں کے لوگ بھی اپنی شناخت کے پیاسے ہیں ‘نسل درنسل پیٹری درپیٹری شناخت ان کو ازبریاد ہے ‘تب ہی شال کی سڑکیں بھی اپنی شناخت رکھتی ہیں اور اپنی اس شناخت کے حوالے سے انتہائی حساس ہیں ۔ اور ان کی شناخت کے پیچھے ایک تاریخ وکہانی ہے اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آج کی ان تجاویز میں کوئی نوری نصیر خان احمد شاہ ابدالی محراب خان ملا مزا ر اور فاضل محمد درخانی جیسے نام تک شامل نہیں ۔

یہ کہتے ہوئے بوڑھا ترآنکھوں کیساتھ مجمع سے پلٹ گیا اور ایک نوجوان کیساتھ ویسپا اسکوٹر پر بیٹھ کر جانے لگا
مجمع اسے دیکھتا رہا

اس کے بعد منتظم اعلیٰ نے اپنے پاس بیٹھے افسران سے طویل سرگوشی کی

اور مائک سنبھالے شخص کو بلا کر کچھ بتایا

وہ شخص دوبارہ اسٹیج پر آکر گلہ صاف کرتے ہوئے بولا

عوامی تجاویز پر اتفاق رائے نہیں پایاجاتا لہذا اب یہ کام سرکارخود مرحلہ وار کریگی ۔

مجمع منتشر ہوکر شہر کی گلیوں اور کوچوں میں غائب ہوگئی

چند دنوں بعد کچھ گلیوں پر منتظم اعلی کی جانب سے نئے بورڈ لگائے گئے تھے جن پر خوبصورت خطاطی کیساتھ نئے نام کندھا تھے شہری انہیں دیکھ کر آگے بڑھ رہے تھے اور سڑکوں گلیوں کی نئی شناخت پر سراسیما تھے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔