بولان میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل کی بندش تعلیمی نظام کی ناکامی ہے – پی وائی اے

171

پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے صوبائی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ہاسٹل کامسئلہ ایک اہم اور بنیادی ہے، مگر اس مسئلے کو صوبے کے نااہل حکمران اور کرپٹ بیوروکریسی کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ طبقاتی نظام تعلیم میں ایسے مسائل کا ادراک صرف سماج کے پسے ہوئے طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے۔ عید کے بعد سے اب تک بولان میڈیکل یونیورسٹی کا ہاسٹل الاٹمنٹ کرانے کے نام پر بند پڑا ہے جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے غریب طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ ہاسٹل کی بندش کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جس کی تمام تر ذمہ داری نا اہل حکومت اور سرکاری اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس جدید سہولیات سے آراستہ مفت ہاسٹلوں کا نہ صرف مطالبہ کرتی ہے بلکہ طلبہ سیاست کی جدوجہد میں اسے اپنے منشور میں بنیادی اہمیت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے تمام تر تعلیمی اداروں کے ہاسٹلوں میں میرٹ پر الاٹمنٹ کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی کے علاوہ صوبے کے دیگر تعلیمی اداروں، جن میں بلوچستان یونیورسٹی، پولی ٹیکنیک اور تین نئے میڈیکل کالج (لورالائی، خضدار اور تربت) شامل ہیں، کے طلبہ ہاسٹلوں کی کمی کے باعث پرائیویٹ ہاسٹلوں اور فلیٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ صوبے کی دوسری بڑی یونیورسٹی بیوٹمز، موسیٰ کالج (صوبے کا واحد لاء کالج) کے ہاسٹلز کا وجود سرے سے نہیں ہے جبکہ پچھلے چند سالوں سے بند سائنس کالج کے ہاسٹلوں کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے جسکی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے طلبہ دربدر کی ٹھوکریں کھا کھا کر غیر معیاری اور مہنگے پرائیویٹ ہاسٹلوں کے کاروبار کا ایندھن بن جاتے ہیں۔

مزید یہ کہ جن اداروں میں ہاسٹل موجود ہیں وہاں پر چند گروہوں نے اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ سیاست کو فقط کمروں کی سیاست تک محدود کر دیا گیا ہے۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی کی بات کی جائے تو یہاں چند گروپوں نے یونیورسٹی کے ہاسٹل پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مستحق طلبہ پرائیویٹ ہوسٹلوں میں مہنگے کرائے دینے پر مجبور ہیں جبکہ ان تنظیموں کے عہدیدار کئی سالوں سے ہاسٹل کے کمروں پر غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ طلباء کو ایک طرف کرپٹ انتظامیہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف قبضہ گیر گروپوں میں زبردستی شمولیت اختیار کرنی پڑتی ہے تاکہ ہاسٹل کا کمرہ مل سکے۔ جس کی وجہ سیاسی شعور کو پروان چڑھنے نہیں دیا جارہا ہے، جوکہ نئی نسل کیساتھ زیادتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کو بہترین تعلیمی ماحول اور ہاسٹل جیسی بنیادی ضرورت فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور نئے ہاسٹل بنانے سے قاصر انتظامیہ اپنی نااہلی چھپانے کے لئے طلبہ پر گھناؤنے الزامات لگا رہی ہے۔ دوسری طرف قبضہ گیر طلبہ گروپ جن کی تمام سیاست ہاسٹل کے کمروں تک محدود ہے ہاسٹل کی نئے سرے سے الاٹمنٹ پر اپنا دماغی توازن برقرار نہیں رکھ پا رہے اور میرٹ پر الاٹمنٹ کے خلاف بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں۔ ان دونوں انتہاؤں میں طلبہ پس رہے ہیں۔

پروگریسو یوتھ الائنس کے صوبائی ترجمان نے کہا کہ ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کے تمام تر تعلیمی اداروں میں جدید سہولیات سے آراستہ مفت ہاسٹلوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور ان ہاسٹلوں کی الاٹمنٹ میرٹ کی بنیاد پر کرانا متعلقہ اداروں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہونی چاہیئے۔