عظیم سوچ و کردار کے مالک شہید دل جان ۔ بدل بلوچ

821

عظیم سوچ و کردار کے مالک شہید دل جان

تحریر۔ بدل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

کئی بار میں کوشش کرتا آیا کہ اپنے عظیم سنگت، ہم کُپہ، غمخوار شہید دل جان کے صلاحیتوں اور فکر و سوچ پر کچھ نا کچھ تحریر کروں، مگر جب بھی قلم اٹھا کر تحریر لکھنے کا آغاز کرتا، تو قلم ہی رک جاتا تھا کہ کہاں سے شروع کروں ایسے الفاظ کہاں سے لے آؤں، جو حقیقی معنوں میں میرے سنگت کے کردار و صلاحیت اور قوم کیلئے ثابت قدمی کو بیان کر سکیں۔ مگر وہ لفظ ہی مجھے نہیں مل رہے تھے، میں لکھ ہی نا پاتا تھا، بہت کوششوں کے بعد آج ہی قلم لکھنے کو ساتھ دے رہا ہے، مگر آج بھی وہ لفظ تلاش نہ کر پایا، جو میں دل جان و بارک جان کیلئے ڈھونڈ رہا تھا۔ سنگت دل جان! شاید میرے لفظوں میں وہ کمی ضرور آئیگی، جو میں آپ کی اور آپ کے ہم کُپہ، ہم فکر، سوچ و صلاحیت کے مالک سنگت بارگ جان کے حق میں لکھ رہا ہوں تو سنگت معاف کرنا۔

سنگت دل، میں کیا کہوں اپنے آپ کو جو تیری ملاقات ہی نصیب نہ ہوا، ایک ہی شہر میں رہ کر پھر بھی آپ سے ملاقات ہی نہیں ہوا۔ سنگت یا عمر کے لحاظ سے آپ سے بہت چھوٹا تھا آپ تک نہیں پہنچ سکا، کونسا بد نصیب کہوں اپنے آپ کو جو تیرے ساتھ ایک سفر ہی نہ کر پایا، بس بچپن میں آپ کے نام سنا تھا کہ ضیاء جان باغی ہے، اپنے کزن حئی کے ساتھ؛ سنگت اسی دن سے ہی آپ سے ملنا چاہتا تھا، آپ سے کچھ سیکھنا چاہتا تھا کیونکہ سنگت حئی نے ہمیں محنت، پیار، محبت سے بہت کچھ سکھایا تھا۔ میں جانتا بھی تھا کہ آپ بھی ایسے سوچ کے مالک ہو، آپ کے پاس بھی ہم کو حقیقت کی رہا پر گامزن کرنے کیلئے ہزاروں الفاظ ہونگے، پر کیا کرتا سنگت قسمت کا لکھا ہوا کچھ اور تھا، جو سنگت حئی ہم سے کم وقت ہی میں جدا ہوئے ورنہ ہر شام تیرے مجلس میں مگن ہوتے۔

سنگت وقت ہی یوں گذرتا گیا، وقت کے ساتھ ساتھ صحیح اور غلط کی نشاندہی کی پہچان ہونے لگا، دن بہ دن بہتر حکمت عملی سکھتا آیا، تب معلوم ہوا کے دشمن ہمیں خوف میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں ڈرانے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ دشمن یہ دن2006 سے لیکر 2009 تک کے دن بہت قریب سے دیکھتا رہا کہ بلوچ قوم اپنے غلامی کے خلاف بچے، نواجوان، بزرگوں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہیں، تو دشمن نے پھر یہ سوچا کہ اگر ہم بلوچ قوم کے ان بچوں کے دل میں موت اور گولی چلنے کی یا کسی کو لاپتہ کرنے کی خوف نہیں پھیلا ئینگے تو کل کے دن بلوچ قوم ہزاروں کے بجائے، پوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوگی۔ پھر دشمن نے کسی پر سرے عام گولی چلا دی، تو کسی کو سرے عام اٹھا کر گاڑی میں ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈالتے ہوئے لاپتہ کردیا، قوم میں خوف پہلا دیا۔ بچے و جوان وقت سے مجبور ہوکر چپ ہوئے، کئی جوان مسلسل چلتے رہے، تو کئی جوان چلتی راہوں میں تھک گئے، بچوں کے دل میں خوف و ہراس پھیل گیا، پھر جو کچھ تھا دل میں تھا۔.

واقعی آج تیرا پیار بخوبی یہ ظاہر کررہا ہے کہ تم میں کتنی صلاحیت تھی! تم بہتر جانتے تھے کہ اس جنگ کو لڑنے کیلئے ہم سب کو ایک ہوکر لڑنا ہوگا، اب اختلافات کا وقت نہیں، ہمیں اپنے جنگ کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ آگے لے جانا ہوگا، سب آزادی پسند سنگتوں کو ایک ہو کر لڑنا ہوگا، دشمن پر کاری ضرب لگانا ہوگا، مسلسل ان کوششوں سے آخر وہ دن بھی آیا کہ جب سب ایک ہوکر دشمن کے مورچوں میں گھس کر دشمن کو نیست نابود کرنے لگے۔

دل جان نے آخر یہ بھی ثابت کردیا کہ ہم سب ایک ہیں، ہمارے دشمن اپنے دل سے یہ غلط فہمی نکال لیں کہ ہمیں آپس میں اختلافات میں ڈال کر کمزور کرنے کی کوشش کریگا، ہمارا جنگ تو اب نئی شکل اختیار کرگئی ہے، دل جان اور اس کے ہم فکر، ہم سوچ، ہم کُپہ، عظیم رہنماؤں کی مسلسل کوششوں سے ہزاروں نوجوان خواب غفلت سے جاگ اٹھے۔

ایسے عظیم رہنما قوم کیلئے ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں، قوم کی آنے والے دنوں کو بہتر بنانے کیلئے نئی حکمت عملی سوچتے ہیں۔ دل جان کی کوشش یہی تھی کہ ہم اپنے رابطے عوام کے ساتھ بحال کرنے کی کوشش کریں، آزادی جیسے نعمت کو حاصل کرنے کیلئے عوام کا ساتھ ہونا لازمی ہے، جس سے ہم اور آگے کی طرف بڑھ سکتے ہیں، دل جان انہی کوششوں میں دن رات مصروف رہا، دل جان اور بارگ جان نے بڑے امید کے ساتھ زہری میں قدم رکھ کر اپنے مقصد میں مصروف عمل تھے، مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ ہمیں اپنے ہی آستین کے سانپ ڈستے ہیں، اُف وہ درد، دکھ۔۔ وہ کیا لمحہ ہوگا جب دل جان بڑے ارمان دل میں لیئے بارگ جان کہہ کر پکارے گا، سنگت ہم پر اٹیک ہورہا ہے۔ جب انہوں نے کہا ہوگا کہ اب ہم آگے جا نہیں سکتے، ہماری گولیاں بھی ختم ہوگئی ہیں، بس ایک ایک گولی بچ گئ ہے، جو ہمارے جیب میں محفوظ ہے، دل جان و بارگ جان ہاتھ تھام کر آخری گولی اپنے ہی حلق میں اتار دیا ہوگا، ہزاروں رازوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے وطن کے آغوش میں امر ہوگئے۔

پہلے بارگ جان کی ثابت قدمی اور اب دل جان اسد یوسف جان کی ایک ساتھ تصویر نکالنا نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے، دونوں سنگتوں کا تعلق الگ الگ تنظیم سے تھا۔ دل جان، بی ایل اے سے اور اسد یوسف جان، بی آر اے سے مگر آپ ان کی سوچ و فکر، فلسفہ، ایمانداری، سچائی پر نظر پھیریں تو ایک ہی تھے۔ جس مقصد میں دل جان اور بارگ جان دن رات خواری، بھوک، پیاس، سردی، گرمی برداشت کررہے تھے۔

ایسے انسان حقیقی رہنما ہوتے ہیں، جو خود سے اور خود کی ذات سے بڑھ کر اس ماں دھرتی کا سوچتے ہیں، اس ماں دھرتی کے مسکین بچوں کا سوچتے ہیں۔ اس ماں بہنوں کے چادر کا سوچتے ہیں، جو بھائی کی راہ دیکھتے تھکتے نہیں، دل جان اسد یوسف جان بارگ جان واقعی آپ عظیم تھے اور عظیم ہیں اور آپ کی قربانی کو قوم کے نوجوان ہمیشہ سنہری لفظوں میں یاد کیا کرے گی، آج وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہیں اور کامیاب تھے، کامیاب رہینگے۔ ہر آنے والے دور میں، ہر گھر سے کئی بارگ جان اور کئی دل جان جنم لے کر دشمن پر قہر بن کر ٹوٹینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔