سوشل ازم سائنس ہے | نواں حصہ – کم جونگ ال | مشتاق علی شان

200

سوشل ازم سائنس ہے | نواں حصہ

کم جونگ ال | ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

سوشلسٹ نظام جب قائم ہوجاتا ہے تو طبقاتی تضادات ختم ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے درمیان تضادات اور بے اعتمادی کا تعلق محبت اور اعتماد میں بدل جاتا ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں محبت اور اعتماد سماجی برادری کے اندر اس کے اراکین کے درمیان اور معاشرے میں افراد کے درمیان پھلتے پھولتے ہیں۔ ان کا نہایت ارفع و اعلیٰ مظاہرہ قائد اور اس کے آدمیوں کے درمیان دیکھنے میں آتا ہے جب معاشرے کے تمام افراد اپنی سماجی سیاسی کلیت کو فخر کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قائد اور اس کے پیروکار اور پارٹی اور عوام سب محبت و اعتماد کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور پورا معاشرہ ایک سماجی سیاسی پیکر کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ ان کی زندگی انتہائی قابلِ قدر اور خوب صورت زندگی ہوتی ہے۔ جس معاشرے نے اس کوحقیقت کا روپ دے دیا وہ انتہائی ٹھوس اور زبردست معاشرہ ہے۔

عوام پر مرکوز سوشل ازم سماجی زندگی کے تمام شعبوں میں رفیقانہ بھائی چارے اور تعاون اور محبت اور اعتماد کے تعلق کی بھرپور انداز میں عکاسی کرتا ہے۔ یہ سیاست کو محبت اور اعتماد کی سیاست میں بدل دیتا ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں جہاں عوام سیاست کے اہداف سے سیاست کے مالکان کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، محبت اور اعتماد سیاست کی روح کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ ہم محبت اور اعتماد کی سیاست کو خیر خواہ سیاست کہتے ہیں حالاںکہ سامراجی بورژوائی سیاست کرتے ہیں اور سوشلسٹ سیاست پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور کثیر الجماعتی نظام اور پارلیمانی جمہوریت جیسی باتوں پر شیخی مارتے ہیں۔ کالے کو سفید نہیں کہا جاسکتا بورژوائی سیاست دولت کے پجاریوں کی سیاست کے طور پر ظلم و جبر اور لوٹ مار کی کرخت اور مکارانہ سیاست ہوتی ہے۔

سوشلسٹ معاشرے میں صحیح معنوں میں خیر کی اور بھلائی کی سیاست عمل میں لانے کے لیے ایک سیاسی لیڈر کو جو لوگوں سے نہ ختم ہونے والی محبت کرتا ہو سامنے آنا ہوگا۔ سوشل ازم کے سیاسی لیڈر کو قیادت میں ماہر ہونا چاہیے لیکن سب سے پہلے اسے نیک اوصاف کا حامل ہونا چاہیے جو عوام سے بے حد محبت کرتا ہو۔ ایسا اس لیے ہے کہ سوشلسٹ سیاست بنیادی طور پر خیر وفلاح کی سیاست ہے۔ سوشل ازم کے ایک علم و لیاقت سے محروم قائد کی وجہ سے سوشلسٹ معاشرے کی ترقی میں کوتاہی اور تاخیر واقع ہو سکتی ہے، لیکن جو قائد اچھے اوصاف سے محروم ہو وہ لوگوں کے اعتماد کو دھوکا دے سکتا ہے حتیٰ کا سوشل ازم کو تباہی تک سے دوچار کرسکتا ہے۔

سوشلسٹ معاشرے میں محبت اور اعتماد کی سیاست کا پرچم بلند کرنے کے لیے برسرِ اقتدار سوشلسٹ پارٹی کو ایک شفیق و مہربان پارٹی میں ڈھالنا ہوگا۔

محنت کش طبقے کی پارٹی معاشرے کی قیادت کرنے والی سیاسی تنظیم ہوتی ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں ریاستی ادارے اور دیگر تمام تنظیمیں لوگوں کی جس طرح خدمت کرتے ہیں اس سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ پارٹی کی تعمیر کس طرح عمل میں لائی گئی ہے۔ سوشلسٹ معاشرے میں ریاستی اداروں اور دیگر تمام تنظیموں کو عوام کا خادم بنانے کے لیے ایک شفیق اور مادرانہ پارٹی کے طور پر سوشلسٹ پارٹی کی تعمیر کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ پارٹی کی تعمیر ایک مادرانہ پارٹی کے طور پر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی کو عوام کا حقیقی رہبر اور محافظ ہونا چاہیے اور اس کو اس طرح اپنی زیر نگرانی عوام الناس کے مقدر کی دل و جان سے نگہداشت کرنی چاہیے جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کی کرتی ہے۔ ماضی میں پارٹی کو طبقاتی جدوجہد میں خاص طور پر ہتھیار کی مانند تصور کیا جاتا تھا۔ محنت کش طبقے کی پارٹی کو قدرتی طور پر طبقاتی جدوجہد کرنی چاہیے۔ تاہم، تمام مقاصد اور اغراض کے لیے پارٹی کی سرگرمیوں کا منبع ومخرج عوام کی لامحدود محبت اور ان کا اعتماد ہونا چاہیے۔ اسے عوام کے مفادات کے تحفظ کو ترجیح دینی چاہیے اور اسے ان کے خلاف لڑنا چاہیے جو ان کے مفادات کوپامال کرتے ہیں۔ عوام الناس کی تائید و حمایت اور اعتماد سے محروم ہو کر انجام کار ختم ہو جانے والی پارٹیوں کی تعداد کم نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے ایسی مشفق و مہربان پارٹیوں کے طور پر ان کی تعمیر عمل میں نہیں لائی گئی جو اپنی زیرنگرانی لوگوں کے مقدر کی دل و جان سے حفاظت کرتی ہیں۔ وہ نوکر شاہی پارٹیاں بننے کی ذلت پر اُتر آئیں جو اقتدار سے جڑی رہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی رہیں۔

سوشلسٹ حکمران پارٹی کی ایک مادرانہ پارٹی کے طور پر تعمیر کرنا ہے تو عوام کی لامحدود محبت اور مخلصانہ خدمت کے جذبے سے تمام کیڈرز اور پارٹی اراکین کو تعلیم دی جانی چاہیے۔

عوام کی اگر خلوص نیت سے خدمت کرنا مقصود ہے تو انسان کو اپنے آپ سے پہلے لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہیے اور لوگوں کی خوشی اور غم کو خود اپنی خوشی اور غم سمجھنا چاہیے۔ لوگوں کی وفاداری سے خدمت کرنا ایک کمیونسٹ کا مقدس فریضہ ہے۔ اسی میں کمیونسٹ کی زندگی کی سچی قدروقیمت مضمر ہے۔ انقلاب کے لیے کام کرنے والا آدمی اپنے ذاتی مفاد، شہرت یا اختیار کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی زیادہ وفاداری کے ساتھ خدمت کرنے کے لیے محنت کش پارٹی میں شامل ہوتا ہے۔جو لوگ کسی اور سے پہلے سختیاں برداشت کرتے ہیں اور جو خود سے مشکل کاموں کو سنبھالتے ہیں جبکہ کامیابی کا اعزاز دوسروں کو دے دیتے ہیں وہی سچے کمیونسٹ اور محنت کش طبقے کی پارٹی کے رکن ہوتے ہیں۔ ایسے پارٹی اراکین کو نمایاں حیثیت دینے کے لیے ان کی نظریاتی تعلیم میں شدت پیدا کرنی چاہیے تاکہ وہ دل و جان سے لوگوں کی خدمت کر سکیں۔

سوشلسٹ حکمران پارٹی کو ایک مادرانہ پارٹی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کیڈرز کی انقلابی انداز میں کایا پلٹی جائے اور سرگرمی سے ان کے درمیان اختیار کے ناجائز استعمال نوکر شاہی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ یہ وہ اصل عناصر ہیں جو سوشلسٹ معاشرے میں دیانتدارانہ سیاست کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔ سوشل ازم تمام مراعات کے خلاف ہے سوشلسٹ نظام کے قیام کے بعد مراعات یافتہ طبقہ وجود میں نہیں آسکتا لیکن اگر سوشلسٹ معاشرے میں اختیارات کے ناجائز استعمال، نوکر شاہی بے قاعدگیوں اور بد عنوانی کے خلاف جدوجہد نہ کی جائے تو بعض ناقص طور پر تربیت پانے والے کیڈرز نظریاتی طور پر بگڑ سکتے ہیں اور عوام سے کٹ سکتے ہیں اور اس طرح مراعات یافتہ طبقہ بن سکتے ہیں۔ پارٹی اور حکومت کی حکمتِ عملیاں کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں ان کو بہ طریق احسن عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا جب تک کیڈرز اختیارات کے ناجائز استعمال اور نوکر شاہی جیسی خرابیوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارٹی اور ریاست کی تمام حکمتِ عملیاں کیڈرز کے ذریعے عمل میں لائی جاتی ہیں۔ اگر کیڈرز اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں، نوکر شاہی کے طرز پر کام کرتے ہیں اور بے قاعدگیوں اور بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں تو برسرِ اقتدار سوشلسٹ پارٹی عوام کی حمایت اور اعتماد سے محروم ہو جائے گی اور ان کی حمایت کے بغیر پارٹی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ تاریخی سبق بتاتا ہے کہ سوشلسٹ حکمران پارٹی کے لیے اختیارات کے ناجائز استعمال، نوکر شاہی بے قاعدگیوں یا بدعنوانی کو کیڈرز میں برداشت کرنا خود اپنی قبر کھودنے کے مترادف ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔