اگر لاپتہ بلوچ مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے- بلاول بھٹو زرداری

149

لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی آواز نہیں سنی جارہی ہے – بلاول بھٹو

بلاول بھٹو زرداری کی بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے بھرے جلسے میں ہمارا ذکر کیا اور اسٹیبلشمنٹ سے وہی اپیل کی جو ہم سالوں سے کر رہے ہیں – سیما بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سندھ کے شہر گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے رہنماء بلاول بھٹو زرداری نے شہید بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی کے موقعے پر اجتماع سے بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ میں کھلے آسمان تلے احتجاج پر بیٹھی سینکڑوں بلوچ ماں اور بہنوں کے مطالبات کیوں سنے نہیں جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پیارے سالوں سال سے کیوں لاپتہ ہیں۔ اگرجبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والے افراد مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا ہے؟ لیکن مجال ہے کہ اس ملک کے ٹھیکیداروں کو کوئی احساس ہو۔

دریں اثناء کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھی لاپتہ طالبعلم شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے سوشل میڈیا پرایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں آج بلاول بھٹو زرداری کی بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے بھرے جلسے میں ہمارا ذکر کیا اور اسٹیبلشمنٹ سے وہی اپیل کی جو ہم سالوں سے کر رہے ہیں کہ اگر ہمارے بھائیوں نے کوئی جرم کیا ہے یا ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں، انہیں سزا دیں لیکن اُن کو ایسے زندان میں قید کر کے ہمیں نفسیاتی مریض نہ بنائیں۔

سیما بلوچ کا کہنا تھا کہ میں بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے اور کیمپ میں بیٹھے باقی تمام لواحقین کے لئے آواز اُٹھائیں۔ ہم نے اپنے لوگ آزما لئے، ہم نے ہر قسم کی کوشش کر لی لیکن ہمارا کوئی سُننے والا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ہم سے دو مرتبہ ملنے کا وعدہ کیا لیکن پھر نہ مل کر ہمیں بے موت مارا۔ ہماری آواز سننے والا کوئی نہیں شاید آپ کی بات سُنی جائے، شاید آپ کے لفظوں کو اہمیت دی جائے اسی لئے آپ سے گذارش کررہی ہوں۔

سیما بلوچ نے بلاول بھٹو زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھائی بھی آپ کی طرح جوان اورطالبعلم ہے، آپ اپنی بہنوں کے لاڈلے ہو گے، ویسے ہی میرا بھائی ہمارا لاڈلا ہے۔ بھائی کا حال جاننے کے لیئے ہم روز مر رہے ہیں براہ کرم آپ کچھ کرو۔

یاد رہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ دس سالوں جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیئے احتجاج کررہے ہیں، جبکہ گذشتہ دو مہینوں میں اس احتجاج میں وسعت دیکھنے میں آئی ہے جہاں لاپتہ افراد کی بڑی تعداد وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم کردہ احتجاجی کیمپ میں بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہی ہیں۔

آج بروز جمعہ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں اور کارکنان نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے لواحقین کو اپنے طرف سے ہر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی بے حسی اور طاقتور اداروں کی غیر آئینی اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک تو ہمارے وسائل کو لوٹا جارہا ہے اور دوسری طرف ہمارے پیاروں کو لاپتہ کیا جارہا۔ ان ظلم وذیادتیوں کے خلاف ہم آئینی طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں تو ہمیں غدار اور ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے۔

پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ جب ان ناانصافیوں کے حوالے سے حکمرانوں سے رابطہ کیا جاتا ہے تو منتخب حکومت اپنا جان چھڑانے کے لیے کہتے ہیں کہ ہم لاپتہ افراد اور حکومتی اداروں کے غیرآئینی اقدامات کے مسئلے میں بے بس اور بے اختیار ہیں کیونکہ اس مسئلے میں ملک کے طاقتور ادارے ملوث ہیں، صوبائی حکومت کا اس طرح کا جواب دینا غیرآئینی اقدام اور جمہوریت کی توہین ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غیر جمہوری قوتیں ملکی سلامتی کے نام پر آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر مظلوم اقوام سراپا احتجاج ہیں اور اس کے باوجود لوگوں کو انصاف نہیں مل رہی ہے۔

پی ٹی ایم رہنماؤں نے مزید کہا کہ ملک کے طاقتور اداروں کے ان غیرآئینی اقدامات اور ظلم و زیادتیوں کے خلاف ہم محکوم اقوام اب مشترکہ جہدوجہد کرینگے۔