آپریشن زرپہازگ کے بعد – ساگر گوادری  

300

“آپریشن زرپہازگ” کے بعد

ساگر گوادری

دی بلوچستان پوسٹ 

جب گوادر کے مشہور پی سی ہوٹل پر مجید برگیڈ کے چار جانباز فدائین ساتھوں نے قبضہ کرکے 26 گھنٹوں تک بلوچ دشمن پنجابی فوج سے لڑتے رہے۔ تو اس جنگ میں فوج کی بھاری نفری ہلاک ہوئے تھے، جیسا کہ ایک موسیٰ نے فرعونی لشکر کو نیست و نابود کیا تھا۔

اِس جنگ کے دوران ایس ایس جی کمانڈوز کو بھی بُلایا گیا تھا، جس میں بیس سے زائد کمانڈوز کو جنگ کنٹرول کرنے کیلئے بلایا گیا، پانچ پانچ کرکے انہیں ہوٹل میں داخل ہونے کو کہا گیا، انہیں پانچ پانچ کے ٹولی میں ہوٹل میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا مگر اُن بیس۲۰ کمانڈوز میں سے ایک بھی پھر واپس نہیں آیا تھا، انہیں ہوٹل کے اندر بلوچ فدائینوں نے مار کر ہلاک کیا تھا۔

باقی جو آس پاس کے جتنے بھی فوجی وغیرہ تھے، سب کو ایک ایک کرکے مار دیا گیا۔ فدائین جس مقصد کیلئے گئے تھے اللہ کا شکر ہے وہ اپنے ہدف و اصل مقصد میں کامیاب ہوئے۔

گوادر ایک بند علاقہ ہے، جہاں آنے جانے کا راستہ بھی ایک ہے اور وہاں یہ پنجابی فوج اتنا گھمنڈ کرتا تھا کہ گوادر میں ایک بھی سرمچار دکھائی دے تو اسے ختم کیا جائے گا کیونکہ گوادر ہمارے کنٹرول میں ہے اور گوادر میں ہماری اجازت کے بغیر ایک پرندہ بھی داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ اور وہاں کے دلال و مخبر بھی اسی بات پر خوش تھے کہ گوادر ہمارے لئے ایک حفاظتی پناہ گاہ ہے، یہاں ہم بالکل محفوظ ہیں۔

لیکن مجید برگیڈ کی فدائینوں نے گوادر میں انٹر ہوکر کوہ باتیل کے اوپر چڑھ کر پورے گوادر کی رونق کو دیکھنے کے بعد پی سی ہوٹل پر قبضہ کرکے اس پنجابی فوج اور ریاستی مخبروں کو ایک چیلنج اور پیغام دیا کہ ہم کبھی بھی اور کسی بھی وقت گوادر میں انٹر ہوسکتے ہیں اور ناپاک فوج و چینی انجنئیروں پر حملہ بھی کرسکتے ہیں۔

جو لوگ بے خبر تھے غفلت کی نیند میں سو رہے تھے، جنہیں کچھ معلوم نہ تھا کہ جنگ گوادر میں بھی ہوگا، مگر جب اچانک حملہ ہوا اور جنگ ہوئی تو فوج اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے طرح طرح کا جھوٹے پروپیگنڈے کرنے لگی اور دوسری طرف عوام خود پنجابی فوج کی لاشیں دیکھ رہی تھی، تب انہیں معلوم ہوا کہ واقعی سرمچار زندہ ہیں گوادر میں موجود ہیں اور انہیں بالکل جیسے غیبی مدد حاصل ہے۔

پھر لوگ بھی آہستہ آہستہ اپنے نفرت کا اظہار کرنے لگے، کہ خدا کرے یہ پنجابی فوج تباہ و برباد ہوجائے، اللہ کرے یہ پنجابی فوج غرق ہوجائے،اللہ ہمارے بلوچ نوجوانوں کی حفاظت و مدد فرمائے۔

پاکستان کیلئے اس سے بڑی ناکامی کیا ہوسکتی ہے، بدنام زمانے کے بدنام جنرل و کرنل اپنی ناکامی چھپاتے رہے، میڈیا کو بھی بلیک میل کرتے رہے مگر حقیقت تو کب سے سامنے آچکا تھا کہ یہ پنجابی فوج اپنا پینٹ گیلا کرچکی ہے۔

حملوں کے بعد، پھر حب چوکی سے لیکر گوادر جیونی تک پاکستانی فوج لوگوں کو اغواء کرنا شروع کرتی ہے اور آج تک بھی ناکام ریاست ساحلی علاقوں میں عام عوام کو اغواء کرکے انہیں ٹارچر سیلوں میں اذیت و تشدد کرے پھر انہیں نیم مرگ کی حالت چھوڑ دیتی ہے۔ اور گوادر میں آنے جانے والی عوام کی مکمل چیک کرتی ہے، شُناختی کارڈ کو مکمل رجسٹر کرتی ہے کہ واقعی یہ گوادر کا باشندہ ہے کہ نہیں، مگر اس بیچارے کو کیا خبر کہ گوادر میں بھی ایسے ہزاراں نوجوان موجود ہیں، جو فدائین کیلئے تیار ہیں، دشمن کے ساتھ جنگ لڑنے کو میدان جنگ میں اتر چکے ہیں۔

ایک اور چال کہ وہ نیا سسٹم کو بحال کرکے صرف یہ معلوم کررہے ہیں کہ جہاں جہاں بھی فوجی گاڑی ہوں یا ان کے اپنے دلال ہوں، تو ان کی لوکیشن کو کور کیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ علاقے میں فوج کے علاوہ کوئی اور انٹر نہ ہوسکے۔

اب گوادر کو اپنا بنانے کیلئے جو پاکستانی فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی وغیرہ سوچ رہے ہیں، تو اس سے دو گنا بلوچ سرمچاروں کی کاروان براس جو کہ نیا اتحاد ہے اور مجید برگیڈ اور باقی جہد کار سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کہاں کب اور کیسے حملہ کرنا ہوگا۔

اب گوادر کیلئے جو سوچنا ہے تو اس سے زیادہ گوریلا خود جانتے ہونگے کیونکہ وہ خود ایک مشترکہ سوچ و مشترکہ حکمت عملیوں کی پیروکار ہیں، کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے اسکا فیصلہ بھی وہ خود کرینگے ۔

مگر ہم اس ناپاک ریاست پاکستان کو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ جنگ ختم ہونے والا نہیں ہے آج کا نسل کل کا نسل اور آنے والی نسلیں سب اس ناسور ریاست کے دشمن ہیں اور وہ لڑتے رہینگے جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا، اب بلوچستان یا بلوچستان کے کوئی بھی ملکیت یا ساحل گوادر ہو سب بلوچ سرمچاروں کی نگرانی میں ہے اس کیلئے کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں۔

کیونکہ جس دن بلوچ جانبازوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا اسی دن بلوچوں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں کیا کرنا ہے، صرف آزادی کیلئے لڑنا ہے اپنے دھرتی ماں کو آزاد کرنا ہے اور بلوچستان کو پاکستان کے قبضے سے چھڑا کر ایک آزاد ریاست آزاد بلوچستان بنانا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔