پارود کے دامن میں وطن کے دیوانے – ولید زہری

183

پارود کے دامن میں وطن کے دیوانے

ولید زہری

دی بلوچستان پوسٹ

دیوانگی کے کئی اقسام ہیں اور اپنی نوعیت کے مطابق الگ الگ جگا رکھتے ہیں لیکن اسکا معنی ایک ہے، وہ جو سرمست سب کچھ لٹاکر کسی ایک سمت کا راہی بن کر اس میں کھو جانے والا ہوتا ہے اور اسے سر کرنے کی جستجو لیکر ہر مشکل ہر آگ کو پار کرکے چل پڑتا ہے، بنا کچھ محسوس کیئے ہر غم و خوشی سے انجان، اپنے من کا راہی سردشت کڑی دھوپ، آندھی، طوفان، تیز بارش اور نا ختم ہونے والے سفر کو خندہ پشانی سے قبول کرنے والا ہوتا ہے۔

ایسے ہی ایک وطن کا دیوانہ ہوتا ہے، جو اپنے پیدا ہونے سے شعور آنے تک کے سفر کو طے کرکے دھرتی کے عشق میں سندھڑی کے ملنگوں کا روپ دھار کر عشق وطن میں ہر مشکل، ہر غم و درد کو سہہ کر دیواناوار چل پڑتا ہے اور یوں دور نکل کر وہ ستاروں میں جا بستا ہے، اس دیوانے کو پتہ ہے مٹنا ایسے ہی ہے، کیوں نا اپنی دھرتی پر مٹ جائیں اور مٹنا بھی کیا کہ موت کو بھی رشک آجائے، روح بھی جدا ہونے سے تڑپ جائے اور دنیا اپنے گول گھومتی چکر کو بھول جائے، اسے دیکھ کر جس نے من چاہا موت چنا، کیونکہ وہ دیوانہ ہے، اس دھرتی کا اور جان لٹانے آیا ہے۔

یہ 2012 کی چاند رات تھی، دو دن کا سفر طے کرکے میں خوبصورت چاندنی رات میں پارود کے دامن پہنچا، چمکتی چاندنی اور رات آدھی، میں اس دامن میں دیوانوں کے جھرمٹ میں آپہنچاتھا، جن سے ملنے کی چاہت بچپن سے دل میں تھی اور یقین نہیں آرہا تھا کہ میں ان بلند بالا پہاڑوں کے بیج اور ایسے عظیم لوگوں کے درمیان آچکا ہو‌ں اور انہیں سامنے دیکھ رہا ہوں اور سن رہا ہوں، جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی تھیں، وہ یہاں اس دامن میں اپنی دنیا بسا چکے تھے۔-

ایسے ہی وطن کے دیوانوں سے یہاں ملاقات ہوئی، اپنی شروعاتی ٹریننگ پورا کرکے مجھے پھر شہر لوٹنا تھا اور 10 دن کے دؤرانیئے میں میں نے وطن کے دیوانوں سے وہ ہر چیز سیکھا، جو ایک نامکمل انسان کو مکمل کردیتا ہو، یہاں مخلصی اور بھائی چارگی کی وہ رسم قائم ہوگئی تھی کہ اپنا جان دیکر دوسرے دوست کی حفاظت کرنے والے دوستوں کی جھرمٹ تھی، یہ وہ دیوانے تھے، جو اپنا سب کچھ لٹا کر آخری گولی کی پیروی کرنے کو تیار کھڑے تھے، یہ وہ تھے جو اپنے عہد سے وفا کرنے کو پیش پیش تھے۔

وہاں رہ کر میری ملاقات ان دوستوں سے ہوا، جنہوں نے آج ثابت کردیا کے جو راستہ انہوں نے چناتھا، جس کی منزل آخری گولی اور آخری دم تک اپنے مؤقف، اپنے نظریئے پر قائم رہنا ہی ہے، حقیقت میں ایک سچے وطن کے سپاہی ہونے کا ثبوت ہے۔ شہید امیر الملک، شہید شیرا، شہید نوید، شہید جاوید، شہید صدام، شہید دلوش، شہید ضیاء، شہید رازق، شہید رستم ماما اور شہید بابر مجید سے ملاقات ہوا جو کبھی پھر نا ہوسکا کیونکہ وہ دیوانے وطن کے عشق میں سرمست چلتے گئے، بولان تا مکران تا لسبیلہ انہیں رکنے کا ہنر نہیں آتا تھا، وہ کر گذرنے والے تھے۔

شہید فدائی بابر مجید میرے ساتھ ہی کیمپ پہنچا تھا، وہ بھی ابتدائی ٹریننگ میں تھا، خوبصورت نواجون جس کی داڑھی بھی ابھی آئی تھی، جسے دیکھ کر اپنائیت محسوس ہوتا، جس کی مسکان اپنے اندر ہزاروں احساسات کو جنم دیتا، چپ چاپ رہنے والا بابر اندر سے ایک ابلتا ہوا لاوا تھا، جو دیکھا نہیں جاسکتا تھا، پر اسکے انتقام کی حرارت کو محسوس کرکے دشمن کو نیست نابود ہونے کا پکا یقین ہوجاتا اور اسکے مہر اور محبت پر کوئی بھی جان لٹانے والا بن جاتا۔

پارود کے دامن میں دیوانوں کی جھرمٹ میں ایک بزرگ بھی اکثر دوستوں کے خدمت میں مصروف عمل ملا، جو ہر وقت خود سے چھوٹے دوستوں کی رہنمائی کرتا۔ وہ عمر میں یہاں سب سے بزرگ تھا پر اسکے حوصلے سب سے آگے، سب اسے رستم ماما کہہ کر پکار تے تھے اور ہر کسی کی آواز پر اسکے پاس حاضر ہوکر اپنی خدمت پیش کردیتا، کسی رات کمبل کم پڑنے کے سبب مجھے بھی ماما رستم سے رجوع کرنا پڑا، کیونکہ سخت بارش کی وجہ سے کمبل بہہ گئے تھے یا گیلے ہوگئے تھے۔ ماما رستم نے مجھے اپنا کمبل دے کر خود ایک چھوٹے سے چادر میں لیٹ گیا، ماما رستم کے اس مخلصانہ کردار کی گواہی پارود کا ہر پتھر ہے، وہ ڈٹے رہ کر دوسروں کو آسانیاں پیدا کرنے والا دوست تھا، وہ کمبل لیکر میں اور شہید امان المعروف صادق نے رات گذارنے کی سہولت برابر کردی اور ان راتوں میں پارود کے چٹانوں پر سردی اپنے زوروں پر رہتی ہے، اسکے باوجود ماما رستم نے خود چادر بچھا کر ہمیں اپنا کمبل دے دیا اور میں ماما رستم سے پھر ملکر اسکے محفل اور مخلصی سے لطف لینے کی چاہت میں رہ گیا۔

میرے یہاں آنے سے پہلے شہید صادق بھی پہنچ چکے تھے اور انکی ٹریننگ ہم سے پہلے ہوچکی تھی، شہید صادق سے نزدیکی علاقے کے دوسرے دوستوں کے وجہ سے ہوئی، پہلی ملاقات میں شہید صادق نے اپنی ساتھ ہونے والے کچھ واقعات کا ذکر کیا جس پر ہم سب ہنستے تھے اور وہ ہنس کر ہمیں کہتا کبھی ایسے واقعات میں مت پڑنا اور ہمیشہ چھوٹا بھائی کہہ کر پکارتا۔

پارود کے دامن میں وطن کے دیوانوں کے ساتھ 10 روز گذار کر پھر شہر آگیا، چاہت ہمیشہ دل میں تھی کہ لوٹ کر یاروں کی محفلیں حاصل کر سکوں، پر مقصد اور منزل ایسی تھی کے حالات نے کروٹ بدل لی اور یوں ماما رستم کی محفل رہ گئی، امیر جان کی رہنمائی رہ گیا، ضیاء کی دوستی صدام اور جاوید و دلوش کی مہر، رازق، بابر اور صادق کی باتیں۔

اب انکے دیئے ہوئے تعلیمات اور انکے مخلصانہ کردار نے مجھ سمیت، مجھ جیسے کئی سنگتوں کو اتنا مظبوط کردیا ہے کہ انکے دکھائے ہزاروں رستوں پر بلا تکلیف چل کر ان جیسے کردار کو پاکر اپنے مقصد اور منزل پر ثابت قدمی کے ساتھ اپنا فرض نبھا کر، انکے محفل کو پانے کا مظبوط سوچ، آخری گولی اور آخری سانس تک جاری رہے گی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔