کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کیلئے احتجاج

149

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3758 دن مکمل ہوگئے۔ انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ حوران بلوچ، گنجان بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی جبر تشدد اور رہنماؤں، کارکنان  کا قتل عام جبری گمشدگی کے باوجود تنظیم اپنی پرامن تاریخی کردار سے دستبردار نہیں ہوا ہے بلکہ تنظیم کے لیے عوامی ہمدردی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرامن جدوجہد کے لیے برسرپیکار تمام قوتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ وقت و حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متحد ہوجائیں تاکہ دشمن کے ظلم، جبر اور سازشوں کے ناکام بناکر بلوچ شہداء کے ارمانوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ بلوچ قوم آج محض اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن جدوجہد کو آگے بڑھا رہی ہے، کٹھ پتلی حکومت بربریت اور بلوچ نسل کشی میں شدت لاچکی ہے کئی بلوچ فرزندوں کو شہید اور لاپتہ کردیئے گئے ہیں حتیٰ کہ خواتین و بچے بھی ان کی شر سے محفوظ نہیں ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ خواتین کے شعور میں اضافہ ہوا ہے اور وہ ہر محاذ پر اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ شریک جدوجہد ہے لیکن ان کی سیاسی، قومی جدوجہد سے خائف ریاستی گماشتہ ٹولوں کی ایماء پر دیگر حصوں سے لائے گئے، خواتین تبلیغیوں کی شکل میں بلوچ خواتین کو اپنے مقصد سے دور رکھنے کی سعی لاحاصل کی جارہی ہے بلوچ خواتین بھی بلوچ بلوچستان کے فرزند ہیں اسی لیے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کریں لیکن آج بلوچ قوم باشعور ہوچکی ہے کوئی نام نہاد قوم پرست بلوچ کی شہادت کو کیش نہیں کرسکتا اور نہ ہی یہاں پاکستانی سیاست کے لیے کوئی جگہ باقی ہے،غلامی ایک بیماری ہے جس میں تاریخ، تہذیب، شناخت، ثقافت، روایت اور زبان ناپید ہوجاتی ہے۔