لاپتہ افراد کیلئے بیٹھے خواتین و بچوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے – لشکری رئیسانی

122

بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر از خود نوٹس لینے کے بجائے منصف اعلیٰ کا مشکوک شہریت رکھنے والے شخص سے چندہ وصول کر کے لوٹ جانا باعث افسوس ہے ۔ لاپتہ افراد قصوروار یا بے قصور ہوسکتے ہیں احتجاج پر بیٹھے بچوں اور خواتین کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ۔ حاجی لشکری خان رئیسانی

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی اس قرار داد کے تحت بلوچستان میں انسانوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہونے کی بڑی وجہ 1948ہی میں پاکستان کا حصہ بننے والے صوبے میں70 سالوں سے حکمرانوں نے یہاں کے لوگوں کو انسان سمجھا ہی نہیں یہاں ہمیشہ لوگوں کو غیر انسان سمجھا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ منصف اعلیٰ اس صوبے میں جہاں انسانی حقوق کو روندا جارہا ہے وہاں انسانی حقوق کے عالمی دن پر ڈیم تعمیر کرنے کیلئے چندہ جمع کرتے رہے ہیں اور وہ شخص منصف اعلیٰ کے ڈیم فنڈ کا حصہ بنا جس کی پاکستانی شہریت مشکوک ہے جس نے یہ رقم ڈیم فنڈ کیلئے نہیں بلکہ اپنی مشکوک شہریت کو قانونی شکل دینے کیلئے دی ہے ۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر از خود نوٹس لینے کے بجائے منصف اعلیٰ کا مشکوک شہریت رکھنے والے شخص سے چندہ وصول کر کے لوٹ جانا باعث افسوس ہے ۔اقوام متحدہ کی قرار داد کی یہاں پابندی نہیں کی جارہی ہے۔ لاپتہ افراد قصوروار یا بے قصور ہوسکتے ہیں احتجاج پر بیٹھے بچوں اور خواتین کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنمانوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 1948 میں اپنے تیسرے اجلاس میں قرار داد نمبر 211 پاس کرکے دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن رائج کیا جس کا مقصد دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکناتھا بہتر ہوتا کہ منصف اعلیٰ ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے کے ساتھ گذشتہ دس سالوں سے پاکستانی شہریت رکھنے والی بلوچ سماج کی باپردہ خواتین ملک کے آئین وقانون کے تحت لاپتہ ہونے والے اپنے لوگوں کی بازیابی کیلئے دھرنا دیئے بیٹھی ہیں ۔انسانیت کا تقاضا تھاکہ منصف اعلی سڑکوں پربیٹھی خواتین اور بہنوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر ان کو اپنا سمجھتے ہوئے ان کی فریاد سنتے ۔ منصف اعلیٰ گزشتہ دس سالوں سے اٹھارویں ترمیم کے تحت بلوچستان کے ملنے والے اختیارات پر عملدرآمد نہ ہونے پر از خود نوٹس لیتے مگرمنصف اعلیٰ زبانی جمع خرچ کرکے لوٹ جانا باعث افسوس ہے ۔