‘اسرائیلی طیارے کا معاملہ حکومت سے متعلق ہمارے موقف کی تائید ہے’

115

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیارے کا معاملہ ملک کی موجودہ حکومت سے متعلق ہمارے موقف کی تائید ہے۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اس وقت سوشل میڈیا پر اسرائیلی طیارے کے پاکستان آنے کا بہت زیادہ ہنگامہ ہے کہ لیکن حکومت اس کی وضاحت نہیں کر رہی اور مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘میڈیا کے کئی سینیئر اینکرز بھی حکومت سے معاملے پر وضاحت کا کہہ رہے ہیں تو یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسا میں کہا کرتا تھا کہ ‘تصور جاناں بنے گی’، جبکہ تمام صورتحال گھمبیر ہے اور زیر زمین چیزیں سامنے آرہی ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم یہ باتیں ایسے ہی نہیں کیا کرتے تھے اور سامنے آنے والے تمام معاملات ہمارے موقف کی تائید ہے۔’

واضح رہے کہ اسرائیلی صحافی ایوی شیراف نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ‘اسرائیلی طیارے نے تل ابیب سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھری جبکہ 10 گھنٹے بعد واپس تل ابیب کی پرواز کی’۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد افواہ ہے، اسرائیلی طیارہ پاکستان کے کسی ائیر پورٹ پر نہیں اترا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو اپوزیشن کو جکڑنے کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘نیب کو پرویز مشرف کے دور میں بھی سیاسی انتقام کے لیے بنایا گیا تھا اور جب اٹھارہویں ترمیم میں بھی اسے برقرار رکھا گیا تو میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہی ہیں۔’

این آر او کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘آج جو اپوزیشن جماعتوں کی صفوں سے نکل کر حکومت میں چلے گئے ہیں ان کے ساتھ تو این آر او ہوچکا ہے، یہ لوگ اربوں، کروڑوں روپے کے غبن میں ملوث ہیں اور نیب کو بھی مطلوب ہیں لیکن حکومت میں وزیر بھی ہیں، جب یہ لوگ احتساب کی بات کرتے ہیں تو شریف آدمی کو شرم آجاتی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور دوسرے ہی لمحے کہتے ہیں کہ نیب آزاد ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیب آزاد نہیں ہے اور یہ مرضی ہے کہ وہ کس کو کہاں گھسیٹیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک ہماری سیاست ہے اور ایک اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ہے، کسی کے خلاف بھی انتقام کے لیے مقدمہ بنانا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ہے جو ملک میں چل رہی ہے۔’