ڈیرہ غازی خان میں بھی بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے – ماما قدیر

210

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف قائم احتجاجی کیمپ کو 3597 دن مکمل ہوگئے۔ کراچی سے سیاسی و سماجی کارکنان کے وفد سمیت، انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک بار پھر ہمارے بہنوں، ماوں اور بیٹیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں موجود مردوں کو کہے کہ وہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ملکر ان کی آواز بن کر اپنا فرض ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ مشکلات اور مصائب ہر کام کا حصہ ہے لیکن ان سے بھاگنے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ ہمیں ان کا سامنا کرکے حقیقی طور پر ان سے نبردآزما ہونا چاہیئے۔

ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ زرینہ مری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ زرینہ مری پاکستانی اہلکاروں کے اذیتوں کو سامنا کررہی ہے۔ بلوچ خواتین کی حوصلہ افزا کردار ہمارے جدوجہد کو جلا بخشتی ہے لہٰذا ہم باقی تمام خواتین اور مردوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے جبری گمشدگیوں کو وسعت دیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے وزیر شیرین مزاری کے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان میں بھی بلوچوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، گورچانی قبیلے کو دھمکایا جارہا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے نقل مکانی کرے جبکہ روجھان مزاری سے سو سے زائد افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے۔