‎چینی قونصل خانے پر حملے کے نتائج – توارش بلوچ

252

چینی قونصل خانے پر حملے کے نتائج

‎توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎آج کی دنیا سوشل میڈیا کا دنیا ہے، آپ کی آواز ہر عام و خاص تک آسانی سے پہنچ سکتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی بلوچ سوشل میڈیا کارکناں بلوچ قومی آزادی کے موقف کو دنیا میں پہنچانے میں ناکام رہے، اس کی ایک وجہ بلوچستان میں سوشل میڈیا کا استعمال میں عام لوگوں کی پرہیز اور باہر کم تعداد میں بلوچوں کا رہائش پذیر ہے۔ بلوچستان میں عام لوگ سوشل میڈیا میں بلوچ آزادی پسندوں کے موقف کو ظاہر کرنے سے ڈرتے ہیں، اگر کوئی ان کی حمایت میں کچھ الفاظ ادا کرے تو انہیں جلد لاپتہ کیا جاتا ہے۔ اس لیئے اپنے اوریجنل نام سے کوئی بھی ملک میں رہنے والا بلوچ بلوچ آزادی کی بات نہیں کرتا جبکہ باہر ملکوں میں بلوچوں کی تعداد کافی کم آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس لیئے بلوچوں کی جنگ آزادی کا موقف اور پاکستانی فوج کے وحشیانہ اعمال دنیا کے سامنے آشکار نہیں ہوتے۔ بلوچستان ایک ایسا جنگ زدہ خطہ بن چُکا ہے، جہاں ایک بھی دن بغیر پاکستانی فوج کی آپریشنوں اور دہشت گردی سے نہیں گذرتا، آئے دن سینکڑوں کی تعداد میں معصوم لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں گھروں کو بمباری سے تباہ کیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر عام لوگوں پر جبر، تشدد اور زیادتیاں آج بلوچستان کے ہر کونے میں جاری و ساری ہیں۔

‎گھروں پر بمباری، لوگوں کی جبری گمشدگیاں، گاؤں کے گاؤں کو مسمار کرنا، سی پیک کے نام پر لاکھوں بےگناہ لوگوں کو بے گھر کرنا اور اس جیسے کئی زیادتیوں کے باوجود عالمی میڈیا سمیت پاکستانی میڈیا بلوچستان میں ہونے والے جبر، ظلم اور وحشت کو کوریج دینے میں ناکام رہی ہے۔ بلوچستان میں تو مکمل میڈیا بلیک آؤٹ ہے، جہاں پاکستانی درندہ فوج نے پچھلے آٹھ سالوں کے دوران 44 جرنلسٹوں کو قتل کر دیا ہے، جنہیں پہلے گمشدہ کر دیا گیا تھا، بعدازاں ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف کونوں سے برآمد ہوئے ہیں، یہ وہ ایماندار صحافی حضرات ہیں، جنہوں نے بلوچستان میں پاکستانی فورسز کے وحشت کے بارے میں دنیا کو آگاہی دینے کی کوشش کی، آج بھی بلوچستان میں کوئی بھی صحافی حقیقی بنیادوں پر صحافتی ذمہ داریاں سر انجام نہیں دیتا کیونکہ بلوچستان کی حقیقت دنیا کے سامنے چھپی ہوئی ہے، جسے پاکستان کسی بھی صورت دنیا کے سامنے اجاگر نہیں کرنا چاہتا۔

بلوچوں کا موقف پاکستانی قبضہ کے دن ہی سے آزادی کا رہا ہے جہاں چھوٹے موٹے بغاوتیں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں، جنہیں پاکستانی قابض فوج جبری طاقت سے ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن چونکہ پاکستانی قبضہ ہی غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر فطری رہا ہے اس لیے باشعور بلوچ نے کبھی بھی پاکستانی قبضہ کو قبول نہیں کیا ہے۔

‎آخرکار 2000 میں کافی تعداد میں پڑھے لکھے بلوچ نوجوانوں نے سائنسی بنیادوں پر اس جنگ کا آغاز کیا، جس کو مٹانے میں پاکستان ناکام رہی ہے کیونکہ اب یہ جنگ عام پڑھے لکھے ڈاکٹرز، اینجنیئرز، فلسفہ دان، اُستاد، دانشور اور ادیب لڑ رہے ہیں۔ پاکستان جنگ کو مٹانے میں تو ناکام رہی لیکن پاکستانی ایجنسیاں بلوچ قومی موقف کو دنیا سے چھپانے میں ایک حد تک کامیاب رہی ہیں۔ آج شاید آزادی کیلئے دنیا میں سب سے منظم اور ایماندری سے لڑی جانے والی بلوچ واحد تحریک ہے جس پر نا کسی سامراج کا آشرباد ہے ناکہ یہ جنگ کوئی پراکسی وار ہے، اکیسویں صدی میں شاید یہ پہلی جنگ ہے جو قومی آزادی کیلئے عوامی بنیاد پر لڑی جا رہی ہے اس پر ریاست ہمیشہ سے پروپگنڈا کرتی آ رہی ہے کہ بلوچوں کو انڈیا اور دوسرے ملکوں کا سپورٹ حاصل ہے لیکن حقیقت میں انڈیا اور دوسرے ممالک کی میڈیا میں بلوچستان میں آئے دن اور روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی ظلم و وحشت کو کوریج نہیں دیا جاتا، اس لیئے یہ کہنے میں میں حق بجانب ہونگا کہ یہ جنگ پیچھلے بیس سالوں سے پڑھے لکھے مخلص جہدکار عوامی حمایت سے لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی وحشت اور جبر تو پہلے سے ہی بلوچستان کے ہر کونے میں زور و شور سے جاری تھے لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بعد ان زیادتیوں میں کافی تعداد میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے، خاص کر مکران ریجن سے جہاں سی پیک گزرتی ہے وہاں کوئی بھی علاقہ اب سلامت بچی نہیں ہے، سی پیک پر سے گزرتا ہر علاقہ ریاست نے مسمار کر دیا ہے، جہاں کے لوگ بے گھر ہوکر بلوچستان کے مختلف کونوں میں دربدری کی زندگی گذار رہے ہیں۔

پاکستان اب چین کے ساتھ ملکر بلوچستان پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے، چین جو اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، وہیں پاکستان جانتا ہے کہ ایک دن بلوچ اپنی آزادی لینے میں کامیاب ہونگے، اس لیئے بلوچستان کو چین کے ہاتھوں بیچ دیا ہے، اس لیئے اب بلوچ چین کو اپنی بقاء کے لیے بہت بڑا خطرہ محسوس کرتی ہیں جو کسی بھی صورت میں چین کو یہاں سے بھگانا چاہتی ہیں۔

‎ بلوچ سوشل میڈیا کارکنان، آزادی پسند پارٹیاں، مسلح تنظیمیں، کئی مرتبہ چین کو اپنے بیانوں میں تنبیہہ کر چکے ہیں کہ وہ بلوچستان میں اپنا سرمایہ بند کر دیں، جو بھی سامراجی منصوبے پاکستان کے ساتھ طے پائے ہیں انہیں ختم کر دیں لیکن چین نے ہمیشہ پاکستان کے جھوٹوں میں آکر بلوچ آزادی پسندوں کے موقف کو نظرانداز کیا ہے۔ کل کراچی میں چینی قونصل خانہ پر حملہ چین کو ایک واضح پیغام ہے کہ بلوچستان میں اُنہیں سرمایہ کاری مہنگا ثابت ہوگا، اس لیئے برائے مہربانی پاکستان پر بھروسہ کرتے ہوئے مزید نقصانات اُٹھانے کے بجائے یہاں سے اپنا بوریا بستر اٹھا کر رفو چکر ہو جائیں، ورنہ انہیں مزید حملوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، چینیوں پر بلوچوں کا یہ پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی بلوچستان میں چینی اہلکاروں پر حملے ہوتے آ رہے ہیں کل کا بڑا حملہ انہی کا ایک تسلسل تھا چینی اینجینرز پر 2005 میں بھی حملہ ہوا ہے چونکہ چین بلوچستان میں اپنے اُوپر حملوں کو چھپا رہی تھی، کراچی میں حملے سے کچھ ہی مہینوں پہلے چینی اینجینرز پر دالبندین کے مقام پر فدائی حملہ ہوا تھا، جہاں اُستاد اسلم کے بیٹے شہید ریحان جان نے چینی اینجینرز کو نشانہ بنایا۔ جسے اچھی طرح میڈیا کوریج نہیں ملی تھی، حملے میں تین چینی اینجینرز سمیت پاکستانی فوج کا ایک اہلکار بھی مارا گیا تھا لیکن پاکستانی میڈیا نے بات کو چھپایا جبکہ کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کو میڈیا میں چھپانے سے پاکستان ناکام رہی اور پوری دنیا نے اس حملے پر کوریج دی اور چین حوالے بلوچوں کا موقف پوری دنیا میں سنائی دیا۔

اس حملے کے بعد چین کو یہ ادراک کرنا چاہیئے کہ بلوچ کسی بھی طرح چین کو بلوچستان میں آسانی سے سرمایہ کاری کرنے نہیں دینگے چین کی توسیع پسندانہ عزائم سے آج بلوچ اچھی طرح سے واقف ہیں جو کسی بھی طرح چین کو یہاں آسانی سے رہنے نہیں دینگے، چین جتنی جلدی یہ سمجھنے میں کامیاب رہے گا اس کیلئے اتنا ہی فائدہ مند رہے گا، بلوچ کا چین سے کوئی دشمنی نہیں لیکن بلوچ کبھی بھی کسی بھی سامراج کو یہ اجازت نہیں دینگے کہ وہ ان کے زمین پر قبضہ کریں بلوچ ایک زندہ قوم ہے جس کی تاریخ نو ہزار سال پرانی ہے چین کو بلوچستان پر پاکستانی قبضہ کو سمجھتے ہوئے اور بلوچوں کی جدوجہد آزادی کو مانتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنے رشتوں کو توڑنے کی ضرورت ہے تاکہ چین مزید نقصانات سے بچ سکیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔