استاد – شیراک بلوچ

392

استاد

تحریر :- شیراک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

 

استاد نام ہے محبت کا، استاد نام ہے شفقت کا، استاد نام ہے رہنمائی کا، استاد نام ہے باپ کا، استاد نام ہے دوست کا، استاد نام ہے قربانی کا، استاد نام ہے استاد اسلم بلوچ کا.

شہید کمانڈراستاد اسلم بلوچ، کمانڈر کریم مری، سنگت اختربلوچ، سنگت سردرو، سنگت فرید بلوچ اور سنگت صادق بلوچ کی شہادت پر لکھنے کے قابل نہیں مگر دل کے کہنے پر مجبور ہو کر یہ سوچ کر لکھ رہا ہوں کہ کہیں گستاخانہ الفاظ سرزد نا ہو جائیں۔

آپ نے جو مقام پایا ہے وہاں تک میرے الفاظ ہی نہیں پہنچ پارہے ہیں، استاد اگر کچھ غلط ہو تو مجھے ایک شاگرد سمجھ کر اس بنیاد پر معاف کرنا کے میں آئندہ کچھ اچھا لکھ سکوں.

استاد میں آپ کا ایک ایسا شاگرد جو آپ سے ملنے کی ہزاروں خواہشیں دل میں رکھتا تھا لیکن آپ کا ایسا مقام تھا کہ آپ سے ملاقات نہ کرسکا یہ میرے لیے باعث رنجیدگی ہوگی لیکن آپ شفیق استاد کی نصیحتیں حاصل کیں جو میرے لیے باعث فخر ہے اور تا حیات میں کبھی نہیں بھول پاونگا.

یہ بات سچ ہے کہ کوئی کسی کو ایک لفظ بھی سکھائے وہ اس کا استاد محترم بن جاتا ہے، لیکن آپ نے تو ہمیں وہ راہ دکھائیں جن کو حاصل کیئے بغیر ہم نامکمل ہیں آپ کا مقام اعلی ہے.

آپ نے ساری زندگی مادر وطن کی محبت میں گذار دی اور آپ نے بے شمار دوست پیدا کئے،جو مادر وطن کی عشق میں قربان ہو گئے جن سر فہرست آپ کا اپنا بیٹا شہید ریحان تھا جسےمادر ء وطن پر قربان کرنے میں آپ زرہ برابر بھی پیچھے نہ ہٹے آپ کی اور شہید ریحان کی ان قربانیوں کو دیکھ کر بلوچ قوم میں بیداری آگئی اور ایک کے بعد ایک کر کے آپ کے شاگردوں میں اضافہ ہوتا گیا، جو اپنے ازلی دشمن پنجاب اور اس سامراج چین کی بنیادیں ہلانے غاروں سے نکل کر کراچی میں فل پروف اور سیکور ایریا میں جانبازی سے گھس کر چینی کونسل خانے پر حملہ کر کے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ بلوچ اپنے منشاء کے بغیر کسی بھی ملک کو، چاہے وہ کتنا بھی طاقت ور سپر پاور اور اسلام کا ٹھیکیدار ہی کیوں نا ہو اسے سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور بلوچ سربازوں نے کامیابی سے اپنے ہدف کو پا کر امر ہو گئے، جنہیں ایک مہربان استاد کی رہنمائی اور جذبہ اے ریحان حاصل تھی.

آج استاد کے جانباز ہزاروں کی تعداد میں دشمن سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، آج اگر استاد ہمارے ساتھ جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں تو ان کی تعلیمات اور ان کی دکھائے ہوئے راستے موجود ہیں جو ہمیں راہ دکھائیں گے اور ہماری رہنمائی کرینگے آپ بلند حوصلوں والے استاد، والد، رہنما اور دوست بن کر سب کو ان کی طرح دیکھتے تھے.

آج دشمن یہ سوچ کر خوش ہوگا کہ ہم نے استاد اسلم بلوچ کو جسمانی طور پر جدا کر کے کامیابی حاصل کی لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ استاد کی نا ختم ہونے والی نظریات بلوچ قوم میں شدت کے ساتھ جذبہ اور حوصلہ پیدا کرے گا جو بلوچستان کی آزادی تک جاری رہے گا.

سلام ہے لمہ یاسمین کو جو ایسے بہادر شوہر اور بیٹے کو مادر ء وطن پر قربان کر کے حوصلہ مندانہ اور بہادری پر مبنی نصیحتیں و حوصلے بلوچ قوم کو دے رہا ہے، ایسی مائیں اگر کسی بھی قوم میں موجود ہوں تو زیادہ دیر وہ قوم غلام نہیں رہ سکتا.

لمہ یاسمین آپ نے اور استاد اسلم بلوچ نے جو راستہ ہمیں دکھایا ہے وہ پنجابی دشمن، سامراج چین، اور ان کے زرخریدوں کے ختم کرنے سے ختم نہیں ہوگا، وہ ایندھن کی طرح شہداء کے لہو کے ساتھ اور بھی رواں دواں ہو کر منزل مقصود تک جا پہنچے گا.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔