افسانہ ۔ جورک ۔ کوہ دل بلوچ

281

جورک

افسانہ

کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بچپن کا سفر کیسے گذرا اس میں کٹھن راہوں کا لمبی داستان پوشیدہ ہے کیونکہ غلام سماج میں پیچیدگیاں اس قدر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں کہ پھر ہجرت کا نام ہی نہیں لیتے اور انہی مشکلوں اور سفاکیوں میں ہمارا بچپن گذرا جس کی عنوان سے موٹی موٹی کتابیں تو بھر سکتی ہیں لیکن ہمارے ماضی کا تذکرہ ختم نہیں ہو سکتا، جب بچپن ہی کٹھن راہوں سے گذرکر جوانی تک منزل طے کرچکا ہو تو جوانی اُس کا ہاتھ تھام کر کس رفتار سے آگے محوسفر ہوگا؟

افلاطون کے وہ سارے فلسفے ایک غلام سماج میں دم توڑ دیتے ہیں جس میں اُس نے نئے مخصوص نسل کو الگ رکھ کر تدریسی ماحول میں ڈھال کر ریاست کے کارخیر کیلئے تیار کرنا تھا کیونکہ فلسفوں کو حقیقت میں ڈھالنے کیلئے ارسطو اور پروٹا غورث جیسے روشن خیال اور ذہنی زنجیروں سے مکمل آزاد لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہاں لفظ آزادی ایک سنگین جُرم مانا گیا ہے، ارسطو جیسے دانست تو دور یہاں عام انسان روز ولادت سے ہی غلامی کے زنجیروں میں قید ہے، فلسفہ اپنی جگہ یہاں حقیقت کو ننگا نچایا جاتا ہے.

جورک تم پاگل ہو افلاطون اور ارسطو کا نظریہ ایک ایسے معاشرے میں پیش کر رہے ہو جہاں فیوڈل نظریہ ایک عقیدہ بن چکی ہے، غلامی کو بخوشی تسلیم کیا گیا ہے جبکہ یہاں چی گویرا جیسے انقلابیوں کا ذکر ایسا ہے جیسے تذکرہ کرنے والے سے اتنی بڑی جرم ارتکاب ہوئی ہے کہ اب اُس کے پورے خاندان کو اس کا سزا بھگتنا پڑےگا.

یہاں امام حسین کا ضمیر صرف کتابوں اور لفظوں تک محدود دکھائی دیتا ہے.

جورک تم نے کانٹوں کے راہ پر پھولوں کی مہک کو بانٹنے کا سوچا ہے، خدا معلوم آپ اپنی مقصد کو کہاں اور کس مقام پر مکمل ہوتے دیکھ پاؤگے؟

ایک سیاسی دور کا عروج تھا، ہر نوجوان کے ہاتھ میں رات گھر آتے وقت اخباروں کا گٹھا ہوا کرتا تھا، گھر گھر میں لائبریری نُما کتابوں کیلئے کواڑوں سے بنا ہوا دیواروں میں متصل الماری ہوا کرتا تھا، ہر فکر و نظریے اور مذاہب کی کتابیں مطالعہ کیلئے کسی بھی وقت موجود تھے، کھیل اور مشغلوں سے فرصت نہیں ملتا کہ منشیات جیسی لعنت کی طرف دھیان چلا جاتا، علم و فن اور ترقی کی جانب روانگی کا ایک خوبصورت دور تھا.

جورک کا گھر دوسرے لوگوں کے گھروں سے کچھ مختلف نظر آتا تھا لیکن اُس کا وہ کمرہ ضرور کتابوں کی پناہ گاہ تھا جس کمرے کو اُس کے نام کردیا گیا تھا.

“کتابوں کی پناہ گاہ” مجھے اس لئے لکھنا پڑا کیونکہ جورک کے بابا کو نصابی کتابوں کے علاوہ باقی کتابوں سے انتہائی گھن آتا وہ ایک ایسا سوچ تسلیم کرچکا تھا، جس سے بالکل نا ہٹنے کا عزم کرچکا تھا، اس لئے جورک کو اپنے من پسند کتابیں چھپاکر رکھنا پڑتا اور چھپ کر مطالعہ کیا کرتا تھا.

جورک ایک دن لائبریری سے نیلسن منڈیلا کا کتاب”آزادی کی شاہراہ پر آپ بیتی” بغل میں دبائے گھر پہنچ گیا اُسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ بابا آج گھر معمول کے وقت سے پہلے آچکا ہے، جورک لائبریری سے آتے وقت ہر جگہ ہر محفل و دیوان خانوں کے قریب سے گذر کر ایک بحث مباحثہ اور تنقید و اصلاح کا ماحول دیکھ کر گھر آیا تھا، جیسے وہ اینتھینا کے گلیوں سے سُقراط اور اُس کے شاگردوں کو سُنتے دیکھتے اور ریاستی خفیہ عہدے داران کو دوسروں پر نظر گاڑھے اور تاکتے ہوئے دیکھ آیا ہے،

جیسے لینن کے صحبت میں وقت گذار کر آیا ہے لیکن گھر پہنچتے ہی اُس کا ساتھی انقلاب جیسے اُس کا ہاتھ چھوڑ کر خوفزدہ محبوبہ کی طرح پرے ہٹ کر اُس کو بابا کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا.

جیسے اُس محبوبہ کے ہاتھ کا دیا ہوا تحفہ(کتاب) اس کے پاس رہ گیا اور یہی تحفہ اپنا گھر اپنے قانون کے گھیرے میں سوالات کیلئے راہ ہموار کرلیا اور جورک کے بابا نے تلخ لہجے میں آواز دی کہ کہاں سے آرہے ہو اور یہ بغل میں کونسی کتاب گھر لا رہے ہو؟

جورک کتاب بغل میں سر خم ایک مجرم کی طرح بابا کے آگے کھڑا بالکل گُنگا بہرا بن گیا اور بابا نے آگے بڑھ کر اُس سے کتاب چھین لیا اور کتاب کو دیکھ کر کہنے لگا مجھے تم پر ایک عرصے سے شبہ تھا کہ تم بھی اس شہر کے اُن لوگوں کے صحبت میں گھرے ہو، جن لوگوں میں سے کئیوں کو گھر سے بےدخل کردیا گیا ہے اور کئیوں کے ماں باپ نے اُنہیں لاڈ پیار دےکر گمراہ راہ چُننے کی آزادی دی ہے لیکن میں ایسا نہیں ہوں اور نہ ایسا ہونے دوں گا. آپ جانتے ہو میں نوکری کرکے آتا ہوں، چار پیسے گھر آتے ہیں، آپ لوگوں کے پڑھائی اور گھر کے خرچے بمشکل پورا کرلیتا ہوں تاکہ آپ لوگ پڑھ لکھ کر میرا سہارا بنو لیکن تم نہیں سدھروگے تم نے گورنمنٹ کے رائج نظام کو چیلنج کرنے کا سوچا ہے اور تم کو کبھی بھی یہ احساس تک نہیں ہوا کہ بابا کے نوکری کا کیا ہوگا اگر میں ایسے راہ پر اُتر جاؤں گا.

مزار میرا فرمانبردار بچہ ہے، میں نے اُسے کبھی بھی ایسے ماحول میں نہیں دیکھا اپنے پڑھائی میں مصروف رہتا ہے اپنے نصاب سے ہٹ کر دوسرے گمراہ کُن متن پر کبھی بھی اُس کا دھیان تک نہیں جاتا تم کو اسکول میں بھی ہمیشہ نصاب سے ہٹ کر الگ قسم کے کتابوں کو مطالعہ کرتے دیکھتا ہوں، آپ نے کیا سمجھا ہے بابا سے جو کچھ مخفی ہو رہا ہے اُس کو اس بارے علم نہیں، میں آپ کی حرکات سے خوب واقف تھا بس اسی موقع کا انتظار تھا.

تمہارے ان حرکتوں کی وجہ سے مجھے لوگ ماسٹر صاحب نہیں آپ کے بدکردار نام سے پکاریں گے اور کہیں گے وہ دیکھو مُلک دشمن جورک کا باپ جارہا ہے.

کل تمہارے ماں نے آپ کے کمرے کو صفائی کرتے وقت کچھ کتابیں نکال کر میرے سامنے رکھ کر کہہ دیا کہ آپ کے بیٹے کا کردار ان کتابوں کے ناموں سے جانا جائے گا، آپ اس کو ڈاکٹری کیلئے پڑھا رہے ہو جبکہ اس کے کمرے کی خفیہ جگہیں سیاسیات اور تاریخی کتابوں سے بھری پڑی ہیں.

میں جانتا ہوں تم ایک دن میرا نام اس محلے میں بدنام کردوگے، آج آپ کے ماں مجھے طعنہ دےکر یہ باتیں سنا رہی ہے کل پورے محلے میں ایسے ہی کتابوں کا نام لےکر باتیں میرے منہ پر لگیں گی کہ ماسٹر کا بیٹا یہ پڑھ کر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا.

جورک خاموش کھڑا سب سُن رہا تھا، اُس کی حالتِ بےبسی پر اُس کے محبوبہ انقلاب کو ترس آگیا اور اُس کے بابا کے باتوں کو برداشت نہ کرسکا پھر اُس کے قریب آکر اُس کا ہاتھ تھام لیا، جیسے جورک کے روح کو حوصلوں کا ایک جھونکا چھو کر گذر گیا اور جورک کا سر ایک فلسفی کی طرح اُٹھا اور ماتھے پہ باریک سی بل ڈال کر کچھ سوچنے کے بعد جورک نے بابا سے کتاب مانگا اور ساتھ کہنے لگا بابا یہ وقت ہی بتا دےگا کہ کون غلط ہے کون صحیح، یہی بات جورک کے زبان سے پھسلتے ہی اُس کا بابا طیش میں آگیا اور جورک کو کہنے لگا تو تم مجھے اب وقت و حالت کا ادراک بتاؤگے؟

نہیں بابا میں نے تو بس ایک حقیقت کا اندیشہ کرکے آپ کو بتا دیا، آپ کی ہر بات کو تسلیم کروں گا جب میرا شعور، عقل و فہم اس نظام پر آمادہ ہوگا، میں مانتا ہوں اتنی مدت سے آپ سے چھپ کر میں نے مختلف دانش و حکمتوں کے پیروکاروں کو پڑھا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا آج سے چھپ کر نہیں کھل کر پڑھوں گا، آپ ہی نے تو کل اسلامیات کے مضمون سے ایک سبق پڑھا کر کہا تھا کہ انسان صرف خدا اور رسول کا غلام ہے، باقی کسی کا غلام نہیں اور نہ اُسے غلام رکھا جاسکتا ہے نہ کسی محدود حد میں پابند کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ خدا کے نظر میں ایک سنگین جرم ہے خدا کے ہاں جواب دہ ہونا ہے، تو پھر میں کیوں خود کو ایک غلام کی طرح رکھوں؟ چھپ چھپ کر اپنی آزادی اپنے ہاتھوں سلب کر لوں جبکہ میں کوئی جُرم ہی نہیں کر رہا بس کتابوں کا ہی تو مطالعہ کرتا ہوں، جو مجھے زندگی، حیات اور موت کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت بخشتے ہیں اگر یہ ایک جُرم ہے تو آج سے میں یہ جُرم بار بار کروں گا.

جورک کے باتوں کو سُن کر بابا نے کہا دلیل تو آپ کا ٹھیک ہے، لیکن زبان لڑانے اور اس بدتمیزی کا میں نے آپ کو کبھی بھی سبق نہیں پڑھایا، بڑوں کے ساتھ ہم کلامی نہیں کیا جاتا، بدتمیز میں جانتا ہوں یہ ساری باتیں تم کو یہ کتابیں سکھاتے ہیں، جو آپ کے بغل میں دبے ہوتے ہیں جب تم گھر آرہے ہوتے ہو.

ٹھیک ہے آج سے آپ نے ایک بغاوت کا آغاز بدتمیزی سے کیا ہے، چلو میں بھی آپ کے اُس وقت کا انتظار کروں گا جس کا تم نے ذکر کیا ہے کہ وہ آکر مجھ سے مخاطب ہوگا اور کہے گا کون غلط ہے کون صحیح.

جورک کو اُس کا کتاب واپس مل گیا، کتاب لےکر کمرے میں چلا گیا اور ماں کو آواز دےکر اپنے اُن بارودی مواد(کتابوں) کے بارے میں پوچھنے لگا جو اُس کے کمرے کے خفیہ جگہوں سے برآمد ہوئے تھے.

ماں نے کتابیں اُس کے حوالے کرکے کہنے لگی آپ کا بابا آپ کو صحیح کہہ رہا ہے مزار کو دیکھو وہ کبھی بھی اپنے بابا سے زبان نہیں لڑاتا اور نہ ایسے حرکت کرتا ہے جس سے ہماری بدنامی ہو.

جورک خود کو لاجواب بناکر کتابیں لیکر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور روز کی طرح اب اُسے یہ بہانہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ دروازہ بند کرکے سو جاتا ہوں مجھے نماز کے وقت جگا دینا، اب اُس کو ایک چیلنج کے صدقے کتابوں سے دوستی کی مکمل آزادی مل گئی.

دیکھتے ہی دیکھتے جورک کا کمرہ ایک مطالعے کا مرکز بن گیا، تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں بھی کود پڑتا جو اُس کے بابا کے نظر میں بارودی مواد سے کم نہیں تھے، اور اپنے ہم فکر دوستوں میں ہر وقت گھل ملتا بحث و مباحثے حقیقت کی جانچ اور حق و انصاف کے پرچاری نظر آنے لگا، دن رات دانشمندی اور حقیقت کے متلاشی بن کر نظر آرہا تھا جیسے ملک و ملت اور پورے قوم کا بوجھ جورک نے اپنے کمزور کندھوں پر اُٹھا لیا ہے.

ایک لمبا عرصہ بیت گیا، جورک اور مزار تعلیمی سلسلے کیلئے اپنے بابا کے اسکول (جہاں وہ ایک اُستاد کے حیثیت سے اپنا نوکری سر انجام دے رہا تھا) سے فارغ ہونے کے بعد کالج اور یونیورسٹیوں میں دور بڑے شہروں سے تعلیمِ حق حاصل کرکے پھر گھر لوٹ آئے، مگر جورک کا ہاتھ آج بھی انقلاب کے ہاتھ میں ایسے بندھا ہوا تھا جیسے آخری دم تک ساتھ نبھانے کی قسم دونوں نے اُٹھائی ہو.

مزار کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کے کسی اچھے محکمے میں نوکری مل گئی جبکہ جورک نوکری کرنے سے صاف انکار کرکے اپنے چیلنج کے آڑے اپنا انقلابی عزم پُختہ رکھا اور ایک دن ایسا آگیا کہ جورک اپنے ہم فکروں کا بانی بن گیا اور مزار اپنے نوکری میں اچھے مقام پر پہنچ گیا۔ مالی حالات بھی کچھ بہتر ہوگئے، اب گھر میں کمانے والے بابا اور مزار ہی تھے، جورک اپنے گھر والوں کے نظر میں لکھا پڑا آوارہ نوجوان تصور کیا جاتا تھا. اور جب جورک اپنے سیاسی انجمنوں سے فارغ ہوکر گھر لوٹتا تو جورک کو اُس کے والدین دیکھتے ہی مزار کے نوکری اور اُس کے بارے میں جان بوجھ کر ذکر کیا کرتے تھے، جورک کو یہ تاثر دینے کیلئے کہ جو راستہ تم نے چُن لیا ہے وہ کبھی اچھا نہیں ہوسکتا لیکن نیلسن منڈیلا کو پڑھنے والے جورک پر یہ باتیں کیا اثر کرتے جبکہ اُس نے منڈیلا کو جزیرہ رابن میں کئی سال قید و بند میں محسوس کیا تھا۔ جلادوں کی روز روز ایسے طنزیا باتیں منڈیلا سے کرتے ہوئے محسوس کیا تھا، چی کو آخری دم تک جراّت مندانہ الفاظ کے ساتھ سینے میں پیوست گولی سہہ کر بہادری کا مظاہرہ کرتے اور اس کے آس پاس کھڑے سامراج پسندوں کے قہقہہ محسوس کر چکا تھا.

اب ایسی باتوں کے آگے ہمت ہارنے والا تصور ایسے سچے باغیوں کے ذہنوں میں کہاں ہوتا ہے، جو بغاوت کا آغاز اپنے خواہشات سے لڑنے کے بعد اپنے گھر سے کیا ہو.

اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ شہر میں انقلاب و آزادی کا نعرہ کھل کر اُٹھنے لگا، قومی آزادی کا مطالبہ ہونے لگا اور جورک بھی اس قومی آزادی کے حق میں نعرہ بُلند کرنے والوں میں سے ایک تھا. حکومتِ وقت نے انقلاب کو خطرہ سمجھ کر اپنا ردِ عمل شروع کردیا، انقلابیوں کو دیگر شہروں کے لائبریری، اسکول، کالج، یونیورسٹی، ہوٹلوں اور دیوان گاہوں سے اُٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا حتیٰ کے عام لوگوں اور مزدوروں کے سربراہان کو بھی زندان میں ڈالنے کا دور شروع ہوا، ہر روز کچھ لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ایک ہلچل سا رونما ہوا، خاموشی شور میں بدل گئی امن کا ماحول تشدد میں بدلنے لگا سرکار نے اپنے طاقت کا پورا زور لگانا شروع کردیا جبکہ انقلاب پڑھنے والوں کو جواز مل گیا اُن کی باتیں حقیقت میں بدلنے لگیں اور ایک کثیر تعداد ان انقلابیوں کے صف میں کھڑا ہوگیا اور ملک کے تمام طبقوں کو اس انقلاب کے لہر میں شامل کردیا گیا جن جن طبقوں کا معاشی استحصال کیا گیا تھا سب ایک ایک کرکے اس کاروان میں شامل ہونے لگیں چند فلسفہ پسندوں کا گروہ ایک تحریک میں بدل گیا.

جورک اب گھر دیر آجاتا اور جلدی چلا جاتا کبھی کبھی بابا اگر اُس کو دیکھ لیتا تو طنزاً کہتا انقلابی صاحب کیلئے روٹی لگاؤ مفت کا کھائے گا پیئےگا اور پھر جاکر اپنے انقلابیوں میں تبدیلی کا نعرہ لگائےگا.

جورک موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھ کر بابا کے باتوں کو نظرانداز کرکے اپنا معمول بنا چکا تھا کہ کس وقت آنا ہے کس وقت جانا ہے اور کیا کیا کرنا ہے.

لیکن جورک جانتا تھا کہ اس حکومت کو اگر ہم برداشت نہیں ہوئے تو حکومت کے حامیوں کو کب تک برداشت ہوں گے۔

ایک دن باہر سے آتے ہی جورک کے بابا نے کہا جورک کہاں ہے، بس بہت ہوگیا! اب مزید برداشت نہیں کر سکتا میں اور مزار نوکری کرکے اُس کو کب تک کھلائیں گے، آج اُس کو فیصلہ کرنا ہوگا اپنے لئے ذریعہ معاش کا انتظام کرلے، کل اُسے شادی بھی کرنی ہے کیا پھر ہم اُس کا خرچہ اُٹھائیں گے اُس کے بچوں کو بھی ہم پال لیں گے؟

جورک اپنے کمرے سے باہر نکل کر کہنے لگا بابا میں ادھر ہوں اور آپ بےفکر رہیں، آج کے بعد آپ کا کمایا ہوا ایک پیسہ بھی مجھ پر حرام ہے اور میں جانتا ہوں، برسوں سے مجھے پالنے والا آج کیوں یہ کہنے پر اُتر آیا ہے حقیقت کچھ اور ہے بابا روٹی تو ویسے بھی آج کل پورے وطن کا مسئلہ بن چکا ہے، اس میں کوئی شک نہیں آپ اور آپ کا بیٹا نوکریاں کرکے بھی ایک فرد کا بوجھ اُٹھا نہیں سکتے، تو سوچو اس شہر کے مزدوروں کا کیا حشر ہوگا، جس کے دن کا دیہاڑی اس کے بچوں کے خرچے سے کافی کم ہے، اور یہ ایک دن ہونا تھا کیونکہ سرکار کا خزانہ کسی مدت تک غلامی تسلیم کرنے والوں پر خرچ ہوتا ہے ہر وقت نہیں، اور ہاں بابا آپ نے شادی کی ذکر کیا ہے، واقعی میں اس رسمی اور روایتی دنیا میں شادی کے بالکل قابل نہیں کیونکہ شادی کا بوجھ یہاں مجھ جیسے دھن دولت کے لالچ سے آزاد لوگوں سے اُٹھایا نہیں جاتا.

بابا نے کڑواہٹ زبان پر بھر کر کہنے لگا آپ کی منگنی ہوچکی ہے، شاید آپ بھول چکے ہو، اگلے سال آپ کو شادی کرنی ہے اور مجھ پر آپ کا حق ہے کہ آپ کا شادی کروا کر خود کو اس ذمے سے آزاد کردوں۔ آپ کے سسُرال والے اگلے سال تیاری کا پیغام بھیج چکے ہیں اور تم ہو کہ آوارگی سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کا ارادہ تک نہیں کرتے.

جورک کتابوں کا مُرید انقلاب اور حق و حقوق غلامی سے نجات پر اپنے دن رات صرف کرنے والا اب وہ جورک کہاں رہ چکا تھا، جسے برسوں پہلے بدتمیز انقلابی بابا نے قرار دیا تھا، کہنے لگا بابا وہ رشتہ بھی آپ نے مجھ سے پوچھے بغیر میرے مرضی کے خلاف طے کیا ہے، یہ بالکل غلط فیصلہ ہے اور ایک اولاد کے حق میں اتلافِ حق ہے کیونکہ آنے والا زندگی مجھے اُس کے ساتھ گذارنا ہے، مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ آپ کا میرے لئے انتخاب کس قدر مثبت ہوگا، کیونکہ میں جب پیدا ہوا میرا رشتہ آپ نے طے کرلیا تھا، مجھے تو یہ بھی تک معلوم نہیں کہ وہ لڑکی مجھے تسلیم کرتی ہے کہ نہیں، میں جورک ایسے رواجوں کو عبادت نہیں بنا سکتا، جس میں کسی کی آزادی سلب ہو مجھے میرے کتابوں نے انصاف کا تقاضا خوب سکھایا ہے۔ میں کسی کے حق تلفی کا حامی نہیں بھر سکتا، انسان اپنے منشا اور مرضی سے جی کر فطرت کا لطف اُٹھا سکتا ہے کسی کو آپ زبردستی فرسودہ رواجوں کے آنگن میں قید نہیں کرسکتے، بابا یہ قدرت کے ساتھ جنگ کا ارتکاب ہے.

“بغاوت ایک ایسے ہوا کا جھونکا ہے، جو فرسودہ نظام کے شجر کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکتا ہے اور اچھے اور خوبصورت پھولوں کی خوشبو کو مہکا کر دنیا کو خوبصورت بنا دیتا ہے بشرطیکہ بغاوت کا بانی منصفِ منصفاں ایک حق گو انسان ہو.”

جورک کے اس اندازِ کلامی سے بابا غصے میں آکر کہہ دیتا ہے کہ میرے گھر سے نکل جا اور واپس مجھے یہاں دکھائی دیا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا تم نے آج بدتمیزی کی حد پار کردی نکل جاؤ اس سے پہلے کہ میرے ہاتھ آپ پر اُٹھ جائیں.

ماں نے آواز دی جورک کوئی اپنے بابا سے اس طرح زبان لڑاتا ہے کیا؟ معافی مانگ اپنے بابا سے لیکن ہیرا کوئلوں میں رہ بھی لے اُسے ہیروں کی متلاشی وہاں نہیں چھوڑتا آخر اُسے ڈھونڈ نکال لیتا ہے.

جورک مسکراتے ہوئے کہنے لگا بابا یہی بات تھا جو آپ اتنے دنوں سے نہیں کہہ پا رہے تھے اور پیچھے مڑکر جورک اپنے دو جوڑے کپڑے اٹھاکر اور چار کتابوں کے ساتھ گھر سے نکل گیا، گھر سے کچھ فاصلہ ہی طے کرچکا تھا کہ اُسے پولیس نے اُس کے جُرمِ انقلاب میں گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا، ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے جیل میں پہنچتے ہی اُدھر ادھر دیکھا اور مسکرا کر کہنے لگا،

ایک جیل خانے سے نکال دیا گیا دوسرے میں ڈال دیا گیا، واہ انقلاب تیری عشق میں ہم بلوچستان کا منڈیلا بن گیا.

پُرامن انقلابیوں نے ریلیاں نکالے، احتجاج کیا، اپنے ساتھیوں کے بازیابی کا مطالبہ کیا اُن کے احتجاجی مظاہروں سے چند رہا ہوئے کچھ لوگ ضمانت پہ رہا ہوئے، کچھ بے گناہ ثابت ہوئے تو رہا کر دیئے گئے لیکن جورک بند تھا جورک پر موجودہ نظام کے خلاف ساتھیوں میں لیکچر دینے کا الزام تھا، اب جو کچھ بھی رہائی کا سامان تھا وہ اُس کے رفیق تھے، جو اُن کیلئے احتجاج اور رفیقوں کے بازیابی کے مطالبات میں مصروف تھے.

کچھ دن گذر چکے تھے، بابا اور مزار ایک ساتھ ضمانت کے دستاویزات لئے جیل پہنچ گئے لیکن جورک نے صاف انکار کیا اور کہا کہ آج کا مسیح پن کل میرے لئے طعنہ بن کر میرے منہ پر لگےگا اگر یہاں سے رہا ہو بھی جاؤں تو کہاں جاؤں گا گھر سے تو ویسے بھی جُرمِ انقلاب میں نکال دیا جا چکا ہوں.

عجیب دنیا ہے ایک طرف اسی جُرم کے پاداش میں نکال دیا جاتا ہے تو دوسری جانب اسی جرم میں اندر کر دیا جاتا ہے،

مزار آگے بڑھا، قفس کے دوسرے طرف جورک کو کہنے لگا بھائی یہاں سے نکلنے سے انکار نہیں کرو آپ کیلئے میں وکیل ڈھونڈ لوں گا آپ کا کیس میں اپنے ذمہ ختم کروا دوں گا.

جورک نے یہ سنتے ہی کہنے لگا بھائی آپ بھی اس سماج کے کیئے پر ایمان لا چکے ہو، حق کی بات کرنا کوئی جرم ہے کیا؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم صدیوں سے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اس خطے پر آباد ہیں؟ آج اگر کوئی دوسرا ہمارے گھر پر قابض ہوجائے سارا حق ہم سے چھین لیا جائے، ہمیں غلام بناکر وہ اپنے استحصالی منصوبوں کیلئے استعمال کرے اور ہم خاموشی سے تماشا بن کر دیکھتے رہیں؟ کسان کو کھیتوں میں بھوک سے اور کوئلے کے کانوں میں مزدوروں کو روز موت کے منہ جاتے دیکھ لیں. ماہی گیروں سے لیکر دوسرے ذریعے سے نان شبینہ ڈھونڈنے والوں تک کو بھی معاف نہیں کیا گیا.

یہاں ہر شہری کا حق اُس سے چھین لیا گیا ہے کیا یہ سب جھوٹ ہے؟ کیا چند ایک طبقے کو نوکری خیرات سمجھ کر دینے کا عیوض تمام شہریوں کو لقمہ اجل کرنا ہے؟

مزار یہ سب سُن کر کہنے لگا بھائی مجھے یہ سیاسی باتیں کرنا نہیں آتا، آپ بس یہاں سے نکلنے سے انکار نہ کریں.

جورک منہ پرے کرکے کہنے لگا، میں اندر بند ہوں پورے قوم کے حالت زار کو محسوس کرکے سکون کھو چکا ہوں کہ ایسا کیوں ہے جبکہ آپ باہر سے سارا منظر دیکھ آکر بھی میری باتوں کو اپنا کم علمی سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہو. میرے لیئے یہی بہتر ہے بےحسی کی مسیح پن سے اس جیل میں ہی رہوں تو اچھا ہوگا..

بابا نے ایک روایتی انداز میں مزار کو چلنے کا حکم صادر کرتے ہوئے کہا لڑکے پر انقلاب کا بھوت سوار ہے چند دن اور جیل میں رہے گا عقل ٹھکانے آجائےگا آجاؤ ہم چلتے ہیں.

خدا حافظ ایس ایچ صاحب….!!

مزار اور بابا کے جانے کے بعد علاقائی ایس ایچ او آگے بڑھا اور کہنے لگا بیٹا آپ جس طرح کی باتیں کرتے ہو یہ باتیں صرف کتابوں تک محدود ہیں، عملی طور پر انہیں جرم سمجھا جاتا ہے، ہم بھی اپنے وقت میں اپنے جوانی اور گرم جوشی کی ادوار میں ایسے انقلابی ہوا کرتے تھے لیکن یہ ساری بس باتیں ہیں، آپ اپنے وقت کو ایسے ضائع نہیں کرو اپنے بھائی اور بابا کا بات مانو اور ضمانت پہ نکل جاؤ، اپنا کوئی نوکری تلاش کرکے باقی ماندہ زندگی پُرسکون اور عزت سے گزارو۔

جورک جا کر دیوار پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ایس ایچ او کو کہنا لگا اُس گھر میں ہم جیسوں کو سکون کہاں ملےگا، جس کے ہر اینٹ کیلئے اپنے ضمیر اور غیرت کا سودا لگانا پڑے، جس میں جب اندھیرا ہو تو ہلکی سی ملگھجیاں بھی یہ تاثر دیں کہ تم لاکھ ضمیر بیچو شہر میں جو انقلاب کی طغیانی اتر آیا ہے، وہ اپنا کام کرکے ہی نکل جائے گا اور ہر صبح اُس گھر کے آنگن میں سورج کی روشنی گر کر مجھ سے مخاطب ہوگا کہ تم جتنا بھی اس چھت کے اندر خود کو چھپا لو میری روشنی آپ کی اصلیت کو ظاہر کرکے باہر آنے پر مجبور کر دے گا.

ایسے سکون پر لعنت بھیجو، جس کی قیمت آپ کے شہر کا مزدور، کسان اور ماہی گیر ادا کر لے.

سرکاری ملازم کیلئے یہ باتیں محض پاگل پن ہی ہیں، ایس ایچ او یہ سب سُن کر کچھ کہے بغیر جاکر اپنے سیٹ پر بیٹھ گیا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جورک کے باتوں نے جیل میں ایک ایسی ہیجان سی پیدا کر لیا کہ جس کا اثر دیواروں پر بھی پڑنے لگے.

کچھ دن گذرنے کے بعد جورک کے ساتھیوں کا احتجاج کا اثر ہوا اور جورک سمیت باقی دوستوں کو بھی رہا کردیا گیا، مگر اب اُن پر ریاستی خفیہ نگاہیں ہر وقت لگے تھے.

جورک اپنے ساتھیوں کے گھر میں کچھ دن ایک کے پاس کچھ دن دوسرے ساتھی کے پاس گذارتا تھا، اُس کا سارا جائیداد(کتابیں) پولیس کے ہاتھوں لگ گئے تو اُسے واپس نہیں ملے. اب جو کچھ سرمایہ اُس کے پاس تھے وہ اُس کے نظریاتی رفیق تھے.

ریاستی گرفتاریاں بتدریج جاری تھیں لیکن ریاستی اداروں کے پاس کوئی ایسا جواز بھی نہیں تھا کہ انقلابیوں کو زیادہ سمے تک سلاخوں میں رکھ لیں لیکن انقلاب روز بروز ریاست کیلئے آگ کی طرح اُٹھ رہا تھا.

جورک اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دوسرے شہروں اور دیہاتوں میں انقلاب کا تبلیغ شروع کرنے لگ گئیں، ہر شہری کے ہاتھ میں حق و حاکمیت اور خود ارادیت کے حوالے سے پمفلیٹ تھمانا اُن کا عزم تھا جس کیلئے وہ کمر بستہ تھے.

ایک نئی ابھار لوگوں میں نظر آنے لگا، ہر کونے میں نئی تحریک نے جنم لینا شروع کیا، جورک جیسی سوچ رکھنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے، انہوں نے بھی اپنے منزل کو قریب آتے دیکھ لیا اور شامل ہوتے گئے، جورک کا نام مخلص ساتھیوں کے فہرست میں شامل ہونے لگا کیوں شامل نہیں ہوتا، جس کا نہ گھر تھا، نہ روائتی رشتوں کا گمان، بس ایک وطن دوسرا راج کا غم لئے جورک نے اپنی زندگی وقف کردیا تھا.

ایک رومانی سی جورک اُس کے اندر مخفی چھپا ہوا تھا لیکن وہ رومان اُس کے ڈائری کے پنوں میں ہی شاعری کے روپ میں محفوظ تھے، لیکن اُس کے رومان کی دیوی شاید اُس کے قریب سے ابھی تک نہیں گذری تھی جو کچھ تھا بس انقلاب تھا.

سالوں بعد جورک اپنے شہر سے کافی دور نکل چکا تھا، انقلاب کا پیغام پہنچاتے پہنچاتے ایک طویل مدت اور بہت سے ساتھی بھی گواں چکا تھا، تحریک نے اپنی بنیاد مضبوط کرلیا تھا، اس تحریک کو چلانے اور سنبھالنے والے ہر کونے سے اُٹھ چکے تھے۔ جورک اور اُس کے باقی ساتھی جیسے ایک مردہ شعور کے بُت میں جان ڈال کر گذر گئے تھے۔ مگر بد قسمتی سے جورک کو پھر سے انقلاب کے پیغامی دستاویزوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا اور پھر جورک واپس نہیں آیا، لیکن جورک نے جو انقلاب لوگوں کے روح میں پھونک دیا تھا، وہ اب سمندر کے لہروں کی طرح تلاطم کا شکل اختیار کرچکا تھا.

جورک کے بازیابی کیلئے اُس کے تمام فکری ساتھیوں سمیت تحریک سے وابسطہ ہر فرد نے آواز اُٹھایا لیکن جورک واپس نہیں آیا۔ خدا جانے جورک ریاست کے کس عقوبت خانے کے نذر ہوا کسی انسانی حقوق کے دعویدار تک کو خبر نہیں پہنچی، جورک کے بعد اُس کے ساتھیوں کو بھی ایسے اٹھایا گیا.

مزار اور جورک کا بابا اور ماں جیسے کسی خسارے سے نہیں گذرے، جورک کے لاپتہ ہونے کا درد صرف مزدور، کسان اور اُن کا درد تھا۔ جسے جورک کے بابا جیسے لوگ گٹر کا کیڑا سمجھتے ہیں اُن کا درد تھا، جورک کا گم ہوجانا جن کا کثیر تعداد میں معاشی استحصال ہوا تھا لیکن ظلم کے بانی سے کون جورک کو چُھڑا لاتا جبکہ ساری دنیا ایسے صدا دینے والوں سے منہ پھیر چکے تھے۔ بڑے بڑے شہروں کے سرمائے داران روڈ پر احتجاج کرنے والوں کو دیکھ کر اپنا منہ اس تاثر سے چھپا لیتے تھے جیسے وہ کسی کچرے کے ڈھیر کے قریب سے گذر رہے ہوں لیکن اُن کو یہ علم تک نہیں ہوتا تھا کہ یہ گندگی نہیں اُن کے گھمنڈ کو توڑنے والا جل کر بننے والا تیز دھاری آلہ ہے.

حکومت پانچ سال بعد اپنی مدت ختم کرکے دوسرے پارٹی کے ہاتھ لگ چکا تھا، سارے ریاستی ادارے ملکر سرمایہ کاروں کے ساتھ نئے منصوبے بنانے کے ساتھ ساتھ جانچ پڑتال کا ماحول گرم کرچکے تھے، ہر ملازم پر کڑی نظر تھا، کرپشن کے معاملے میں لوگوں کے گھروں پر چھاپہ مارنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اسی چھاپوں کے زد میں جورک کے بابا کا گھر اور مزار کا بڑا عہدہ بھی شمار تھا کیونکہ گھر کا چھت اُنچا اور صحن و آنگن بڑا ہوچکا تھا، ایک گاڑی بھی گھر کے آنگن کا خوبصورتی بن چکا تھا ایک اچھے خاصے زندگی کا یہ گھر سامان بن چکا تھا، ایمانداری کی پیسوں سے بنا تھا یا کرپشن کے پیسوں سے لیکن حکومت وقت کی نگاہ جہاں پڑتا، وہاں اپنے خزانے کے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے تمام انتظامیہ سمیت گھروں کو تلاش کیا جاتا تھا.

بڑے بڑے مگر مچھوں کی جب گھروں کی تلاشی شروع کردی گئی، اُن کے گھروں سے کرپشن کے پیسے ظاہر ہوئے تو نجی سیکورٹی کو استعمال میں لاکر حکومت سے مقابلے کا ٹھان لیا، بہت سے لوگ مارے گئے اسی وجہ سے عسکری قوت بھی اپنے قدم شہروں میں جو پہلے سے انقلاب کے خطرے میں تھے ڈال چکے تھے، اب انہیں بھی جواز مل گیا کرپشن کرنے والوں کے ساتھ جھڑپوں میں اور بھی کئی بے گناہ لوگوں کو اس جنگ کے نذر کردیں

ایک دن ایسا آیا کہ جورک کے بابا اور مزار کو روز روز انتظامیہ کی جانب سے بلایا جاتا تھا، مہینہ بھر انہیں صفائیں دینی پڑیں مگر اُن کی ایک بھی نہیں سُنی گئی، مزار اور اُس کا بابا اب اونچے چھت تلے فکر مند تھے۔ سکون نہیں تھا حکومت کے بدلتے ہی ان کا سکون پریشانیوں میں ڈھل گئی اور اب بابا کو جورک کے وہ باتیں یاد آنے لگیں کہ غلامی کو تسلیم کرنے والوں کیلئے حکومت کا خزانہ ہر وقت نہیں بس چند وقت کیلئے استعمال ہوتا ہے.

ایک دن ایسا آیا کہ فوج اور پولیس نے ایک ساتھ مزار کے گھر کا گھیراؤ کر لیا، مزار کی لاکھ منتیں، سماجتیں بے کار رہ گئیں کیونکہ کسی کے گھر پر چھاپہ ایک عیب تصور کیا جاتا تھا، اس لیئے مزار اور اُس کا بابا اس تصور کو لئے نڈھال ہوگئے، اپنے ٹوپی تک کو جانچ پڑتال کرنے والوں کے سامنے گرایا لیکن انہوں نے ایک کی بھی نہیں سُنی مزار اور اُس کے بابا کے اس ضد کی وجہ سے انہیں پکڑ کر ایک کونے میں رکھا، گھر میں گھس کر بچوں کو ایک طرف دھکا دےکر سارے گھر کی تلاشی لی گئی۔ کچھ زیورات اور کچھ رقم جو مزار اور اُس کے بچوں کیلئے برسوں کی جمع پونجی تھی، بابا کی کمائی یہ سب اُن کیلئے مسئلہ بن گئیں اور دونوں کو پوچھ تاج کیلئے پولیس نے تحویل میں لے لیا اور مزار کے بابا کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا مزار عدالت اور انتظامیہ کے فیصلے تک سلاخوں کے اندر ڈال دیا گیا.

جب بابا گھر لوٹا تو گھر کا حال دیکھ کر محلے والوں کی باتیں سُن کر کہنے لگا جورک آپ کے وقت نے آج مجھے بتا دیا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، مجھے ڈر تھا کہ آپ کے انقلاب کا مجھے طعنہ لگےگا لیکن آج مجھے میرے اور بیٹے مزار کے ایمانداری کا طعنہ ہر گلی میں ان الفاظ میں لگا کہ بڑے بڑے گھر اور گاڑیاں کرپشن سے بنتے ہیں اور ہزاروں القابات آج گلیوں میں سنتے آیا ہوں، آج مجھے میرے اصول پرستی اور ایمانداری کا صلا کچھ اس طرح ملا.

جورک آپ کے وقت کا سامنا نہیں کر پا رہا ہوں، جورک تمہارے ہر بات نے آج ثابت کردیا کہ یہ نظام ایک بوسیدہ نظام ہے جس سے ہم جیسے تنگ نظر اور خودپرست انسان ایک مدت تک اندھے ہوجاتے ہیں.

اور آنکھوں سے آنسو رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، کہنے لگا کاش جورک آپ پاس ہوتے تو آپ کے سامنے ہاتھ فخر سے پھیلا کر کہتا.

“انقلاب زندہ باد”

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔