طالبان کو پروٹوکول دینا سفارتی اُصولوں کی خلاف ورزی ہے – افغان حکومت

229

افغان حکومت نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے طالبان کے وفد کو دیے گئے ’پروٹوکول‘ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے دورے افغان امن عمل کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوسکتے۔

افغان طالبان کا وفد چار روزہ دورے پر پاکستان آیا ہے، جہاں اُنہوں نے بدھ کے روز وزیراعظم عمران اور شاہ محمود قریشی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔

افغان صدارتی محل (ارگ) کے ترجمان صدیق صدیقی نے جمعرات کو کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان ایک ’شدت پسند‘ گروہ ہے اور اُن کا اس طرح استقبال کرنا ملکوں کے درمیان سفارتی اُصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

صدارتی ترجمان نے مزید کہا کہ ’پاکستان کے وزیرخارجہ نے پروٹوکول کے ساتھ اُن کا استقبال کیا، ایک ایسے گروہ کا، جو آج بھی تشدد پسند ہیں۔ یہ ملکوں کے درمیان سفارتی اُصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘

بدھ کی رات کو طالبان وفد نے پاکستان کا چار روزہ دورہ ایسے وقت میں شروع کیا، جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پہلے ہی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔

اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم ہاؤس کے ایک اہلکار نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جمعرات کی دوپہر وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں پاکستانی کی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے ہیں۔

اس سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے اعلیٰ سطح کے اس وفد نے پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے دفترِ خارجہ میں ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات میں پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔

دفتر خارجہ سے اس ملاقات کے بارے میں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے سیاسی وفد کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر نے کی اور اس ملاقات کے دوران خطے کی صورتحال اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔

دوسری جانب افغانستان کے چیف ایگزیکیوٹو عبداللہ عبداللہ نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کی خاطر طالبان کو کابل کے ساتھ بات چیت کرنے پر آمادہ کر پائے گا۔

بدھ کو کابل میں پاکستان کے سفیر زاہد نصراللہ خان سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کر پائے تو ملک میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔

یاد رہے کہ سنہ 2018 میں پاکستان نے سابق افغان جنگجو لیڈر ملا بردار کو آٹھ سال حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا تھا۔ انھیں سنہ 2010 میں پاکستان ہی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ رواں سال کے آغاز پر انھیں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔