میرا استاد میرا سنگت، حئی – بدل بلوچ

302

میرا استاد میرا سنگت، حئی

تحریر: بدل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حئی وہ سنگت، وہ استاد تھا جس نے اصل زندگی سے واقف کیا، جس نے سکھایا کے اصل زندگی کیا ہوتا ہے، جس نے بھٹکتے راستوں سے ہاتھ پکڑ کر مقصد کے راستوں پے گامزن کیا جس نے سکھایا آزادی کیا ہوتا ہے، حئی وہ سنگت تھا ہم جیسے ناسمجھ انسانوں کو سمجانے میں اپنا کردار ہر پل ادا کرتا رہا، حئی یہی چاہتا تھا کہ میں جو سوچ اپنے قوم، اپنے ملک، اپنے مظلوم ماؤں کیلئے رکھتا ہوں، ایسے ہی آنے والی نسلوں کو غفلت کی نیند سے جگا کر انہیں بیدار کرنا ہے اور سمجھانا ہے کہ ہم دشمن کے قید میں قید نہ ہوکر بھی قید ہیں۔

ہمارے بچپن میں حئی ایک سنگت، ایک استاد کی حیثیت سے رہے۔ کھیل کے میدانوں میں جب کبھی ہمیں دیکھتا تو آکر پیارے انداز سے ہمیں اپنے پاس بلا کر باتوں باتوں میں ہدف آزادی کے ٹاپک پر باتیں کرتا، گوریلوں کے قصے سناتا، کبھی شہید سنگت بالاچ کی باتیں کرتا کہ سنگت بالاچ ایک ایسا گوریلا سنگت تھا، جس نے اپنی جان ہمارے آنے والی نسلوں کیلئے قربان کیا، اب ہمیں اس کارواں کا حصہ بننا ہے، اپنے قوم، اپنے مادر وطن، کیلئے ایک نئی صبح کو روشن بنانا ہے، اپنے قوم کے ساتھ مل کر سامراج کے مکروہ چہرے کو فاش کرکے ڈٹ کر لڑنا ہے۔ اپنے ماوں کے تار تار کیئے ہوئے چادر کو بچانا ہے، اپنے بہنوں کے دل سے سامراج کے خوف کو دور کرنا ہے کہ کل ہماری مائیں، بہنیں آنے والی نسلیں خود مختاری کی زندگی بسر کریں، آزادی کی سانس لے سکیں۔

وہ آزادی حاصل کرنے کیلئے ہماری جان و مال سب کچھ جا سکتا ہے، ہم اگر آنے والے بہاروں کو نہیں دیکھیں گے، ہماری آنے والی نسلیں تو ضرور بہاروں کو دیکھیں گے، بنا خوف، بنا ڈر کے زندگی گزارینگے. حئی ہم کو خود کی طرح بلند کرنا چاہتا تھا، حئی بلند تھا حئی آج بھی بلند ہے اور ہمیشہ ہی بلند رہے گا۔

سنگت حئی جیسا استاد ہی تھا، اس دور میں جو ہمیں 10سال کے عمر میں ایسے ترجیح دیتا۔ جو ہمیں بچپن سے ہی اپنے مادر وطن، اپنے مظلوم قوم کیلئے قربان ہونے کو تیار کرتا رہا، ہمیں مقابلہ کرنے کی سوچ عطا کرتا رہا، اس استاد کی تعلیمات کے بدولت آج ہم اس مقام پے آ پہنچے ہیں کہ اپنے اوپر ہوئے مظالم کو اچھے طریقے سے جان رہے ہیں، دشمن کے مکرو فریب زدہ عمل سے بغات کر بیٹھے۔

یہ اسی حئی کی مہربانی رہی، ورنا ہم جیسے نالائق، نا سمجھ، انسان وہی غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے ہوتے، وہی اسکول کے “سر” کے ایک ہی آواز دینے پر پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر لگانے کیلئے لبیک کرتے. اسکول پروگراموں پر چودہ اگست پر 23 مارچ پر سینے پر بیج لگا کر خواب غفلت میں رہتے۔
ایسے ہی حالات میں خود کو پہچان نہ پاتے، زندگی کو بنا مقصد سطحی چیزوں پر گزار لیتے، کہیں کسی سردار، میر ومعتبر کی چاپلوسی میں مشغول، اپنے ہی بھائی کا گلہ دبوچنے کی طاق میں بیٹھے ہوتے اور بلوچستان میں لگی اس آگ کی لپیٹ میں آہستہ آہستہ آکر زنگ آلود اپنے زہنوں کے ساتھ مر سڑ جاتے تب بس افسوس کر پاتے۔

لیکن سنگت حئی کہتا کے اصل انسان وہ ہے، جس کے ساتھ کوئی مقصد ہو، جو مقصد مظلوم قوم کیلئے ہو، مظلوم قوم کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے ہو، ہم نے انہی الفاظ سے سیکھا کہ زندگی اتنی چھوٹی نہیں کے ایک خاندان کے گرد گھومتی رہے۔

آخر استاد بھی اپنے لیکچروں میں کامیاب ہوا، ہمیں بہت آگے لیکر کر آگیا، جس دن ہڑتال کا اعلان ہوتا، وہ ہرگلی میں ہمیں ڈھونڈتا، گھروں سے نکال کر سمجھاتا، وہ ہم سب کو سنگت کہہ کر پکارتا، ایک شام کو میں اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھ کر اسکول کا کام کررہا تھا، گیٹ پر دستک کی آواز آئی، میں اٹھ کر دروازے کی طرف روانہ ہوا کہ امی نے روک لیا، کہا بیٹا آپ اپنا کام کرو، میں دیکھتی ہوں کون ہے۔ میں پھر بیٹھ کر اسکول کا کام شروع کیا، پھر سے امی کی آواز آئی بیٹا آجاؤ آپ کو حیو بلا رہا ہے، میرے دل پر عجیب سی کیفیت چھا گئی، ہم ایسے موقعے روز خدا سےمانگتے تھے کہ حئی ہمیں اپنے ہر کام کیلئے بلائے، خوشی کی کیفیات دل میں اتر رہے تھے، جب میں حیو کے پاس پہنچا مجھے گلے لگا کر امی کو آواز دی میں آپ کے بیٹے کو لےکر جارہا ہوں، پھر خود ہی لے آونگا، اب سنگت حئی میرے کاندھوں پہ ہاتھ رکھ کر باقی سنگتوں کے جانب روانہ ہوا۔

ہم میرے ہم عمر باقی سنگتوں کو بھی پہنچ گئے، تھوڑی سی ہنسی مزاق کرنے کے بعد سنگت حئی نے کچھ سننے کو کہا، سب سنگت خاموشی سے حئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ سنگت حئی نے کہا سنگت آپ لوگوں کو پتہ ہے کل ہڑتال کا اعلان ہے، جس کو ہمیں کامیاب بنانا ہے، اس کے لیے تیار رہنا۔

استاد حئی نے ہمیں ہڑتال کیلئے تیار کیا اور سمجھایا وہاں اگر تم میں سے کوئی بھی مجھے دیکھے تو آواز مت دینا، ہڑتال کے بعد ہم پھر ملینگے۔ سب ساتھیوں کو سمجھا کر میرا نام لیکر، میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے، میں اس سنگت کو اس کے گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔ بس کل کیلئے تیار ہونا، ہم سب ساتھیوں سے رخصت کرکے استاد نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر قہقہے لگانے کے ساتھ میرے گھر کی طرف روانہ ہوا، مجھے میرے گھر پر پہنچا کر، ہنسی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا سنگت کل پھر ویسا ہی کرنا جیسا میں نے کہاں۔

اگلی صبح میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ چاندنی چوک پر پہنچ کر ریلی کے ساتھ شامل ہوئے، میں نے نظر پھیرا تو استاد حئی جان کے چہرہ سرخ رنگ کے چادر سے لپٹا ہوا تھا، استاد حئی کی آنکھوں کو دیکھ کر میں استاد کو پہچان گیا، اب میرا استاد آگے آگے جارہا تھا، مجھے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ آگے آتے رہو ہڑتالی ریلی چاندنی چوک سے چمروک تک پھر وہاں سے مین آر سی ڈی روڑ سے پھر یوں بازار کی طرف روانہ ہوا۔ اسکا چہرہ چھپانے کے پیچھے راز یہی تھا کہ وہ اور کام کرنا چاہتا تھا۔ دشمن کو اور نقصان پہنچانا چاہتا تھا، دوپہر کے بعد سنگت نے اشارہ کیا اب تم ساتھیوں کو نکال کر چلے جاو، مجھے جیسے ہی اپنے استاد کا اشارہ ملا میں ساتھیوں کو بیدار کرکے وہاں سے نکل گیا۔

اس ہڑتال کے بعد سنگت ہم سے دور چلے گئے، کسی کام کیلئے بہت دن تک سنگت سے ملاقات نا ہو پائی، پھر سنگت اپنا کام مکمل کرکے واپس شہر آیا، وہ ہمیں بس اپنے آپس کے باتوں سے واضح کرتے، ہمارے لیئے ہمارے سنگتوں کیلئے الگ ساہ رُتبہ بنایا ہوا تھا، ہم بس آپس میں راز دار تھے، نا کسی کو پتہ تھا کہ حئی ان کو تربیت دیتا ہے یا دیا ہوا ہے، وہ گوریلا تھا جو اپنے کام میں ماہرتھا۔

پھر قسمت میں یوں ہوا کے سنگت اچانک ہم سے وقت و حالات کے مطابق، بنا بتائے بہت دور چلے گئے، مگر دل او دماغ سے دور نہیں گئے۔

استاد کی جانے سے کچھ دن پہلے میں صبح اسکول کیلئے روانہ ہوا، گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا کہ اچانک استاد اپنے گاڑی کو میرے قریب روک کر آواز دی ( سنگت بر کان ای دیوا نے ) میں گاڑی میں بیٹھ کر سنگت کا ہاتھ لیکر حال حوال کرنے لگا۔ حال حوال کرنے کے بعد میں نے کہا، سنگت ایک بات پوچھوں آپ سے؟ سنگت نے مسکرا کر کہاں جی بلکل سنگت پوچھو۔ سنگت آپ بتاو آپ کہاں گئے تھے؟ جو آپ اتنا مجبور تھے کہ ہمیں بنا بتائے گئے اور میں تو سمجھا تھا کہ اب آپ پھر کبھی بھی نہیں آوگے۔

استاد مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہنے لگا، بس سنگت ایسے مجبوری ہوتے ہیں، جن کو بتانا مناسب نہیں ہوتا ہے، بس اس وجہ سے کچھ کہہ نہیں پایا اور مجے پتہ نہیں تھا کہ میں اچانک چلا جاونگا۔ استاد نے مجھے چپ رہنے پر مجبور کیا۔

پتہ نہیں تھا کے یہ ملاقات میرا استاد سے آخری ملاقات ہوگی اور یقیناً استاد کو خود پتا نہیں تھا یہ ہمارا آخری ملاقات ہے، اس جہاں میں، استاد نے مجھے اسکول کے سامنے جھوڑ کر رخصت کیا۔

کچھ دن بعد سنگت ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے، کچھ پتا ہی نہیں چلا کہاں گیا ہمارا استاد، ہم کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتے تھے، وقت و حالت بگڑ گئے۔ کئی بار دشمن نے سنگت کے گھر پر حملہ کیا، پہلے دشمن نے ان کے بھائی سنگت مجید کو شہید کیا، جو ہمارے لیے سنگت کی سی اہمیت رکھتا تھا، پھر سنگت کے ابو جان محترم حاجی رمضان کو شہید کیا گیا۔ دشمن جانتا تھا کہ اب تک اس پر کوئی اثر نہیں آیا، پھر اسکے ماموں کو شہید کیا گیا، مگر اس بار پھر بھی دوشمن ہار گیا، ہمارے استاد کے ہمت و حوصلوں کو کم نا کر سکا، دشمن اسے ہرانا چاہا، مگر خدا اسے اور بلند کرتا رہا، وقت و حالات کی وجہ سے سنگت کی فیملی نقل مکانی کے سبب شہر در شہر بھٹکتے رہے۔

2013 نومبر کے 6 تاریخ کو ابو کو اسکے کزن کا کال آیا، حئی 2012 6 نومبر کو ایک مشن بیرگیر میں شھید ہواتھا، جس کو تنظیم نے حکمت عملی کے تحت چھپایا تھا، جو آج تنظیم نے اسکی شہادت کے متعلق بیان دیا۔ ابو نے فون کاٹتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا حئی ہم سے جدا ہوگئے۔

استاد کی شہادت نے بس صرف چپ ہونا ہی سکھایا، اپنے گزرے ہوئے یادیں یاد دلاتا رہا، سب سے الگ بیٹھ کر وہ لمحات یاد کرتا رہا جو ہمیں ہمارے استاد نے دیئے تھے، اکثر میں کسی پہاڑی کے دامن میں جاکر اپنے استاد کی وہ کُوک سنتا رہا جو وہ شھید حق نواز کو بڑے پیارے لہجے سے بلاتا رہتا تھا، کھبی سنگت کو خود کے پاس بیٹھتے ہوئے دیکھتا، مسکراتے چہرے کے ساتھ دیکھتا، جو مجھے ہمت بخشتی، میرے حوصلے بلند کرتا، مجھ میں جان لے آتا۔

سنگت کی باتوں نے حقیقت پر گامزن کیا، اب یوں بیٹھ کر صرف سوچنا نہیں بلکہ سنگت کے چنے ہوئے راستے پر نکلنا اور چلنا ہے۔

استاد کے کاروان کے ساتھ سفر پر نکلا ہے، آخر ان پہاڑوں کو آ پہنچا، جہاں میرے استاد کے قدموں کے نشان اب بھی باقی ہیں، جہاں ہر نئی صبح کی سورج نکلتے ہی بزگل کی وہ اداس آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو ہر صبح میرے سنگت، میرے استاد کے انتظار میں رہتے تھے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔