ثناء بلوچ کا انجام – سمیر جیئند

342

ثناء بلوچ کا انجام 

تحریر۔ سمیر جیئند

دی بلوچستان پوسٹ

        ہر کوئی دعوے سے کہہ سکتاہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ناکام ریاست ہی ہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی غیر فطری طریقے سے فرنگی نے رکھی تھی، پس جس طرح یہ ملک بے بنیاد ہے لہٰذا اسکی ریاست، مذہب، اسلام، اقتدار،فوج، جمہوریت، ڈکٹیٹر شپ غرض تمام برائے نام کہنے کے مستحق ہیں۔ تو اسی حساب سے یہ ناکام ریاست غیر مہذب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وحشی اور درباریوں کی جمگھٹے کامجموعہ بھی تصور ہوگا، کیونکہ اس میں تمام ریاستی ٹولز کسی اور کے رحم کرم پر قائم ہیں۔ مثلاً ملک انگریز کے مرہون منت غیر مستحکم کنڈیشنزپربنایا گیا، تو اقتدار اعلیٰ غیر رسمی طورپر ٰ فوج کو سونپی گئی۔ جب یہ ادارہ اپنے آپ کو اقتدار اور اختیار کا کل تصور کرنے لگا تو تمام ریاستی ادارے اس کے سامنے دم ہلانے لگے، جس میں عدلیہ سے لیکر سول بیروکریسی، مذہبی علماء، درباری دانشور، ادیب اور میڈیا سمیت سیاست کرنے والے سیاسی موسمی مینڈک شامل ہیں۔ سب انکے زیر تسلط ہمیشہ ہمیشہ کیلے گروی رکھ دیئے گئے، جس طرح خود فوج دنیا کے شاطر ملک امریکہ اور اس کے استحصالی پارٹنرملکوں کے زیر کنٹرول ہے۔

جب بات یہاں آکر اٹک جاتی ہے، تو تصور کریں اس ریاست میں بطور ایک مقبوضہ ریاست کے، ایک ایسا بلوچ، جس نے ماضی میں کافی عرصے تک پاکستان مردہ باد کا ورد کیاہو، اس کے بعد یوٹرن لیکرنام نہاد پارلیمانی سیاست شروع کر رکھاہو، انکی قوم پرستی کا ویژن صاف ہو، نہ اسکی پارٹی منشور، گویا وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کہلانے کا حقدار ہو، اس کے ایک کٹھ پتلی ایم پی اے کی حیثیت اس ریاست یا عوام میں کیا ہوگی؟ یقیناً اونٹ کے منہ میں زیرے کی برابر، جب وہ جن کی خوش نودی کیلئے اپنا ضمیر بیچ چکاہو، وہاں موصوف کی حالت قابل رحم ہو تو جو قوم اس کے آقاء ریاست کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے یہ حکم دے کہ بس اب لوٹ مار اور استحصال کا وقت گذر چکا، یہاں سے بوریا بستر لپیٹ کر پتلی گلی سے کھسک جاو، وہاں اس ایم پی اے کی حیثیت جوتی کے برابر نہیں تو اور کیا ہوگی؟

اس تذلیل کا سامنا آج بلوچستان نیشنل پارٹی کے نام نہاد صوبائی اسمبلی کے ممبر ثناء اللہ بلوچ کو کرنا پڑ رہاہے، کیونکہ موصوف ناپاک ریاست اور اس کے ایجنسیوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور مزید مراعات کی حصولی کی خاطر گذشتہ دنوں قابض ریاست کے درجن سے زیادہ ریگولر آرمی کے کارندوں کی بلوچ آزادی پسندوں کے ہاتھوں مارے جانے پر، بلوچ آزادی پسند جوکہ بلوچستان ریاست کے مالک ہیں کو دہشت گرد قرار دیکر اس واقع کی مذمت کی تھی حالانکہ موصوف کو قابض ریاست کے کارندوں کو دہشت گرد قرار دینا چاہیئے تھا کیونکہ وہ بلوچ سرزمین کو گذشتہ بہتر سالوں سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بندوق کی نوک پر قبضہ کر رکھے ہیں اور روزانہ انکے پیاروں کو اغواء کرتے ہیں، ان پر بمباری کرکے انھیں جانی و مالی نقصان پہنچاتے اور انکی خواتین کی عصمتیں نیلام کرتی ہیں۔ مگر انھوں نے اس کے برخلاف کیا حالانکہ اگرموصوف کے پچھلے چند دہائیوں کی سیاست اٹھاکر دیکھیں تو انھوں نے خود کہا ہے ”ریاست پاکستان بلوچ سرزمین پر لاٹھی کے زورپر سیاست کرکے غیور بلوچوں کوہانک رہے ہیں“اس کے علاوہ وہ خود قابض ریاست کے ظلم کے گواہ ہیں کیونکہ کئی دہائیوں سے یہ سب کچھ اپنے آنکھوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں، وہ سالوں سے اس ظلم کے خلاف بلوچ طلباء تنظیم، بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن (بی ایس او)کے پلیٹ فارم سے اسے سیڑھی بناکر پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاکر سیاست کر چکے ہیں۔

اب اس بیان کے بعد گویا کوئی بھی ذی شعور بلاجھجک کہنے کا حق رکھتاہے کہ موصوف خود غرضی اور لالچ کے ہاتھوں اتنا مجبور ہواہے کہ وہ اپنا تھوک چاٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اگر وہ کوئی شرمندگی محسوس کرتے تو آج وہ اس قابض ریاست کے وحشی فوج کو معصوم تصور نہ کرتے، اور اسکے انہی الفاظ میں مذمت کرتے، جب وہ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کرتے تھے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کرکے اپنا اور اپنے پارٹی کا نام تاریخ میں صادق اور جعفر کے لسٹ میں رقم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اب یہ ذمہ داری انکے آقا ناکام ریاست اور اسکے کرتا دہرتا فوج کی بنتی ہے کہ وہ موصوف کو، برسوں سے ہر ماہ چاند نہ دیکھنے والے مفتی منیب کی طرح تاحیات اور مرنے بعد بھی مفتی کا خطاب عطاء کریں کیونکہ انھوں نے اپنا برسوں کا تھوک چاٹ کر،اپنے ہی پیر پراس وقت کلہاڑی ماری ہے، جب یورپی یونین ہو کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے اور ملک ہرطرف سے بلوچ سرزمین پر پاکستان کی بربریت اور وحشت بند کرنے کی صدائیں اٹھ رہی ہیں، ایسے میں یہ بیان دیکر موصوف نے اپنے عزت کے ساتھ کھلواڑ کرکے پاکستان کے مردہ جسم میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے جو قابل تعریف ہے۔

ثناء اللہ بلوچ ہم نے اس بے رحم اور ہر بندے کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینکنے والے ریاست کے آقاؤں سے آپ کے اس بے ضمیری کے عوض آپ کو اچھی مراعات دینے اور ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرکے آپ کو پھینکنے کی سفارش کی ہے امید ہے وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے،محمد علی جناح کی طرح جب آپ کو تکلیف پہنچی تو وہ آپ کو جلدی شمشان گھاٹ پہنچا دیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔