انڈیا کا پاکستان کو پانی نہیں دینے کا فیصلہ

661

انڈیا نے کہا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو ملنے والے تین دریاؤں میں سے انڈیا کے حصے کا پانی پاکستان میں بہنے نہیں دے گا اور اس پانی کو کشمیر اور پنجاب کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

انڈیا کی وفاقی کابینہ کے ایک رکن نتن گڈکری کے دفتر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ ایک ہنگامی فیصلہ ہے اور اس کا سندھ طاس معاہدے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

انڈیا میں میڈیا کے کچھ ذرائع کے مطابق انڈیا نے پلوامہ کے حملے کے بعد پاکستان کو جانے والے تین دریاؤں کا پانی روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن گڈکری کے دفتر نے یہ واضح کیا ہے کہ اس فیصلہ کا پلوامہ کے حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔

گڈکری کے دفتر نے کہا ’راوی، ستلج اور بیاس کا پانی ڈیم بنا کر روکا جائے گا۔ شاہ پور کنڈی ڈیم بنانے کا کام پلوامہ کے حملے سے پہلے ہی جاری ہے۔ اب کابینہ مزید دو ڈیم بنانے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔‘

اس سے پہلے جمعرات کو ایک محفل میں نتن گڈکری نے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے بعد تین دریا پاکستان کو ملے تھے اور تین انڈیا کو، ہمارے تین دریاؤں کا پانی پاکستان کو جا رہا تھا اب ہم اس پر تین منصوبے شروع کر کے یہ پانی واپس جمنا میں لا رہے ہیں۔‘

سندھ طاس معاہدہے کے تحت انڈیا اپنے دریاؤں کا پانی پاکستان کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔

پاکستان انڈیا کے پانی سے پیدا کرنے والے بجلی کے بڑے منصوبوں پر اعتراض کرتا رہا ہے۔

وہیں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پانی کے ذرائع سے ریاست کو فائدہ نہ ملنے کی بات کی جاتی رہی ہے۔

جب بی جے پی کی حمایت سے محبوبہ مفتی جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ تھیں تو انہوں نے کہا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ سے ریاست کو بیس ہزار کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے اور وفاقی حکومت اس کو پورا کرنے کے لیے قدم اٹھائے۔

پاکستان کے صوبوں پنجاب اور سندھ کو زراعت کے لیے دریاؤں سے پانی ملتا ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر علاقوں کے لیے آبپاشی کا یہی ذریعہ ہے۔