میڈیکل کے اسٹوڈنٹس سراپا احتجاج – گہرام اسلم بلوچ

203

میڈیکل کے اسٹوڈنٹس سراپا احتجاج

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان سے لیکر بلوچستان کو صوبہ کا درجہ ملنے تک شروع سے بلوچستان کے حوالے سے فیڈریشن کا یہی رویہ رہا ہے کہ تعلیم کے میدان میں بلوچستان کے نوجوانوں کو دور کیا جائے، المیہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی طلباء اپنے حقوق کے لیے جب تک سڑکوں پہ نہیں نکلیں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکہ کسی کا سُنا جائے یا کسی بھی امتحان یا ٹیسٹ کا نتیجہ بروقت نکلے۔ بلوچستان میں میرٹ کا یہ عالم ہے چاہے پبلک سروس کمیشن ہو یا دیگر مقابلہ جاتی امتحانات ہوں انکے نتائج شکوک و شبہات سے پر ہوتے ہیں۔ ہر جگہ تحفظات ہی تحفظات، حالیہ دنوں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے نتاٸج پہ بھی ہم سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر دیکھ رہے ہیں کہ بے شمار طلبہ وطالبات متاثر ہوٸے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔

بلوچستان کی تعلیمی مسائل سے جڑا، ایک اور مسئلہ سامنے آگیا ہے، گذشتہ روز بلوچستان کے طلبا و طالبات ٹیوٹر و فیسبک پہ سب سے زیادہ اس پر بحث کر رہے ہیں کہ ستر سال بعد بلوچستان جیسے ہر لحاظ پسماندہ صوبے کو گذشتہ نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں تین میڈیکل کالجز جھالاوان، مکران اور لورلائی میں Establish ہوئے اور بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ۔ اورتمام کالجز کے پرنسپلز بھی تعانیات ہوۓ ہیں اور داخلہ ٹیسٹ بھی ہوا اور ایک Batch بھی enrolled ہے مگر حالیہ ٹیسٹ کے بعد اچانک پی ایم ڈی سی نے بلوچستان کے لیے ایک مسئلہ کھڑا کیا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر حتمی میرٹ لسٹ آویزاں کرنے میں رکاوٹ کھڑی کی جا رہی ہے۔ عجیب منطق ہے کہ یہ تینوں کالجز PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے requirements پورا نہیں کر رہے ہیںم لحاظہ رجسٹرڈ نہیں ہیں تو ان کی ملازمین کو کیوں بھرتی کیا گیا، جس کا ایک پرنسپل لاکھوں روپے تنخواہ لے رہا ہے اور باقی ملازمین اپنی جگہ کیا یہ صوبے اور ملک کے کمزور بجٹ پہ بوجھ نہیں ہیں؟

اس کا ازلہ کون کرے گا؟ جن طلبہ و طالبات کو اپنے کلاسوں میں ہونا تھا، مگر سماج کا المیہ ہے کہ وہ معصوم نوجوان پریس کلب کوئٹہ کے سامنے بھوک ہڑتال پہ بیٹھے ہیں ان کے والدین پہ کیا بیت رہی ہو گی کہ کتنے جفاکشی اور محنت اور مزدوری کرکے ان کو پڑھایا ہے۔ مگر اس بے رحم معاشرے کےحکمران اور افسر شاہی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ چند متعلقہ افسران اپنے ذاتی مفادات اور اپنے انا کی خاطر اسٹوڈنٹس کا تعلیم ضیاع ہونے کا کوئی پروا بھی نہیں، کاش کے انصاف بھی مظلوم طلبہ کیلے ہوتا۔ ٹیوٹر سرکار عوامی مساٸل سے کوٸی سروکارٸی نہیں ہے۔ آخر یہ اسٹوڈنٹس جاٸیں تو کہاں جائیں کیا یہ بلوچستان کے ہر نوجوان نسل کے مقدر میں لکھا ہے کہ اپنے جائز حقوق کیلے بھی سڑکوں پہ دھرنا دینا ہو گا۔

کوئٹہ پریس کلب کے باہر آل میڈیکل کالجز متاثرہ طلبا و طالبات کے کیمپ کے برابر میں شعبہ طب سے تعلق رکھنے والےفارمسسٹس بھی بھوک ہڑتال پہ بیٹھے ہوٸے ہیں، کہاں ہے آپ کی گڈ گورنینس، بہتر طرز حکمرانی کرنے کے دعوے، آپ ہی کے صوبے کا حال و مستقبل، بجائے کلاسوں کے سڑکوں پر ہیں۔ اس سے قبل اس بولان میڈیکل کالج بی ایم سی کا ایک طالب یوسف پرکانی اسی نظام سے تنگ آکر خود کشی کرلی۔

بلوچستان کے مظلوم طالب علم اس سے زیادہ قربانی نہیں دے سکتے، خدارا اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر ان معصوم اسٹوڈنٹس کا ذرا خیال کریں، تاکہ آنے والی نسل کم از کم اس طرح کے مسائل سے دو چار نہ ہوں۔ اس سے تو بس دو چیز نظر آرہا ہے ایک تو یہ کہ یہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کی بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی دور ہو جائے یا آپس میں انتظامیہ کہ اپنی انا یا چپقلش ہوگی مگر جو بھی ہے تمام فریقین کو صوبے کے عظیم ترین مفادات کی خاطر اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیئے ایک پیج پر ہونا ہوگا، ہم بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ اگلے چند دنوں میں اس مسئلے کا حل تلاش کرکے جلد متاثرین کے لیئے خوش خبری ملے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔