بی ایس او کا یوم تاسیس اور قومی تشکیل کا عمل – زبیر بلوچ

200

بی ایس او کا یوم تاسیس اور قومی تشکیل کا عمل

تحریر: زبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سرخ سمندر ہر دل کے اندر، ماوُں کی دعائیں بہنوں کی صدائیں، جیسے فلک شگاف، دل کش اور خوبصورت نعروں کی تنظیم بی ایس او اپنا باون واں یوم تاسیس منانے جارہی ہے۔ 25 نومبر کو بی ایس او باقاعدہ ایک ریڈیکل طلبا تنظیم کی حثیت سے ابھر کر سامنے آنے والا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے جدوجہد کے طویل سفر طے کی ہے، جہد مسلسل کے اس سفر میں بی ایس او نے نہایت محنت، عزم، بہادری اور حوصلے سے بلوچ سماج کے گھائل اور زخم خوردہ روحوں کو جگاکر اپنے بطن سے شعوری سیاست کو جنم دیا۔ شعور اور عقل کی بیج بونے سے بلوچ سیاست میں سنجیدہ علمی اور سیاسی فکر اور فلسفے کی آبیاری ہوئی۔ جدید سائنسی سوچ و مثبت معاشرتی شعور کی کونپلیں کھلیں۔ نصف صدی پر مشتمل اس جدوجہد میں جلتی آگ اور اگن کے کئی دریاوُں کو پار کیئے۔ کئی نشیب و فراز دیکھے، انھی نشیب و فراز، اونچ نیچ، پرخار اور کانٹوں بھرے راستے جو ریاستی جبر و بربریت اور قومی استحصال کے راستے تھے۔ معاشرتی نابرابری، رجعتی، مذہبی، انتہا پسندی اور تنگ نظری کے شاہرائیں تھیں ۔ انتشار، خلفشار، تقسیم در تقسیم کے پگڈنڈیاں تھیں۔ ان سبھی مشکلات اور مصائب کو بی ایس او نے خندہ پیشانی سے قبول کرکے بلوچ طلبا سیاست کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی سیاست کو ایک واضح جامع سیاسی پروگرام کا ٹھوس بنیاد فراہم کردیا۔ جس کا مقصد سماج اور سیاست میں موجود غیر سائینسی، غیر سیاسی، سماجی و معاشی ڈھانچے اور ساخت کے بتوں کو توڑنا، ملیامٹ کرنا اور اس کی جگہ جمہوری انسان دوست ترقی پسند اور استحصال سے پاک ایک خوشحال اور ہر حساب سے برابر کے سماج اور سیاسی نظام کی تعمیر کرنا، جہاں ظالم اور مظلوم، آقا اور محکوم، غلام اور آقا، غالب اور مغلوب کے غیر انسانی رشتوں کونیست و نابود اور جڑ سے اکھاڑ کر اس کے جگہ پر ایک جدید بلوچ سماج کی تشکیل کو ممکن بنانا۔ جس کے روح میں جدید دور کے تقاضے اور اس کے شریر میں ٹکنالوجی اور سائینس ہو۔

جدید بلوچ سماج کی تشکیل ان تمام قوتوں کے لیے ناقابل قبول سماج تھی، جو صدیوں سے جاری لٹ وپل کے اس نظام کے کرتا دھرتا اور اہم حصے ہوتے آرہے تھے۔ بلوچ سیاسی ایلیٹ قبائیلی سردار، جاگیردار اور علاقائی معتبروں نے اس بڑے طبقاتی کشمکش اور معاشرتی تصادم کے بازگشت کو محسوس کرتے ہوئے اس اجتماعی قومی پروگرام کو ناکام بنانے کے لیے بی ایس او کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے کے لیے بلوچ دشمن عناصر کے الہ کار بنے۔ جس کی وجہ سے بی ایس او جیسی نظریاتی و فکری تنظیم وقومی اثاثہ ذاتی عناد بغض و کینہ، حسد اور ذاتی پسند و ناپسند اور چھوٹے چھوٹے طفلانہ اختلافات کی بھینٹ چڑھ کر پارہ پارہ ہوا۔ بی ایس او کا دولخت اور تقسیم ہونے کو بی ایس او کے کارکنوں اور نظریاتی اور فکری ساتھیوں نے اپنے دل کو دو لخت ہونے سے زیادہ محسوس کیا۔ ان تمام کے باوجود بی ایس او کے کارکنوں نے اپنے تاریخی فریضہ اور انقلابی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا کرکھٹن اور مشکل دور میں مصائب اور تکالیف برداشت کرکے تنظیم کے نظریاتی معیار کو اس سطح اور نقطے تک پہنچایا، جہاں تمام تر سازشی چغلیوں، گھناونی اور بھیانک حربوں کے باوجود تنظیم نے بلوچ سیاست کو آگے کا سمت وژن ایک انقلابی پروگرام اور نظریہ دیا۔ جس کی بنیاد پر آج بھی تمام بلوچ سیاست کھڑی ہے، خواہ وہ کسی بھی اسکول اف تھاٹ سے تعلق رکھنے والی بلوچ پارٹی اور تنظیم ہو۔

بلاشبہ بی ایس او نے بلوچ سماج میں بے شمار نظریاتی و فکری لیڈر پیدا کیئے، پارٹیاں بنائیں جو آج بھی میدان کارزار میں ڈٹے ہوئے ہیں، قومی و طبقاتی جدوعمل میں بے بہا قربانیاں دے رہے ہیں ۔ بی ایس او اپنے ترقی پسندانہ فکرو آدرشوں کی وجہ سے مظلوم محکوم قوموں محنت کش بزگر و درتہ پچ اور طلبا کے ترجمان اور داعی اور علمبردار کے حیثیت سے ملک کے دیگر طلبا تنظیموں اور ترقی پسند رحجانات و فکر کے اتحاد و اشتراک کے حصے بنے اور اس سلسلے میں بی ایس او کا قائدانہ کردارو عمل نمایاں رہا ہے ۔

1970 کے دہائی میں جب ون یونٹ توڈ دی جاتی ہے، ملک میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو بی ایس او نیپ کے ساتھ اپنے فکری رشتے اور وابستگی کے بنیاد پر اس الیکش کا حصہ بنتا ہے، نیپ کے ٹکٹ پر بی ایس او کے چئیرمین الیکشن لڑ کر کامیاب ہوتا ہے۔ نیپ اس وقت کے تمام محکوم و مظلوم اقوام کی نمائیندہ جماعت تھی، نیپ کے ساتھ تنظیمی نظریاتی اور فکری جڑاو کو بی ایس او اپنی سیاست اور قومی و طبقاتی جبر کے خاتمے کے لیے موثر پلیٹ فارم سمجھتی تھی۔

بی ایس او نہ صرف طلبا نمائندگی کرتی تھی بلکہ عوام کے حقوق کے لیے غاصب اور قابض حکمرانوں اور سامراجی گماشتوں اور ان کے الہ کاروں کے خلاف جدوجہد میں ایک قومی پارٹی کے کردار میں جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ بی ایس او سماج کے تمام پسے وکچلے طبقوں کی نمائیندگی کرتی تھی ۔ پسے و کچلے ہوئے دہقان اور عام آدمی بوڑھے، بزرگ بچے اور عورتیں بڑے فخر اور شان سے بی ایس او کے انقلابی گیت چکیں بلوچانی مہ چکیں بلوچانی، چک چک ءِ دپ ءَ انت بی ایس او، تو بی ایس او من بی ایس او گاکر تنظیم کے ساتھ اپنے عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ بچیاں بی ایس او کے سرخ مشعل والے دوپٹے اوڑھ کر اپنے جزباتی وابستگی کا اظہار کرتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ بی ایس او نے پورے بلوچ سماج کو اپنے جہد کے ساتھ انگیج کیا، معاشرے کے تمام پرتوں کے ساتھ بندھن اور جڑاوُ نے بی ایس او کے سیاسی مزاحمتی جدوجہد کو نہ صرف طاقت بخشی بلکہ اس اعتماد اور بھروسے نے بی ایس او کو ہر قسم کے جبر اور استحصال کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کے مانند مضبوط اعصاب دیا۔سیسہ پلائی اس دیوار جیسے آہنی عصابی قوت نے ناقابل مصالحت انقلابی جدوجہد کو بلوچ نفسیات کے حصہ بنا کر بلوچ نشنلزم کے جدوجہد کو قومی و طبقاتی بنیادوں پر تجزیہ کرکے تنگ نظرانہ قوم پرستی رجعت پسندی گروہی و ذاتی مفادات انتہا پسندئی موقع پرستی سمیت قبائیلی و جاگیرداری کو جدید بلوچ قومی تشکیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوُٹ کا سبب سمجھا اور اس کے متبادل کے طور پر جدید دور کے تقاضوں اور چیلنجز کو سامنے رکھ کر واضح پروگرام جو گروہی و ذاتی مفادات سے مبرا خالصتاً قومی نجات کے سائنسی لوٹ گزر کے پیرامیٹر پر مبنی ہو جیسے سلگتا اور دمکتا سوال بلوچ مفلوک الحال عوام کے سامنے رکھا۔

بلوچ عوام جدید قومی تشکیل کی سنگینیت کو جان کر معروض کے مطابق اپنے قومی پالیسی مرتب کریں۔ آج کا سیاست معروضی و موضوعی حالات کو سمجھے بغیر سماج اور اسے کے حرکت کے قانون اور اصولوں کو مد نظر رکھے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ بلوچ وطن بڑی معاشی قوتوں کا میدان جنگ بن گئی ہے، ملٹی نشنل کارسا کشی جاری ہے۔ اس معاشی ثقافتی یلغار، تصادم اور ٹکراوُ کے سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے اور اس اہم عالمی کھیل میں ایک کھلاڑی ہوئے بغیر بلوچ وطن سیاست ثقافت اور وسائل ان دیوں کے پاوُں تلے روند جائیں گے۔ بلوچ اپنے وطن میں اجنبی کی سی زندگی گزار کر خطے کے ریڈانڈین بن جائیں گے۔ ان تمام مشکلات سے ایک وژنری قومی پارٹی اور اس کی کی دوراندیش قیادت نکال سکتی ہے۔

طلباء سیاست گو کہ قومی پارٹی کی نعم البدل نہیں ہوسکتی لیکن سماج کے باشعور اور حساس طبقے کی حیثیت سے بہتر پروگرام اور پالیسی پر پرمغز بحث کرسکتی ہے۔ جو نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ طلبا کے بحث اور رائے سے ایک متبادل راستہ جو تبدیلی کا راستہ ہو اس کے لیے راہیں کھل سکیں گے۔ نئے راستے متعین کیئے جاسکتے ہیں۔

بلوچستان کے سیاست میں تبدلیلی کے آثار نظر آرہے ہیں، اس دیکھائی دینے والے آثار سے طلباء قیادت کو حالات کا درست سمت لینا چاہیئے، مفلوک الحال اور غریب عوام روایتی، سیاسی پارٹیوں سے تھک کر اپنی بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں ۔

کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ سماج میں جب تبدیلی کی طبل بج رہی ہوتی ہے تو اس انقلابی تبدیلی کے آثار پہلے سے سماج میں دیکھائی دیتے ہیں ۔ آج اگر بلوچ سماج کے باریکوں کو دیکھیں اور اس کا تجزیہ کریں تو تبدیلی کے بازگشت ہمیں مڈل کلاس کی تذبذب اور بے چینی کی شکل میں واضح نظر آرہی ہے، نوجوان متبادل قیادت کا راستہ تک رہی ہے، ان کو واضح اور متوازن سیاسی پروگرام اور قیادت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ بلوچستان کے سیاسی افق میں آئے روز کی پارٹیوں کی تشکیل اور پولیٹکل انجنیرئینگ انتشار خلفشار ایک نئی سماجی تبدیلی کی طرف عوام کی بہت بڑی بغاوت کا سبب بنیں گے ۔ لیکن خلا خالی ہے، خالی خلا کو عوام دشمن عناصر نے بڑی چالاکی اور صفائی سے پرُ کی ہے، جو عوام کے مال مڈی کو گدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں ۔ لیکن اس خلا کو صرف بی ایس او کی قیادت پرُ کر سکتی ہے، جو مہم جوئی، انتہا پسندی، گروہی مفادات اور ذاتی ترجیحات سے بالاتر قومی امنگوں کی صیح ترجمانی کرسکتی ہے۔ جو سماج کو ہیجانی اور بے چینی سے نکال کر انھیں آج کے دور سے ہم سنگ اور ہم آہنگ پروگرام اور لائحہ عمل دے سکتا ہے۔

بی ایس او نے نصف صدی کی طویل سیاسی و انقلابی جدوجہد کی مسافت طے کی ہے، اس طویل اور صبر آزما جنگ اور قومی جدوجہد میں بیرونی اور اندرونی غاصبوں اور سازشی عناصر کے خلاف جدوجہد کے نقطہ آغاز کرکے سماج کے جمود اور سکوت کے کیفیت کو توڑ کر تنگ نظر قبائیلت، روایتی رحجانات، غلامانہ دقیانوسیت، انتہا پسندانہ اور منفی روش اور رویوں کی حوصلہ شکنی کرکے قومی استحصال کے خلاف جدوجہد میں محکوم اور مظلوم طبقے کے امیدوں کا مرکز بن کر ان کے یاداشتوں کا انمٹ حصہ بن گئے۔ یہ یاداشتیں اب پک کر توانا ہوکر باقاعدہ طور پر بلوچ سیاست کے جینز میں شامل ہوکر ہر بلوچ ورنا کے خون کے اندر سرائیت کر گئی ہیں۔ اس رشتے کو اب ختم نہیں کیا جاسکتا یہ ایک مضبوط درد کا رشتہ ہے یہ رشتہ سیاست، نفسیات اور تاریخ کا انمول تحفہ ہے جو بلوچ نوجوانوں کو جہد کے میدان میں عظیم قربانیوں کے بعد ان کے پیشروُں نے منتقل کی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے تناظر میں بلوچ ورنا اپنے اس تاریخی قومی اثاثے کو کس طرح دشمنوں کے سازشوں سے محفوظ کرسکتے ہیں۔ جس کے خلاف ہرطرف سے سازشوں کا جال بچھایا جارہا ہے جو ماضی کے بچھائے گئے جالوں سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کیے جارئے ہیں ۔

آج کے نوجوان قیادت مہم جوئی، موقع پرستی، رجعتی اور انتہاپسندانہ سیاست سے خود کو الگ کرکے ایک دوراندیش علمی واکیڈیمک سیاسی پروگرام دیں جو ترقی پسند سوچ پر مبنی ہو نجات راستہ مستقبل کے خوشحال بلوچستان کی ضامن ہوسکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔