جامعہ بلوچستان میں طلبہ کو سیکیورٹی کے نام پر ذلیل کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں – پی وائی اے

163

پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے صوبائی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی جوکہ تعلیمی درسگاہ سے زیادہ سیکیورٹی قلعہ کا منظر پیش کررہا ہے۔ یہ تمام تر حفاظتی تدابیر دہشتگردی کے واقعات روکنے کی غرض سے کررہے ہیں۔ ان سیکیورٹی عوامل میں ہرطرف سیکیورٹی گارڈز جن میں (ایف سی، پولیس، پرائیویٹ گارڈز)، واک تھرو گیٹس پچھلے کئی سالوں سے عمل پیرا ہیں۔ اس کے علاوہ جامعہ کے تمام تر دیواروں پر خاردار تاروں کی بھرمار ہے، جوکہ تعلیمی ادارے سے زیادہ کسی سیکیورٹی حصار یا جیل کی تصویر پیش کررہی ہے جبکہ اس طرح کے تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود 13 اپریل 2017 میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کو انتہائی بیدردی سے شہید کیا گیا جوکہ ان تمام تر حفاظتی عوامل کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں ان تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود طلبہ کو واک تھرو گیٹس سے گزارنا پھر اُن تمام طلبہ کی جامع تلاشی لینا طلبہ کو ذہنی کوفت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔

دوسری طرف طلبہ کو اس ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا دراصل طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق سے دور رکھنا ہوتا ہے۔ جامعہ بلوچستان صوبے کی واحد یونیورسٹی ہے جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں طلبہ صوبے بھر سے تعلیم کے زیور سے مستفید ہورہے ہیں مگر جامعہ ہذا ہرطرف سے مسائل اور ایشوز کا شکار ہے، جس میں طلبہ، اساتذہ اور دیگر ملازمین کے مسائل (فیسوں میں بے تحاشا اضافہ، ہاسٹلز کی کمی، ٹرانسپورٹیشن کی کمی، لیکچررز اور پروفیسرز کی کمی، انتظامیہ کی غنڈہ گردی، یونیورسٹی میں کرپشن اقرباء پروری، کیفے ٹیریاز کا بند ہونا اس کے علاوہ سیکیورٹی اہلکاروں کا جامعہ میں بلا ضرورت آزادانہ گھومنا پھرنا) وغیرہ قابل ذکر مسائل ہیں۔ مگر ان تمام تر مسائل پر جب کسی بھی شکل میں احتجاج کرنے کی نوبت آتی ہے تو جامعہ ہذا کے حکام بالا اور دیگر مقتدر قوتیں ایکشن میں آکر مزید یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ کے جمہوری حقوق پر قدغن لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ جس کی حالیہ مثال یونیورسٹی میں مختلف طلبہ تنظیموں کے تنظیمی سرکلز کو سبوتاژ کرنا شامل ہے، اس کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ نے جامعہ کے اندر طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق سے دور رکھنے کے لیے نام نہاد سوسائٹیز اور یوبینز کے نام سے تنظیم بنایا ہے جس کا مطلب طلبہ کو مختلف مراعات کے ذریعے طلبہ سیاست سے دور رکھنا ہوتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پروگریسیو یوتھ الائنس جامعہ بلوچستان میں طلبہ کیساتھ روا رکھے گئے تمام تر ناروا ہتکھنڈوں کی بھرپور الفاظ میں نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف تنظیم کا ملک بھر کے اندر لانچ کیئے گئے کیمپئن “طلبہ یونینز کی بحالی” کے لیے جدوجہد کو مزید تیز کرنے کا عہد کرتا ہے اور بلوچستان بھر کے طلبہ سے اپیل کرتا ہے کہ وہ “طلبہ یونینز کی بحالی” میں پروگریسیو یوتھ الائنس کا ساتھ دیں کیونکہ طلبہ یونینز کی بحالی سے نہ صرف سیکیورٹی کا مسلہ حل ہوسکتا ہے بلکہ تمام تعلیمی اداروں کے فیصلہ جات میں طلبہ بلا واسطہ شریک ہونگے جس کے ذریعے وہ تمام تر امور کو مشترکہ مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلے لینگے۔ پروگریسیو یوتھ الائنس اس سلسلے میں صوبے بھر کے طلبہ سے مختلف سرگرمیوں کے ذریعے روابط بنانے کی کوشش کریگا تاکہ جامعہ بلوچستان کو جدید تعلیم کا امین بنانے کیساتھ ساتھ امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔