بے حس زندان – ولید زہری

384

بے حس زندان

ولید زہری

دی بلوچستان پوسٹ

حقیقت تو یہی ہے کہ انسان میں وہ خصوصیات ہیں جس سے وہ اپنے ارد گرد پر پڑنے والے اثرات کو محسوس کرپائے یا یوں کہیں انسان کو اپنی طرف بڑھتی ہر طوفان اور ہر بری اثر کا اندازہ کرنے کا قدرتی ہنر ہوتا ہے، اسے محسوس کرنا اور خود کی جانب بھڑتے ہوئے اسکا اندازہ اسے ارد گرد کے حرکات او عمل سے ہوتا ہے۔

انسان جب شعوری حوالے سے تیار رہتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسکے عمل کا رد عمل اس پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے اسکے عمل سے جو حرکت پیدا ہوتا ہے اس کے محرکات کس طرح کے ہوتے ہیں اور یہی شعور اسے خود کے عمل کے مطابق تیار کرتا ہے اور وہ مکمل ہوجاتا ہے، اپنے ہر قدم کو آگے کے طرف بڑھاتے ہوئے چلتا ہے۔

اسی شعور نے مجھے یہ باور کرایا کہ میرے انتظار میں کوئی کال کوٹھڑی ہے، ایک انسان ہونے کے ناطے مجھے اس اکیلی کالی رات سے ہمیشہ خوف رہتا، میں جب کبھی کسی سفر میں ہوتا تو ایسے ہی محسوس کرتا کے اگلے پل کوئی گاڑی کے سامنے آکر گاڑی روک دیگا اور مجھے لے جائے گا یا کسی ہوٹل پر چائے پیتے ہوئے میری نظریں اندر آنے والے دروازے پر ہوتے اور میں اپنے ارد گرد بھاگ نکلنے کا کوئی آسان سا راستہ تلاش کرتا رہتا۔

ہمیں اپنے کام سے مایوسی نہی ہوتی، ہم نے اپنے دوستوں سے ہی سیکھا ہے کہ ڈٹے رہو، اس وقت تک جب تک آخری سانسیں باقی ہوں لیکن ایک ذمہ داری کے تحت لاچار بن کر دشمن کے قید خانے میں اذیت کھاکر زبان سے نکلے کسی ایک لفظ پر کنٹرول نا پانے کا خوف بہت ہی زیادہ ہوتا ہے اور یہی خوف ہمیں ہر پل اپنے ارد گرد چوکس رہنے کا ہنر سکھاتا۔

دسمبر کی سرد رات جو خوف میرا پیچھا کررہا تھا، وہ میرے سر پر آن پہنچا، میں کچھ دوستوں کے ہمراہ کسی دوست کے بیٹھک میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک کچھ گاڑیوں کی تیزی سے رکنے کی آوازیں آئیں اور اس پل میں سمجھ گیا کے کیا ہونے والا ہے۔

مجھ سمیت میرے 2 دوستوں کے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر گاڑی میں پھینک دیا گیا اور یوں تیزی سے وہ گاڑیاں نکل گئے اور جس جانب جارہے تھے میں محسوس کر سکتا تھا اور یوں آج وہ خوف میرے سر پر آ بیٹھا اور میں نے اسے دیکھ لیا اور سمجھ لیا کے اب آگے ہونا کیا ہے، اب اس انجام کے لئے تیار ہونے کے سواء میرے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔

ہمیں شہر سے نکال کر ایف سی چھاؤنی پہنچایا گیا، جو شہر کے وسط میں تھا مجھے اندازہ ہورہا تھا کے ہم کس جانب جارہے ہیں، وہاں لے جاکر مجھے میرے دوستوں سے الگ کسی ایک چھوٹی سی کھڑکی نما دروازے سے دھکیل دیا، جہاں میں لیٹ کر اپنے پاؤں سینے کے ساتھ لگائے جگہ کرسکتا تھا ہلنے کی بھی کوئی جگا نہیں تھی۔

پھر کچھ ہی دیر بعد 2 لوگ آئے اور اسی کھڑکی نما دروازے کو کھول کر مجھے پیروں سے پکڑ کر باہر کی طرف کھینچ کر باہر نکال دیا اور دونوں نے میرے بازو پکڑ کر تیزی سے کسی کمرے کی جانب رواں ہوئے، میں سمجھ گیا اب مجھ سے سوال و جواب ہوگا جس کی وجہ سے میں یہاں لایا گیا ہوں۔

کمرے میں پہنچ کر مجھے دیوار کے ساتھ بٹھایا گیا، میرے آنکھوں پر پٹی تھی اور کچھ لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں، شاید ان میں کوئی میجر تھا، میجر اپنی کرسی سرک کر میرے قریب آئے اور میری آنکھوں سے پٹی ہٹاتے ہوئے، سب سے پہلے مجھے میرے نام سے پکار کر طنزیہ مجھ پر ہنسنے لگا اور اٹھتے ہوئی سپاہیوں کو اشارا کیا، جو مجھ پر ٹوٹ پڑے اور اچھل اچھل کر مجھے لاتوں سے مارے جارہے تھے۔

مارتے مارتے جب میجر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا تو جھٹ سے سب پیچھے ہوگئے اور پھر سے میجر میرے قریب آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا، اب میرے ناک اور منہ سے خون بھی بہہ رہا تھا، جس پر میجر نے مجھے سے سوال کیا کے کتنے لوگ آج تک مارے ہو؟

میں نے کوئی خون نہیں کیا، کس خون کی بات کررہے ہو، میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں، آپ کے لوگوں نے کسی غلط فہمی میں مجھے اٹھالیا ہے۔ میرا میجر کو جواب ہی دینا تھا کے میجر نے اپنے سپاہیوں کو پھر سے اشارہ کردیا، اس بار سپاہیوں نے مجھے ایک چارپائی کے ساتھ باندھ کر کسی چیز سے زور سے مارنے لگے، جس کی ایک بار لگنے سے میں بے ہوشی کی حالت میں چلا جاتا اور یوں مجھے منہ پر پانی مار کر جگاتے اور پھر اسی چیز سے میرے پیٹ پر زور سے مارتے، یوںہی 2 گھنٹے تک چلتا رہا اور پھر مجھے لاکر دوسرے سیل میں پھینک دیا، جہاں پہلے سے میرے دونوں دوست موجود تھے، جنہیں میرے ساتھ لایا گیا تھا۔

یہ دونوں دوست نا میرے بارے میں جانتے تھے، نا انکو معلوم تھا کہ انہیں کیوں لایا گیا ہے، وہ دونوں میرے قریب آئے اور مجھے سنبھالتے ہوئے دیوار کے ساتھ بٹھا دیا اور وہ یوں تجسس سے میری طرف دیکھ رہے تھے، جیسے وہ مجھ سے یہی پوچھنا چاہ رہے ہیں کے آخر ہمیں یہاں کیوں لایا گیا؟ جس پر انہیں جواب دیتا کے انکو غلط فہمی ہوئی ہے، بے گناہ ہمیں اٹھا کر لائے ہیں۔

پوری رات سردی میں پڑے رہنے کے بعد اگلی صبح ایک سوکھی روٹی، ایک ٹھنڈی کپ چائے لاکر ہمارے سامنے پھینک دیا جسے ہم تینوں دوستوں نے آدھا آدھا کرکے اور روٹی کے ساتھ چائے پی لیا۔ ابھی چائے پی ہی لی تھی کے پھر سے کچھ لوگ آئے اب ہم تینوں کو اس سیل سے نکال کر الگ الگ جانب لے گئے، مجھے پھر اسی کمرے میں لایا گیا جہاں کل میجر مجھ سے سوال کررہا تھا۔

کمرے میں لاکر میرے ہاتھوں کو اوپر چھت کے ساتھ باندھ کر مجھے کھڑا کردیا اور وہی میجر پھر سے میری طرف بڑھا اور اسکے پاس ایک کاپی تھا، جس میں سے پڑھ کر وہ میرے بہن، بھائی، دوست، رشتہ داروں کا نام لے رہا تھا۔ پھر اس نے میرے دو دوستوں کا نام لیا، جس پر میں نے جواب دیا کے میں انکو نہیں جانتا تو اس پر میجر نے مجھے گالی دیتے ہوتے کہا کہ تمھارے دوست ہیں، فلاں دھماکے میں تمھارے ساتھ تھے، وہ میجر علاقے میں ہونے والے کچھ حملوں کی نشاندہی کرکے مجھ سے سوال کررہا تھا-

2007 کا ایک واقعے میں بازار میں کسی ہوٹل پر بیٹھا تھا، ہمارے قریب ہی ایف سی کے گاڑی پر گرنیڈ حملہ ہوا۔ میجر اس متعلق مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ اس وقت تم اسی ہوٹل میں تھے۔ تمھیں کیسے معلوم نہیں اور اس وقت تم بی ایس او میں تھے اور تم نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر یہ کام کیا ہے مان لو یہ بات۔

میں نے کہا میں اس وقت بی ایس او میں رہا ہوں، پر میں نے سیاست بھی چھوڑ دی ہے۔ اب تھوڑی بہت ٹیچنگ کرکے اپنے گھر کا گذارہ کرتا ہوں، مجھے کسی دھماکے کا کوئی علم نہیں اور جن لوگوں کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہو، 2010 کے بعد ان سے میرا کوئی رابطہ نہیں نا کبھی انکو دیکھا ہے اور نا ہی ان سے کوئی لین دین ہے، مجھے کوئی علم نہیں انکا۔

جس پر پھر میرے ساتھ وہی ہوا، ہر سوال کے بعد مجھے تب تک مارتے جب تک میں بے ہوش نہ ہوجاتا اور یوں مجھے منہ پر پانی مار کر جگاتے اور پھر تب تک مارتے، جب تک میں پھر سے بے ہوش ہوجاتا اور یوںہی اس دن ہاتھ اوپر باندھے رکھا گیا اور ہر ایک سے دو گھنٹے بعد کچھ سپاہی آتے مجھے مارتے پھر اگلی صبح تک میں یوں ہی ہاتھ اوپر بندھے کھڑا رہا، سوال کرنے کا سلسلہ 2 ہفتے تک چلتا رہا اور سوال جواب کے بعد یوں ہی مجھ پر الگ الگ طریقے سے تشدد کرتے۔

2 ہفتے بعد ہمیں 3 دن تک ایک سیل میں رکھا گیا، صرف پینے کو پانی دیتے جب ہمیں پیاس لگتی اور دن میں 2 بار ہی ایک گلاس ہمیں پینے کو ملتا، اب سوال اور جواب روک دیا گیا تھا۔ اسلیئے ہم اپنے سیل سے ارد گرد کے دوسرے لوگوں کے ہونے کی موجودگی کو محسوس کرسکتے تھے۔ جنہیں ہم سے پہلے اور بعد میں لایا گیا تھا اور کچھ پر تشدد کی آوازیں بھی ہمیں سنائی دیتی تھیں، اب جیسے مجھے مار کھانے کی عادت سے ہوچکی تھی، یوں ہی ہر تشدد کے بعد میں خود پر ہونے والے تشدد کے درد کو جذب کر سکتا تھا۔

3 دن بعد ایک اور میجر کے پاس مجھے لے جایا گیا، اسنے مجھے کہا کے تم جو جانتے ہو ہمیں بتاؤ ہم تمھیں چھوڑ دینگے۔ بی ایل اے کے لوگ شہر میں کون کون ہیں؟ فلاں دھماکے میں کون کون شامل ہے اور علاقے کے کچھ فراریوں کے پتے مجھ سے پوچھ رہا تھا۔ جس پر میں نے اس میجر کو بھی وہی جواب دیا کے میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں اور نا ہی مجھے کسی دھماکے کا علم ہے۔ میں بے قصور ہوں، جس پر میجر نے مجھے کہا بس اپنی موت کا انتظار کرو، تمھارا سیل کسی اور مجرم کے کام آئے گا تمھیں مار کر کسی جنگل میں پھینگ دونگا۔

یوں وہ سپاہی مجھے پھر سے لیکر اسی سیل میں لیکر آگئے، اب میں نے مان لیا تھا کہ مجھے مار کر لاش کسی ویرانے میں پھنک دینگے، جس پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں تھا، کیونکہ زندان کی جو زندگی ہوتی ہے، موت اس سے بہت خوبصورت ہوتا ہے اور وہ موت جو مقصد پر آئے اور اس موت کی چاہ ہمیں ہوتی ہے، تاکہ تشدد ہوتے وقت زبان سے کوئی خطاء نا ہو اور ہم اپنے قول اور تنظیم سے غداری نہ کر بیٹھیں۔

45 دن زندان میں رہنے کے بعد ایک رات مجھے میرے دوستوں کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندہ کر کسی گاڑی میں بٹھایا گیا اور ایک میجر میرے پاس آکر مجھے کہنے لگا کے اب تمھاری موت بالکل قریب ہے، ہمیں ایف سی کینٹ سے نکال کر شہر کے مخالف سمت لے جایا گیا۔ 6 گھنٹے کے قریب یہ سفر جاری رہا، محسوس ہوتا کہ اب رات ختم ہوکر صبح میں بدل گئی ہے اور یہ سفر میں نے زندگی کی آخری سفر سمجھ کر خود کو مطمئن کرلیا تھا۔

صبح ہوتے ہی ہمیں کسی اور شہر لایا گیا تھا، یہاں ہمیں کسی ایف سی چھاؤنی میں لایا گیا اور سیدھا ہمیں کسی کمرے میں لے گئے، جہاں پہلے سے کچھ میجر ہمارے انتظار میں تھے۔ پہنچتے ہی انہوں نے مجھ سے وہی سوال دہرایا، جو مجھ سے پچھلے 45 دنوں سے پوچھا جارہا تھا۔ میرا جواب انکو بھی وہی تھا کہ میں کسی کو نہیں جانتا لیکن اس بار کی تشدد پچھلے بار سے زیادہ تھی 3 دن تک مجھے دیوار کے ساتھ باندھے رکھا اور ہر پل مجھے بجلی کی شاکس دیئے جاتے اور پیروں پر ہتھوڑے سے مار تے اور 3 دن یوں ہی مجھ پر تشدد جاری رہا، جس کے وجہ سے میں بلکل بے جان ہوگیا تھا۔-

3 دن تشدد کے بعد مجھے کسی کمرے میں لے گئے، میری آنکھیں کھول کر مجھے 6 گھنٹے بٹھایا گیا اکیلے بیٹھے میں بہن بھائیوں اور امی کو یاد کررہا تھا، میرے چھوٹی بیٹی کا چہرہ میرے سامنے آرہا تھا اور میں یہ سوچ کر خوش ہورہا تھا کہ آخر کار امی کا انتظار تو ختم ہوگا، چاہے میری لاش ہی لوٹے، میرے انتظار میں جینے سے میری موت پر تو مطمئن ہوجائیگی اور میں اپنے دوستوں کا سوچ رہا تھا کہ کیا انکو یقین ہوگا، میں ٹوٹا نہیں، میں ڈٹا رہا۔ میری لاش ان سب کے سوالوں کا، انتظاروں کا تو جواب ہوگا، بس وہ آخری بات کہ جس دن مجھے اٹھایا گیا اس دن میری بیٹی نے واپسی پر مجھ سے کچھ کھانے کی سامان لانے کی فرمائش کی تھی جسے پورا نا کر سکا۔

میں انہی خیالوں میں تھا کہ تیزی سے ایک میجر میرے قریب آکر مجھے خیالوں کے دنیا سے جگا دیا اور مجھے کہنے لگا اب ہم تمھیں مارنے لے جارہے ہیں، جس پر میرے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی، میری آنکھیں تشدد کی وجہ سے نیم کھل رہے تھے اور میں سوکھے ہونٹوں سے اسکی بات پر مشکل سے مسکرا نے کی کوشش کی، جس پر وہ طیش میں آکر میرے منہ پر زور سے مکا دے مارا۔

پھر یوں ہی ہمیں کسی گاڑی میں بٹھا کر انجیکشن دیئے گئے، جس کے بعد ہمیں کوئی ہوش نہیں رہا، جب میری آنکھیں کھولیں تو میں کچھ سمجھنے کی حالت میں نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ بس اتنا یاد تھا کے اگر وہ پھر سے آئے تو مجھ پر تشدد کرینگے جس کے لئے میں اپنے ذہن کو تیار کررہا تھا کہ امی کی آواز میرے کانوں پر پڑی میں بلکل کمزور ہوچکا تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، میں کہاں ہوں مجھے لگا امی کی یاد آرہی ہے، جس کی وجہ سے مجھے امی کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

میں اپنے نیم کھلی آنکھوں کو اور کھولنے کی کوشش کررہاتھا اور سمجھا کہ میں زندان سے نکل کر اب گھر پہنچ چکا ہوں، تب تک میری چھوٹی بیٹی آکر مجھ سے لپٹ گئی اور یوں میں خود کو اپنی بیٹی کے پاس پا کر اپنے ہوش کو سنبھال سکا اور اس دن میں آزاد ہوچکا تھا۔

جس دن ہمیں بے ہوش کیا گیا تھا، اس دن ہمیں لاکر شہر کے قریب پھینک دیا گیا تھا جس کے بعد قریبی لوگوں‍ نے ہمیں کسی قریبی ہسپتال منتقل کر دیا تھا اور وہیں سے میرے بھائی کو میری خبر ملی تھی، جو مجھے گھر لے آیا تھا اور گھر پہنچ کر میں 30 گھنٹے بعد ہوش سنبھال چکا تھا۔

آج بھی محسوس کرتا ہوں کہ زندان بہت بے حس ہے، زندان میں گذرنے والی زندگی کسی لمحے انسان بھول نہیں پاتا اور خود پر ہونے والا ہر ظلم تمھاری فکر میں شامل ہوکر تمھیں اور مظبوط کردیتا ہے، تم ڈٹے رہو، شکست دشمن کو اسکے قید خانے میں بھی دے پاتے ہو، آج دشمن ہزاروں کے تعداد میں زندانوں میں وطن کے فرزندوں سے شکست کھا رہا ہے اور ہر روز کھا رہا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔