بلوچستان: پشین ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کے ملازمین ریٹائر مگر عمارت کا وجود نہیں

187
 بلوچستان کے ضلع پشین میں بےروزگار نوجوانوں کو فنی صلاحیت فراہم کرکے انھیں بر سر روزگار ہونے کے لیے  1992 میں ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کے ایک منصوبے پر کام شروع کیا گیا تھا۔

منصوبے کے لیے حکومت وقت  نے سنجیدگی دکھاتے ہوئے ورلڈ بینک سے مدد طلب کی، جس کے تحت اس وقت بلوچستان حکومت کے صوبائی وزیر ریونیو مرحوم ملک سرورخان کاکڑ نے سینٹر کی تعمیر کے لیے ورلڈ بینک سے معاہدہ کر لیا۔

 ورلڈ بینک کے تعاون سے 1992 میں ضلع پشین کے سرانان روڈ پر ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کے لیے تین سے چار ایکڑ زمین خریدی کر اس پر  چار دیواری تعمیر کر دی گئی۔

1992 میں ہی حکومت بلوچستان کے صوبائی محکمہ برائے محنت و افرادی قوت نے  سینٹر میں تعمیراتی کام شروع ہونے سے قبل ہی عملہ تعیناتی کے احکامات جاری کر دیے۔ان احکامات کے تحت ابتدائی طور پر سینٹر کےلیے 16 افراد پر مشتمل عملے کو تعنیات کیا گیا۔

روز و شب گزرتے گئے مگر چار دیواری کے اندر عمارت تعمیر نہ ہو سکی تاہم اس دوران افسران اور دیگر عملہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے رہا۔

محکمہ افرادی قوت کی جانب سے اس غیر فعال ٹریننگ سینٹر کے لیے گریڈ 18 کا ایک پرنسپل، گریڈ 17 کے 3 چیف انسٹرکٹر، گریڈ 16کے 4 سینئر انسٹرکٹر اور 14گریڈ کے 7 انسٹرکٹر اور ایک چوکیدار تعینات کیے گئے تھے۔

تعینات شدہ عملہ نہ صرف سال ہا سال تنخواہیں اور دیگر الاؤنسز لیتا رہا بلکہ فرنیچر اور اسٹیشنری کی مد میں عملے کو تقریباً 90 لاکھ روپے وقتاً فوقتاً مہیا ہوتے رہے۔

مہینے برسوں میں تبدیل ہوئے اور اور برس دہائی میں، پھر  نئی صدی شروع ہو گئی مگر سینٹر میں تعمیرات شروع نہ ہو سکیں۔ اس دوران متعین افسران ریٹائرڈ ہوتے رہے حتی کہ اب سینٹر کا چوکیدار بھی ریٹائرڈ ہو چکا ہے۔

چوکیدار نے چوکی داری کے فرائض ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رکھنے کا ازخود فیصلہ لیتے ہوئے سینٹر کے احاطے میں ایک کچا گھر تعمیر کرا کر وہاں مستقل رہائش اختیار کرلی۔

افسوس در افسوس کہ ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر پر تعینات اور ریٹائرڈ ملازمین کی جانب سے تنخواہوں کی مد میں کروڑوں روپے وصول کرنے کے بعد اب عملہ پینشن بھی وصول کر رہا ہے۔

 کسی سابقہ اور حالیہ اعلیٰ حکومتی عہدے دار  یا ادارے کی جانب سے  آج تک کسی ذمے دار کی باز پرس تک نہیں ہوئی کیونکہ ٹیکنیکل سینٹر کے قیام کا منصوبہ ضلع پشین میں غربت اور بے روزگاری پر کسی حد تک قابو پانے میں مدد گار ثابت ہوسکتا تھا۔

 گزشتہ تین ماہ کے دوران ڈائریکٹر محنت و افرادی قوت بلوچستان کی جانب سے متعلقہ محکمے کے سیکرٹری کو متعدد بار لیٹرز بھجوایے گئے۔ جن میں غیر فعال اور عدم تعمیر کے شکار ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کے دوبارہ معائنہ اور پی ایس ڈی پی 2018-2019 میں شامل کرنے کے لیے تجویز پیش کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

جب کہ ایک اور لیٹر میں سینٹر کو حکومت بلوچستان کے پی ایس ڈی پی 2019-2020 کے پی سی ون میں شامل کرنے بھی استدعا کی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس معاملے میں کہاں تک سنجیدہ ہے۔

 ڈپٹی کمشنر پشین میجر (ر) اورنگزیب بادینی نے اس حوالے سے جیو نیوز کو بتایا کہ سینٹر کی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ محنت و افرادی قوت کے سیکرٹری سمیت دیگر متعلقہ حکام کو لیٹر لکھ دیا گیا ہے کہ ایک تو وہ محکمہ جاتی سطح پر نوٹس لے اور متعلقہ ذمے داروں کا تعین کر کے محکمانہ تحقیقات اور محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے۔

اورنگزیب بادینی کے مطابق چیف سیکرٹری سمیت محکمہ فنانس اور محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو ایک لیٹر تحریر کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور فنکشنل کرنے کےلیے رقم مختص کی جائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اب پہلے مرحلے میں تین کروڑ روپے سے ٹینیکل سینٹر تعمیر کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت رواں سال کے پی ایس ڈی پی منصوبے میں شامل کرنے کا ارادہ ہے۔