گوریلا حکمت عملی اور روایتی جنگ – شہیک بلوچ

366

گوریلا حکمت عملی اور روایتی جنگ

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں ریاستی فوج کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہونے والے فرزندوں کی قربانی اپنی جگہ لیکن یہاں ایک نہایت اہم غلطی کی نشاندہی لازم ہے کہ روایتی طرز پر گشت گوریلا اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور اس کے شدید نقصانات کو سمجھنا لازم ہے۔ ریاست ایسے حالات خود create کرتا ہے جہاں وہ ایک قدم پیچھے رہ کر دو قدم آگے چلنے کی چال چلتا ہے لیکن جہدکار کو اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھانے کی بجائے گوریلا فن و حرب کے تحت اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ گوریلا جنگ کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ گوریلا سپاہی اپنی حفاظت کو طویل مدتی دورانیئے میں کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ مدمقابل کے پاس ایک پورا آرگنائزڈ اسٹیٹ ہے، جو ہیومن ریسورسز سے لے کر معاشی و سیاسی طور پر حاوی ہے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لیئے پائیدار متبادل حکمت عملی درکار ہے۔ بے ترتیب جنگ نہ صرف مظلوم کے اپنے گلے کا پھندہ بن سکتا ہے بلکہ اس سے نقصانات کی شدت تحریک کو نفسیاتی بحران کا شکار بنادیتی ہے۔

واقعات میں علت و معلول کو سمجھنا ضروری ہے، صرف جذباتیت کی بنیاد پر سرسری رائے قائم کرنے سے ہم کسی بھی غلطی کو دور کرنے کے بجائے مزید نقصانات سے دوچار ہونگے۔ ماضی میں غلطیوں کے باعث تحریک کو شدید نقصانات اٹھانا پڑا جہاں اعلیٰ قیادت سے لے کر عام سپاہی با آسانی ریاست کے نرغے میں آگئے۔

افغانستان میں استاد اسلم کی ساتھیوں سمیت شہادت اعلیٰ قیادت کے حفاظت بابت تحریک کے جہدکاروں کے لیے ایک بہت واضح سوالیہ نشان ہے۔ اتنی آسانی سے ریاست اتنے اہم سرکردہ رہنمائوں کو نشانہ بنا گیا حالانکہ جنرل رازق کی شہادت نے بہت واضح اشارہ دے دیا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی خاطر خواہ اقدام اٹھانے کی بجائے ریاست کو موقع دیا گیا کہ وہ استاد اسلم جیسے سرکردہ رہنما کو نشانہ بنائیں۔ گوریلا حکمت عملی کے تحت یوں اوپن جگہوں پر بغیر حصار کے بیٹھنا ہی غلط ہے۔ اول صورت میں بالکل بیٹھنا ہی نہیں چاہیئے اگر بیٹھنا ہو بھی تو اس بابت حفاظتی انتظامات اس طرح ہوں کہ حملے کی صورت میں سرکردہ کو بحفاظت نکالا جاسکے لیکن افغانستان حملہ غفلت کا واضح نتیجہ ہے۔

اب دوسری جانب بی ایل ایف کا اقرار کہ گشت کے دوران جھڑپ میں سرمچار شہید ہوتے ہیں جو کہ گوریلا جنگی اصولوں کی عین خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی جنگی ٹینک یا جہاز یا ہیلی کاپٹر آجائے تو کیا بی ایل ایف کے پاس اس سطح کے ٹیکنیکل ہتھیار یا ٹریننگ موجود ہے جہاں وہ دشمن کو پسپا کرسکے اگر نہیں تو محض دکھاوے کی حد تک یہ گشت کی بھڑک بازیاں خود کشی ہے۔ گوریلا جنگ میں اس طرح کے ہیروازم کی کوئی گنجائش نہیں اور اس طرح کے غیرذمہ دارانہ ہیروازم نے ہمیں گہرے زخم دیئے ہیں۔

آج تمام جہدکاروں کے لیئے یہ سوال اہم ہے کہ وہ اپنے وجود کو کس طرح دشمن سے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ جدوجہد کو جہدکار ہی زندہ رکھتے ہیں اور طویل مدتی جدوجہد میں جہدکاروں کو غلطیوں کے لیئے کوئی جگہ نہیں رکھنی چاہیئے۔ اب ضرورت ہے کہ پالیسیوں پر ازسر نو غور کرتے ہوئے اپنی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے اور کسی بھی ایسے عمل سے گریز کیا جائے جو نقصان کا سبب بن سکے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔