بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے – بی ایس او

198

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین نذیربلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کامسئلہ حل کرنے کیلئے سیاسی طریقہ کار اپناتے ہوئے بات چیت کا عمل شروع کرکے لاپتہ افراد کورہا کیا جائے۔

حکومت نے بجٹ میں قلم کی بجائے بندوق کوترجیح دی ہے، سی پیک منصوبہ بلوچستان کیلئے خوشنما نعرے کے سوا کچھ نہیں، صوبے کے احساس محرومی کے خاتمے کیلئے تعلیم پر توجہ دی جائے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان کی تعیناتی میرٹ پریقینی بناتے ہوئے حکومت ڈویژنل سطح پرڈیجیٹل لائبریری،میڈیکل کالجزاوربورڈآفسز قائم کرے۔

ان خیالات کااظہارانہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں بی ایس او کے وائس چیئرمین خالدبلوچ، جنرل سیکریٹری منیر جالب بلوچ، سیکریٹری اطلاعات ناصر بلوچ، مرکزی جوائنٹ سیکریٹری شوکت بلوچ، سی سی کے رکن اقبال بلوچ و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر نذیر بلوچ نے کہا کہ گذشتہ روز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ کے اجلاس میں صوبے کی سیاسی صورتحال، طلباء و طالبات اور اساتذہ کو درپیش چیلنجز، تعلیمی اداروں میں منفی سرگرمیوں، زبوں حالی، اساتذہ اورطلباء کش پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا اور مستقبل میں ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔

،انہوں نے کہا کہ بی ایس او 1967 سے عملی جدوجہد کا حصہ ہے اس دوران بی ایس او نے بلوچستان کو دانشور، اساتذہ اور قیادت فراہم کی ہے جو اپنے اپنے شعبے میں صوبے کی خدمت کررہے ہیں۔ مختلف ادوار میں بی ایس او کا راستہ روکنے کیلئے ہمارے ساتھیوں کوشہید کیا گیا اور آج ایک مرتبہ پھر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کیخلاف سازشیں ہورہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 71 سالوں سے طاقت کا استعما ل کیا گیا بلوچستان کامسئلہ حل کرنے کیلئے سیاسی طریقہ کار اپناتے ہوئے بات چیت کاعمل شروع اور لاپتہ افراد کورہا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صرف بجٹ بناتی ہے موجودہ بجٹ میں حکومت نے قلم کی بجائے بندوق کوترجیح دی ہے اوراس میں تعلیم سے متعلق کوئی قابل ذکر منصوبہ شامل نہیں ہے۔

بلوچستان کے احساس محرومی کا خاتمہ یقینی بنانے کیلئے تعلیم پرتوجہ دینا ضروری ہے۔ طویل عرصے سے لسٹیں نہ لگنے کی وجہ سے میڈیکل کے طلباء سراپا احتجاج ہیں صوبے کے اساتذہ بھی احتجاج پر بیٹھے ہیں اگر ان کے مسائل کے حل کیلئے حکومت کے پاس اختیار نہیں تو اقتدارمیں کیوں بیٹھی ہے۔ کوئٹہ کی واحد لائبریری میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں طلباء لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں مسائل کاحل نکالنے کیلئے 7 مہینے تک احتجاج کیا مگر کوئی حل نہیں نکلا۔ ایچ ای سی نے فنڈ میں کمی اور فیسوں میں اضافہ کرکے طلباء کیلئے تعلیم کے دروازے بند کردیئے بلوچستان پسماندہ علاقہ ہے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ اتنی فیسیں ادا کریں، بلوچستان بھرکے سرکاری کالج تباہ اور کھنڈر کا منظر پیش کرتے ہیں اور کسی بھی وقت طلباء پر گرسکتے ہیں، اکثرکالجوں میں لیکچرار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے نام پر لولی پاپ دیا گیا ہے اس ضمن میں بلوچستان میں کوئی یونیورسٹی، کالج یا ہسپتال نہیں بنایا گیا، دوسرے صوبوں کے کالجوں میں بلوچستان کے طلباء کیلئے مختص کوٹے میں کمی کی گئی ہے، تمام سہولیات فراہم کی جائیں تب یہاں کے طلباء دیگر صوبوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مہران یونیورسٹی ٹنڈوجام میں ہمارے صوبے کے پوزیشن ہولڈر طلباء کو نظر انداز کیا جارہا ہے ان کیلئے کوئی آواز نہیں اٹھارہا، بلوچستان کے طلباء سے 1 لاکھ 31 ہزار جبکہ سندھ کے طلباء سے صرف 20 ہزاروپے وصول کئے جارہے ہیں جوکہ قابل واپسی ہیں مگر بلوچستان کے طلباء کو ادا نہیں کئے جاتے۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان میں ایم ایڈ کے امتحانات 2 سال پہلے منعقد ہوئے مگر ابھی تک نتائج کااعلان نہیں کیا جاسکا، شعبہ امتحانات ک اکنٹرولر 21 گریڈ کا پروفیسر ہے جنہوں نے امتحانات کو کاروبارکا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی سے تعصب نہیں کرتے تاہم آئی ٹی یونیورسٹی میں ایک ہی وی سی عہدے پر گذشتہ 10 سالوں سے براجمان ہے، وہاں 7 فیصد بلوچ طلباء و طالبات اور لیکچرار ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں مگر جامعہ کی انتظامیہ کا رویہ ان کیساتھ بہتر نہیں 3 سو 43 آسامیاں خالی ہونے کے باوجود انہیں تاحال مستقل نہیں کیا گیا، آئی ٹی یونیورسٹی چلتن کیمپس طویل عرصے سے تیار ہے مگر اس کو ابھی تک فعال نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سفارش کلچر کوفروغ دے کر بلوچستان کے جامعات کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کردیا گیا ہے، ان اداروں کے سربراہان کی تقرری میرٹ کی بنیاد پر کی جائے اور ویمن یونیورسٹی میں ہونے والی تقرریوں سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے اور نئے وائس چانسلر کی تقرری میرٹ پر کی جائے جبکہ میڈیکل کالجوں کے طلباء کی لسٹیں آویزاں کرکے کلاسیں جلد بحال کے جائیں۔

ان تعلیمی مسائل کے حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ایک بورڈ آفس پورے صوبے میں میٹرک اور ایف ایس سی تک تمام امتحانات کے معاملات کو مشکل سے چلا رہا ہے، کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں معیاری تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں، بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کاخاتمہ یقینی بنانے کیلئے عملی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے، صوبائی حکومت ڈویژنل سطح ڈیجیٹل لائبریری، میڈیکل کالجز اور بورڈ آفسز کا قیام عمل میں لائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے چند اضلاع میں بی ایس پروگرام چل رہا ہے جس کی وجہ سے آنے والے وقت میں ان کی ڈگریوں کا معاملہ ہوسکتا ہے صوبائی حکومت اس ضمن میں پالیسی بنائے تاکہ طلباء مشکلات سے دوچار نہ ہوسکیں۔