منصب بلوچ کا پختہ نظریہ اور کمٹمنٹ – شعیب بلوچ

850

منصب بلوچ کا پختہ نظریہ اور کمٹمنٹ

تحریر: شعیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

منصب جان جیسے مستقل مزاج اور مہربان انسان سے ملاقات، چند باتیں ، ہنسی مزاق اور مسکراہٹ بھرے لمحات یوں گذر جاتے ہیں کہ انسان کو پتہ نہیں چلتا، مگر نہ جانے کیوں اُن جیسوں میں کیا خاصیت موجود ہوتی ہے کہ جو دوسروں میں نہیں ہوتی۔ یہی سوال میرے ذہن میں گردش کرتا رہا آخرکار میرا ملاقات خود اس سوال کے جواب کے ساتھ ہوا اور پھر معلوم ہوا کہ کیوں عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں ہم سمجھ نہیں پاتے۔ منصب جان کچھ دن اور ٹہرتے کیونکہ تم سے مل کر بہت کچھ سیکھنا تھا مگر پتہ نہیں زندگی کی سفر میں کہاں اور کیسے آپ جیسے ملنسار شخصتیوں سے ملاقاتیں ہونگے اور بچھڑ کر زندگی سے رخصت ہونگے مگر تمہارے ساتھ بیتے ہوئے لمحات جو بحث و مباحثوں اور ہنسی مذاق میں گزرے، میری زندگی کے سب سے انمول اور عظیم ترین لمحات تھے۔

سچی باتیں ، مشکل راستے ، اور سیدھے لوگ ، اکثر لوگوں کو پسند نہیں آتے اور کبھی کبھی انجانے میں آپ کے کہے ہوئے الفاظ دوسرے انسان کے دل پر صدیوں کا بوجھ چھوڑ جاتے ہیں اور منصب جان ہمیشہ اپنے کہے ہوئے الفاظ اور رویوں کو مثبت سمت فراہم کرتا کہ اس کے وجہ سے دوسرے لوگوں کے مابین منفی اثرات، ذہنی الجھاؤ، مایوسی اور ناراضگی کا ماحول پیدا نہ ہو اور اکثر اوقات غیر ضروری بحث و مباحثوں میں شرکت کے بجائے خاموشی کا اظہار کرتا تھا کہ ایک غیر ضروری بحث ہمیں اپنے دوستوں سے جدا نہ کرے۔ اسی طرح اگر بلوچ قوم میں ہر فرد منصب نما شخصیات سے آشنا ہو اور فرائضِ منصبی سے بخوبی واقفیت رکھتا ہو تو وہاں جزوی مشکلات اور نقصانات کی توقعات نہیں کی جاسکتی بلکہ زندگی میں مشکل سے مشکل ترین راستے خود رہنمائی کرتے ہیں۔

منصب جان خاصیتوں کا ایک ڈھانچہ تھا، جو ایک انقلابی جدوجہد کا قوت ہوتا ہے، ان جیسے کرداروں کے عملی نتائج سے قومیں ارتقاء اور عروج کے منازل کو طے کرتے ہیں اور تب جا کر کامیابی حاصل ہوتا ہے اور اس کامیابی کو مسلسل کوششوں و کاوشوں کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں چاہے راستے کتنے کٹھن کیوں نہ ہوں، مگر حوصلے کبھی نہیں ہارتے چونکہ منصب خود ایک واضح مثال ہے کیونکہ اس نے ثابت کر دیا کہ عظمت، حالات کی پیداوار نہیں یہ خود بخود ابھرتی ہیں اور اس وقت ابھرتی ہیں جب شعوری احساس زندہ ہو جاتا ہے۔

منصب کےپختہ نظریات و افکار رہتی دنیا تک ہر مظلوم و محکوم افراد کے لیئے مشعل راہ ہونگے۔ جو ہر مظلوم کو کٹھن اور مشکل حالات کا فہم و ادراک دیتا ہے اور جو افراد اپنے قوم کو محض کامیابی سے عظیم کامیابی کی طرف لے کر گئے ان میں کسی نہ کسی حد تک منصب جیسی خصوصیات یعنی یقین حوصلہ اور پختہ نظریۓ پر یقین موجود تھی۔ انہوں نے قوم کو “سادہ اور مفید نظریات سے سرفراز کرنے کے لیے خود میں موجود منصب جیسی فطرت کو استعمال کیا۔ سادہ اور مفید نظریات و افکار کا نظریہ ایک بہترین مقصد کی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ بہترین حکمت عملی ہے اور نہ ہی یہ نظریہ بہترین بننے کی منصوبہ بندی ہے بلکہ یہ تو ایک آگاہی ایک فہم کی حیثیت رکھتا ہے کہ قومیں کس طرح بہترین قوم کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔

ایسے لوگ جن کا خیال ہے کہ ان کی زندگی بے معنی ہے وہ اکثر ناامید ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص جو کسی خاص مقصد کے لئے زندگی بسر کرتا ہے وہ بڑے سے بڑے مشکل کو برداشت کرنے کی قوت ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ تو منصب کا یہ دیوانہ پن جو موت کو گلے لگانے کے قائل ہوا اس کے زندگی کا مقصد ہی تھا، جو وہ خواہشمند تھا آج وہ حقیقی شکل میں سورج کے روشنی کی طرح درخشاں ہے۔ اسی طرح ماہر نفسیات وکٹر فرانکل جنہوں نے نازیوں کے ہاتھ اذیت سہی، انہوں نے لکھا، ” میرا دعویٰ ہے کہ جو بات انسان کو کٹھن حالات برداشت کرنے کی سب سے زیادہ قوت دیتی ہے، وہ یہ علم ہے کہ اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے۔ اگر اس دعوے سے اتفاق کریں تو یقینا یہ منصب کا مقصد تھا جنہیں قومی موومنٹ کے ساتھ وابستگی اور ایک مضبوط ارادی عمل جو کٹھن حالات کو برداشت کرنے کا قوت بخش دیا وہ جس مقام پر فائز ہیں عموما وہ ایک منضبطہ نظریہ و کمٹمنٹ کا مالک تھا اور سخت محنتی اور اپنے جدوجہد سے انتہائی مخلص انداز میں سرگرم عمل نظر آتا تھا، جبکہ کسی بھی ادارے یا قومی تحریک میں کارکنان باصلاحیت، با حوصلہ، محنتی اور اپنے آپ پر یقین رکھتے ہوں تو کائنات کا کوئی بھی سامراجی قوت آپ پہ قابض ہونے اور ساحل وسائل پر حق جمانے میں ناکام ہوگا۔

اگر بلوچ تحریک میں ہر کارکن کے دل و دماغ میں منصب جیسے خصوصیت یعنی پختہ نظریہ کمٹمنٹ ہمت اور حوصلہ جنم لیں تو مسائل اتنے نہیں ہونگے جتنے ہم سمجھتے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کیونکہ سارے جہدکاروں کو ذہنی و جسمانی اور شعوری لحاظ سے پختگی حاصل ہوگا کہ ہر پیچیدگی کو سادہ اور اچھے طریقے سے انجام دیتے ہیں اور مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔