اور بی ایس او کو مُکتی مل گئی – حسن آسکانی بلوچ

181

اور بی ایس او کو مُکتی مل گئی

تحریر: حسن آسکانی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے سیاسی ماحول اور سیاسی پارٹیوں کو جنم دینے والی انقلابی طلباء تنظیم بی ایس او جب بھی نظریاتی اور شعوری جدوجہد کی طرف آگے بڑھی ہے تو وہیں نام نہاد قوم پرست پارٹیوں کی دکانداری کو خطرہ لاحق ہوا ہے کیونکہ یہ سیاسی پارٹیاں نئے ابھرتی سیاسی قیادت اور سماج میں سائنسی نظریات پر مبنی شعوری آگاہی سے خوفزدہ اور اپنی سیاسی دکانداری کو دیوالیہ ہوا دیکھتی ہیں۔ اس لیے قومی سیاست پر براجمان غیر حقیقی قیادت دانستہ طور پر بی ایس او کی نصف صدی سے جاری شعوری جدوجہد کو مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے دبانے اور بی ایس او کے نظریاتی پلیٹ فارم سے تربیت یافتہ نئے ابھرتے نوجوانوں کو زیر کرنے کے لیئے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ترقی پسندانہ سیاست کا کھوکھلا نعرہ لگانے والے یہ سیاسی پارٹیاں جتنا جمہوری اور قوم پرستی کے دعویدار ہیں، اس سے کئی گناہ زیادہ تنگ نظر، گروہی سوچ اور فرسودہ نظام کے مالک ہیں۔

مختلف ادوار میں نام نہاد قوم پرست پارٹیوں کی جانب سے بی ایس او کو ہائی جیک کرنے کی مثالیں ملتی ہیں۔ اسکی ایک تازہ مثال آپکے سامنے بی ایس او (پجار)کا بیسواں کونسل سیشن ہے، جو نومبر 2013 کو حب میں منعقد ہوا۔ جس میں نام نہاد قوم پرست اور اس وقت کے حکمران جماعت کے لیڈران نے ایک بار پھر سے بی ایس او کی تاریخ میں شب خون مار کر اپنے من پسند طلباء کی لسٹ پیش کرکے کونسل سیشن کا اختتام کیا۔ یہ بی ایس او کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین سیشن تھا، جس سے طلباء میں مایوسی اور مزید بے چینی جنم لینے لگی۔ حکمران جماعت کی جانب سے اپنی نالائقی، نا اہلی و کرپشن کو چھپانے کے لیے بی ایس او کے پڑھے لکھے اور حقیقی لیڈرشپ کو راستے سے ہٹانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ لیکن بلوچ سرزمین کے سچے فرزند بی ایس او کے حقیقی وارث، نہ جھکنے والے نہ بکنے والے سرفروشوں نے حاکم وقت، اُس وقت کے وزیراعلیٰ کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ جس میں تربت یونیورسٹی،میڈیکل کالج، بی آر سی میں بغیر اشتہار من پسند لوگوں کو نوکریوں کی بندر بانٹ، میرٹ کی پامالی، غریب عوام کی حقوق پر ڈاکہ زنی اور اداروں میں کرپشن کرنے کے خلاف شہید فدا چوک پر احتجاجی کیمپ لگایا۔ جس کے پاداش میں کامریڈز کو ڈرانے دھمکانے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال بھی کیئے گئے۔ لیکن بی ایس او کے وژنری و نظریاتی ساتھیوں کے حوصلے پست نہ ہوئے۔

بالآخر 27 جنوری 2015 کو وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے جاری سرکاری اعلامیہ کی پابندی کرتے ہوئے سرکاری تنخواہ دار چیئرمین اور اُس کے ٹولے نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی ایس او مرکزی سیکریٹری جنرل، مرکزی ریجنل سیکریٹری پنجاب، مرکزی ریجنل سیکریٹری مکران اور مرکزی کمیٹی کے رکن کو تنظیم سے خارج کردیا گیا ہے۔ یاد رہے یہ غیر آئینی پریس کانفرنس وزیر اعلیٰ کے ڈپٹی پولیٹیکل سیکریٹری کے زیر نگرانی اپنے زر خریدوں سے کروا رہے تھے۔ اس غیر آئینی فیصلے کے خلاف حب، کراچی، او تھل، تربت، بلیدہ، خضدار، کوئٹہ، نوشکی، بھاگ، اوستہ محمد، جھٹ پٹ، صحبت پور، ڈیرہ غازی خان، پنجاب، اسلام آباد کے تمام زونز نے بھرپور مذمت کی اور پریس کانفرنسز کے ذریعے اس غیر آئینی فیصلے کو مسترد کیا اور واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ بی ایس او کوئی سرکاری لونڈی نہیں۔ بلوچ نوجوانوں کی جراءت اور کامیاب جدوجہد کو دیکھ کر حکمران طبقہ اپنے گرتی ہوئی اقتدار کو لرزتا محسوس کر رہا ہے اور انھوں نے یہ عہد کیا کہ ظلم، طبقاتی نابرابری، قومی جبرواستحصال، سامراجی درندگی اور قومی بقاءو بہتر انسانی سماج کی خاطر حتمی منزل کے حصول تک جدوجہد جاری رہیگی۔

اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کے نشے میں دُھت حکمران جماعت نے بلوچ نوجوانوں کے درست نظریات پر مبنی سائنسی جدوجہد، اکیڈمک ڈسکشن اور پڑھے لکھے نوجوان قیادت سے خوفزدہ ہوکر ماضی کی طرح ایک بار پھر بی ایس او کے نظریاتی سرکلوں، سائنسی بحثوں، سوالات اٹھانے اور تنظیم کو اندھے عقیدت مندوں کی ایک لاشعور گروہ بنانے کی مکارانہ چال چلی۔ جسمیں ایک طرف نوجوانوں کو ورغلا کر لالچ اور مراعات سے توڑنے کی کوشش اور دوسری جانب نظریاتی ساتھیوں کو دھونس دھمکی و بے بنیاد الزامات کی بھرمار کر کے راستے سے ہٹانے کی فرسودہ حربے استعمال کیے گئے۔ جسے انقلابی تنظیم کے جراءت مند سپاہیوں نے بلوچ محنت کش دشمن پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے قومی ادارے بی ایس او کے آئین و نظریات کے دفاع میں حب میں دو روزہ مرکزی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ بی ایس او(پجار) کی آزادانہ حیثیت برقرار رہیگی۔ تنظیم کے اندرونی معاملات میں کسی بھی پارٹی کو مداخلت کی اجازت اور سرکاری ٹولے کی توڑپھوڑ پالیسی کو نہیں چلنے دینگے۔ جس میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے، طلباء یونین کی بحالی، نصاب کی سائنسی بنیاد پر تشکیل، مادری زبان میں تعلیم کے حق کو تسلیم کروانے، روزگار کے حصول یا بدلے میں بیروزگاری الاوئنس، مفت معیاری تعلیم و علاج کے سہولت کے حصول، قومی بقاءوحقوق کی دفاع اور جبری استحصال کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا عزم کیا گیا۔ جس کی نگرانی دفاع بی ایس او کونسل دیا گیا جو تنظیم کا مرکزی فارم تھا۔ جس کے بعد نوجوانوں کی سرگرمیاں جوش وخروش کے ساتھ جاری رہی اور بی ایس او کے دفاع میں نصیرآباد میں عظیم الشان ریجنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں سینکڑوں کی تعداد میں مختلف زونز سے ساتھیوں نے شرکت کی۔

بالآخر نظریات کے دفاع میں کامریڈز نے بھرپور جدوجہد کی اور 15, 16 نومبر 2014 کو دو روزہ مرکزی اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوا جس کے بعد 19 نومبر کو پریس کانفرنس کے اعلان کیا گیا کہ بی ایس او کو بطور انقلابی تنظیم منظم کرنے کے لیے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جس کے آرگنائزر کامریڈ ظریف رند کو چناگیا۔ جس میں بی ایس او کے تمام دھڑوں اور بلوچ طلباء کو اپنے قومی ورثہ بی ایس او کے دفاع کی جدوجہد میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے شہید فدا بلوچ کے اتحاد جدوجہد آخری فتح تک کے فکر کو آگے بڑھانے کی استدعا کی گئی۔ جس کے بعد کامریڈز نے اس کاروان کو مزید تقویت دینے کے لیے جدوجہد کر کے بی ایس او کے نظریاتی پروگرام کو گھر گھر پہنچایا۔ دن رات ایک کر کے مختلف پروگرامز کر کے تنظیمی پروگرام کو طلباء تک پہنچایا اور ازسر نو ممبر سازی کا آغاز کیا جس میں مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات نے تنظیمی پروگرام پر اعتماد کر کے اس جہد کاروان میں شامل ہوتے گئے۔ کامریڈز نے انتھک محنت سے تنظیم کاری کرتے ہوئے غیر فعال زونز کو ازسرنو فعال کرتے ہوئے مختلف پروگرامز انعقاد کر کے 25,26 نومبر کو بی ایس او کا اکیسواں مرکزی قومی کونسل سیشن شال میں منعقد کیا۔ جس میں بلوچستان بھر سے آئے ہوئے تنظیم کے کونسلران نے شرکت کی۔ جس میں کونسلران کی متفقہ رائے سے تنظیم کے مرکزی آرگن پجار کو تبدیل کرکے اس کی جگہ سیشن نے بامسار کی منظوری دے دی اور تنظیم کے مرکزی بالائی ادارہ قومی کونسل سیشن نے بھاری اکثریت سے اس بات کی منظوری دیکر فیصلہ کیا کہ تنظیم اپنے نام کے ساتھ پجار کے لاحقہ سے بالاتر ہوکر اپنے مقدس نام اور شہداء کے عظیم ورثے بی ایس او کے نام سے بلوچ طلباء سیاست میں اپنا قومی اور نظریاتی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے پارلیمانی موقع پرستی سے اجتناب کرتے ہوئے ان کو طلباء کی سیاست کے برخلاف سمجھتی ہے اور تنظیم کی آذادانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے جمہوری پُرامن اور نظریاتی انداز میں ناقابل مصالحت جدوجہد جاری رکھے گی۔ جس کے بعد مرکزی آرگنائزنگ باڈی توڑ کر الیکشن کروا کے کامریڈ ظریف رند کو تنظیم کے آئندہ دو سال کے لیے مرکزی چیئرمین چُنا گیا۔

بی ایس او ہر دور میں جب توانا اور موثر قوت بن کر ابھری ہے تو سیاسی مداریوں، جاگیرداروں اور مزدور کا خون چوسنے والے سرمایہ داروں نے شدید خوف کی لہر محسوس کرتے ہوئے اسے کمزور اور ادارے کو اپنا فرمانبردار بنانے کے لیے اپنی پوری قوت جھونک دی ہے مگر سیاسی پنڈت اور ان کے زر خرید پّٹو یہ بات ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ اس عمارت کی تعمیر میں ہزاروں شہیدوں کا خون شامل ہے اور کئی سالوں سے لاکھوں نوجوانوں نے اپنی جوانیاں اس ادارے پر قربان کی ہیں۔ بی ایس او ایک سائنسی ادارہ ہے اسے اپنے سیاسی مقاصد اور جھنڈا مار تنظیم بنا کر غلام بنانا ممکن نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔