آزادی حاصل کرنے والے چار خوش و بد نصیب ممالک اور بلوچستان ۔ خالد بلوچ

346

آزادی حاصل کرنے والے چار خوش و بد نصیب ممالک اور بلوچستان

تحریر۔ خالد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

دوسری جنگِ عظیم کے بعد یعنی 73سالوں میں ان چار آزادی کی تحریکوں نے کامیابیاں حاصل کیں جن میں بنگلہ دیش، جس نے 1971 میں پاکستان سے آزادی حاصل کی، اریٹیریا جس نے ایتھوپیا سے 1993میں آزادی حاصل کی، مشرقی تیمور جس نے انڈونیشیا سے 2002میں آزادی حاصل کی اور ساوتھ سوڈان جس نے کچھ سال قبل یعنی 2011میں سوڈان سے آزادی لیکر اپنی آزادانہ شناخت کو قائم رکھا۔

ہمیں یہ بھی زہن نشین کر لینا چاہئے کہ یہ تمام تحریکیں مسلح جدوجہد کی وجہ سے ہی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، اسکی وجہ خطے کے حالات بھی تھے۔ دوسری جنگَ عظیم کے بعد سے اب تک کوئی بھی قوم پُر امن طریقے سے اپنی آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی بہت سے ممالک مسائل کا شکار رہتے ہیں، ساوتھ سوڈان اور سوڈان کے درمیان اب تک کچھ علاقوں کو لیکر جھگڑا پایا جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی مطالعہ کرنا چایئے کہ جنگِ عظیم کے بعد جن قوموں نے آزادی حاصل کیں آیا وہاں لوگوں کی معیارِ زندگی میں بہتری آئی کہ نہیں، مطلب آزادی سے قبل انکی معیارِ زندگی کیسی تھی اور آزادی حاصل کرنے کے بعد انکی حالتِ زندگی میں کیا کیا مثبت تبدیلیاں آئیں۔

بنگلہ دیشن کی دو نسلیں اب تک اپنی آزاد ریاست میں زندگی بسر کر رہی ہیں، جبکہ تیمور اور ایریٹیریا کی ایک ایک نسلیں اپنے آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں جبکہ ساوتھ سوڈان کی موجودہ نسل آزادی کی فضا میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس تحریر میں میں اُن چار ممالک کے حالات پر مختصراً روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد وجود میں آئے۔ اور آخر میں بلوچستان کی تحریک آزادی کے درپیش مشکلات و مسائل کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں گا۔

مشرقی تیمور

مشرقی تیمور کو سولہویں صدی میں پرتگال نے قبضہ کرکے اس کا نام پرتگالی تیمور رکھا اور یہ قبضہ اٹھائیس نومبر 1975تک برقرار رہا۔ قبضے کا خاتمہ مسلح جدوجہد کے بدولت ممکن ہوا۔ جبکہ پرتگال کے قبضے سے نکلنے کے بالکل نو دن بعد ہی انڈونیشیا نے مشرقی تیمور پر دھاوا بھول دیا اور اس پر مکمل قبضہ جماتے ہوئے اسے اپنا 27واں صوبہ قرار دیا۔ ۔ مشرقی تیمور پر قبضہ کرنے کا آغاز اُس وقت ہوا جب 16اکتوبر 1975میں انڈونیشیا کی جانب سے پانچ صحافیوں کو قتل کردیا گیا، جو وہاں حالات کا جائزہ لینے گئے تھے۔ انڈونیشیا نے بھی وہی سب کچھ کیا جو ایک قابض کرتا ہے، یعنی سب سے پہلے یہ کوشش کی گئی کہ مشرقی تیمور میں بڑی تعداد میں انڈونیشیا سے لوگوں کو لاکر آباد کیا جائے، اس منصوبے میں 1لاکھ پچاس ہزار انڈونیشیاء کے صوبے مغربی تیمور سے لوگوں کو مشرقی تیمور میں آباد کیا گیا۔

دہائیوں تک مشرقی تیمور کی آزادی پسند مسلح تنظیم فری ٹی لن (Fritilin) اور انڈونیشیا کی مسلح افواج کے درمیان جنگ جاری رہی اور اس دوران دونوں اطراف جانی و مالی نقصانات ہوئے۔ لیکن سب سے زیادہ نقصانات یقیناً مشرقی تیمور کوہی اٹھانا پڑا۔ جہاں بہت بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ، بے گھر اور قتل کیئے گئے، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی گئیں، مشرقی تیمور کے عورتوں کو بچے پیدا کرنے سے روکنے کےلیے بندوق کی زور پر نس بندی کرانے پر مجبور کیا گیا۔ مشرقی تیمور میں انڈونیشیا کے اُس وقت کے صدربیکار الدین جوسف حبیبی) بی جے حبیبی( نے مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کرانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے اُس وقت کے جنرل سیکرٹری کوفی عطا عنان کو درخواست کی، جبکہ انڈونیشیا کے مسلح افواج ملکی صدر کے اِس فیصلے سے نہ خوش تھے۔ ریفرنڈم میں مشرقی تیمور کے باشندوں کو دو آپشنز دیئے گئے جن میں وسائل پر زیادہ سے زیادہ اختیارات اور مکمل آزادی شامل تھے۔ ریفرنڈم اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں 30اگست 1999کو منعقد کرائے گئے جس میں 78.50فیصد لوگوں نے انڈونیشیا سے آزادی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

جنگ کے نقصانات

ایک اندازے کے مطابق آزادی حاصل کرنے سے قبل مشرقی تیمور کی آبادی کا ایک چھوتائی حصہ یعنی دو لاکھ کے قریب لوگ لاپتہ یا قتل کیئے جاچکے تھے۔ ریفرنڈم کے نتائج کے بعد انڈونیشیا کے مسلح افواج نے 1400عام شہریوں کا قتل عام کیا اور تین لاکھ لوگوں کو زبردستی انڈونیشیا کے صوبے مغربی تیمور بحیثیت پناہ گزین منتقل کیا۔ جبکہ آزادی کے ردِ عمل میں انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کی عمارتوں کا ستر فیصد حصہ تباہ کردیا تھا۔ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے اپنے فورسز مشرقی تیمور بھیجے جن میں اکثریت آسٹریلین فورسز کی تھی، جنہوں نے حالات پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔

معیشت
آزادی کے اعلان سے ایک سال قبل تک اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی میں مشرقی تیمور کی کل آبادی کے 33فیصد لوگ غربت کی زندگی گزار رہے تھے، بد قسمتی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی مشرقی تیمور میں لوگوں کی معیارِ زندگی میں نمایاں فرق نظر نہیں آیا، یہاں تک کہ 2007میں اقوامِ متحدہ کے فورسز کا مشرقی تیمور سے انخلاء کے بعد بھی ملکی معیشت میں کوئی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملی، جب سرمایہ داروں کو یہ موقع بھی حاصل تھا کہ مشرقی تیمور اب مستحکم ریاست کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق مشرقی تیمور کی کل آبادی کا 50فیصد انتہائی غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ ملک جنوب مشرقی ایشیا کا غریب ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کے بعد مشرقی تیمور میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا ہے اور لوگوں کی معیارِ زندگی بنسبت پہلے سے کافی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ مشرقی تیمور آزادی کے بعد سے اب تک کسی بھی جنگ کا حصہ نہیں بنا ہے۔2014میں منعقد کیئے گئے ایک سروے رپورٹ کے مطابق مشرقی تیمور میں غربت میں انتہائی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔

ایریتریا
ایریتریا دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایتھوپیا کا حصہ بنا، اس سے قبل ایتھوپیا اور ایریتریا دونوں ہی اٹلی کے قبضے میں تھے۔ ایتھوپیا نے ایریتریا کو اپنا حصہ قرار دیا اور اقوامِ متحدہ نے بھی اس دعوے کو مانتے ہوئے 1950میں ایریتریا کو ایتھوپیا کا صوبہ قرار دیا۔ ایتھوپیا کو 1980تک سوویت یونین کی حمایت اور مدد حاصل رہی۔

ایریتریا نے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک مسلح تنظیم Eritrean People’s Liberation Front)) کی بنیاد رکھی اور ایتھوپیا کے خلاف مسلح جنگ کا اعلان کردیا۔ 30سال مسلح جدوجہد کے بعد ایریترین پیپلز لبریشن فرنٹ نے ایتھوپیا کے مسلح افواج کو شکست سے دوچار کردیا اور ایتھوپین پیپلز روولیشنری ڈیموکریٹک فرنٹ کے ساتھ مل کر ایتھوپیا کے دارالحکومت اددیس ادابا Addis Adaba)) کا کنٹرول سنبھال لیا۔

اپریل 1993میں ایتھوپیا کے حمایت سے آزادی کے لیے ریفرنڈم منعقد کیئے گئے، جس میں ایریتریا کی اکثریت آبادی نے آزادی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ایریتریا کی آزادی کے لیے دو مسلح تنظیموں نے ایتھوپیا کے خلاف جنگ لڑی جن میں ایریترین پیپلز لبریشن فرنٹ اور ایریترین لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔

جنگ کے نقصانات
ایریتریا اور ایتھوپیا کے درمیان ہونے والی اس تیس سالہ جنگ میں قریب ایک لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے جن میں ساٹھ ہزار مسلح اور چالیس ہزار عام لوگ شامل تھے۔ جبکہ ایک ملین سے بھی زائد لوگوں نے نقل مکانی کرکے سوڈان کا رخ کیا۔

1998 سے 2000 تک ایتھوپیا اور ایریتریا بارڈر پر پھر سے ایک مرتبہ جنگ کا آغاز ہوا اور یہ جنگ دو سال تک جاری رہا جس میں ایریتریا کو شدید نقصالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ کے دوران ایریتریا کے 3لاکھ 70ہزار لوگ متاثر ہوئے جن میں سے بیشتر یا تو مارے گئے یا لاپتہ ہوئے۔ اس جنگ کے بعد سے اب تک دونوں ممالک اب تک کسی جنگ کا حصہ نہیں رہے ہیں۔

معیشت
ایریتریا نے آزادی کے ابتدائی مراحل یعنی 1993میں اپنی حکومت تشکیل دیتے ہوئے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے اوران میں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ لیکن بدقستمی سے 1998میں ایتھوپیا کے ساتھ بارڈری جنگ نے ایریتریا کی معیشت کو تباہ کردیا اور تب سے آج تک ایریتریا پھر سے اپنی معیشت کو بہتری کی جانب لے جانے میں بُری طرح ناکامی کا شکار ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ایریتریا کی کل آبادی کا 50فیصد یا اس سے بھی زیادہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ ایریتریا اپنی آزادی حاصل کرنے کے بالکل پانچ سال بعد ہی ایک دوسری جنگ کی جانب چلا گیا تھا جس کی وجہ سے اسکی معیشت پوری طرح سے تباہی کی جانب چلی گئی۔ یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں ایریتریا کے پناہ گزینوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جو ملک کے جنگی صورتِ حال سے بچنے کے لیے دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

جنوبی سوڈان
جنوبی سوڈان دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والی ایک نئی ریاست ہے، جس کی کل آبادی 11ملین پر مشتمل ہے۔ اس نئی ریاست کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔اس ملک نے 9جولائی 2011کو سوڈان سے آزادی حاصل کی۔ آزادی سے قبل یہ ملک سوڈان کا حصہ تھا۔ لیکن چونکہ ساوتھ سوڈان کی اکثریت آبادی عیسائی اور Animist))ا یعنی مظاہر پرست جن کا عقیدہ مختلف چیزوں پر ہوتا ہے، جیسے کے پہاڑ، سمندر، جانور، آسمان سورج وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ جبکہ شمالی سوڈان کی اکثیرت آبادی عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

سوڈان میں پہلی خانہ جنگی 1955سے لیکر 1972تک جاری رہی، اس جنگ کی قیادت شمال میں عرب حکومت کر رہی تھی تو دوسری جانب جنوب میں عیسائی اور مظاہر پرست خارتووم حکومت کے خلاف برسرِ پیکار تھے، جن کا مقصد علاقائی خودمختاری اور حکومت میں نمائندگی حاصل کرنا تھیں۔ اس جنگ کا خاتمہ علاقائی خودمختاری کے ساتھ ہوا۔ شمالی سوڈان نے جنوب کو مزید اختیارات دیئے جس کی وجہ سے ایک جنگ کا عارضی طورپر خاتمہ ہوا۔ لیکن ایک بار پھر سے 1983میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ جسکی وجہ خارتووم حکومت کی رویہ بنی، جس نے جنوب کی خودمختاری پھر سے چھین لی، جس کے ردِ عمل میں جنوب نے خارتووم حکومت کےخلاف مسلح گروہ تشکیل دیئے اور یہ سلسلہ خانہ جنگی کی جانب چلتا گیا۔ اس بار یہ خانہ جنگی طویل مدت اختیارکر گیا اور افریقہ میں طویل ترین خانہ جنگیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے جس کا خاتمہ 2005میں ممکن ہوا۔ خانہ جنگی کا خاتمہ ساوتھ میں آزادی کے ریفرنڈم کے ساتھ ممکن ہوا۔ اور اس طرح 2011میں ریفرنڈم منعقد کرائے گئے جس میں 98فیصد لوگوں نے جنوبی سوڈان کی آزادی کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کیا۔

ساوتھ سوڈان کی آزادی کے پیچھے دو اہم پہلو کارفرما ہیں، پہلا یہ کہ امریکہ چاہتا تھا کہ جنوبی سوڈان ایک آزاد ریاست بنے اور دوسرا یہ کہ نورتھ سوڈان جوکہ عرصہ دراز سے مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو مدد فرائم کرتارہا ہے جو کہ امریکہ سمیت بہت سے ممالک کے لیے باعث پریشانی تھا، امریکہ نے جنوبی سوڈان کی آزادی کی حمایت کرتے ہوئے ایک طرح سے سوڈان کی عرب حکومت پر بین القوامی دباو بڑھایا ہے۔

جنگ کے نقصانات
جنوبی سوڈان میں آزادی سے قبل سوڈان سول وار میں پہلی خانہ جنگی کے دوران یعنی 1955سے 1972تک پانچ لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، جبکہ دوسری خانہ جنگی کے دوران یعنی 1983سے 2005تک بچیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ 1988میں ایک اندازے کے مطابق جنوبی سوڈان اور شمالی سوڈان کی عمارتوں کو نذر آتش کرنے کی حکمت عملی کے تحت جنوبی سوڈان کی آبادی کا 85 فیصد حصہ بے گھرہوچکا تھا اور لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے تھے۔ آزادی کے دو سال گذرنے کے بعد ساوتھ سوڈان ایک مرتبہ پھر سے خانہ جنگی کا شکار ہوا، جو تاحال جاری ہے، موجودہ خانہ جنگی میں اب تک 4لاکھ کے قریب لوگ قتل ہوچکے ہیں جبکہ چار ملین لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا، جن میں سے بچیس لاکھ لوگوں نے قریبی ممالک جن میں یوگنڈا اور سوڈان شامل ہیں میں پناہ لے لی۔ ملک میں خانہ جنگی کی وجہ سے سیاسی انفراسٹرکچراور معیشت دونوں تباہ ہیں، جس سے ملک کی ناکامی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

معیشت
جنوبی سوڈان کی معیشت تیل پر انحصار کرتی ہے، آئل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جنوبی سوڈان کی معیشت کو تباہ کن نقصانات کا سامنا رہا ہے۔ جبکہ جنوبی سوڈان اور شمالی سوڈان کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی میں بھی ملکی معیشت کو تباہ کن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں جنگ کی اہم وجہ بھی جنوبی سوڈان میں تیل کے کنویں تھے، جن پر دونوں جنوبی اور شمالی سوڈان اپنا کنٹرول حاصل کرناچاہتے تھے، جبکہ 2005میں امن معاہدے کے تحت ان علاقوں میں جنگ خاتمہ ہوا ، اور جنوبی سوڈان کے آئل کے ذخائر پر اسکا حق تسلیم کیا گیا۔ آئل کے ذخائر ہونے کے باوجود ساوتھ سوڈان کی کل آبادی کا 51فیصدغربت کی لکیر سے بھے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

بنگلا دیش
بنگلا دیش میں علیحدگی کی تحریک نے اُس وقت زور پکڑا، جب عوامی لیگ نے انتخابات میں برتری حاصل کی اور اپنی حکومت قائم کرنے کےلیے اکثیرت نشستوں پر کامیابی حاصل کی، تب اپوزیشن رہنما ذولفقار علی بھٹو نے پاکستانی فوج کو اِس بات پر قائل کیا کہ وہ مشرقی پاکستان (بنگلا دیش) میں عوامی لیگ کی حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں مارشل لاء نافذ کرے جس کے بعد وہ اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ عوامی لیگ نے جنگ سے قبل ہی بنگلا دیش میں اپنی حکومت قائم کردی تھی۔

جنگِ آزادی کے ابتدائی مراحل میں ہی پاکستانی فوج نے مجیب الرحمٰن کو ان کے گھر سے حراست میں لے لیا تھا۔ آزادی کے بعد مجیب الرحمٰن کو پاکستان نے لندن میں رہائی دے دی اور وہاں سے وہ بھارت سے ہوتے ہوئے بنگلا دیش کی جانب روانہ ہوئے۔ آزادی کے بعد مجیب الرحمٰن تین سال تک بنگلا دیش کے وزیرِ اعظم رہے۔ جس کے بعد وہ ملک کے صدر رہے اور Bangladesh Krishak Sramik Awami Leagueنامی اتحاد کی بنیاد رکھی، جس میں بنگلادیش عوامی لیگ، کمیونسٹ پارٹی آف بنگلا دیش، نیشنل عوامی پارٹی (مظفر) اور جاتھیو لیگ شامل تھے۔ جبکہ مجیب الرحمٰن اس اتحاد کے بھی صدر تھے۔اس اتحاد کا مقصد ملک میں استحکام ، امن اور قانون کی گرفت کو مضبوط کرنا تھا، جبکہ اُس دوران دیگر سیاسی جماعتوں آزادی اظہار رائے اور آزاد صحافت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ون پارٹی پالیٹکس ہورہی ہے اور ایک طرح سے آمرانہ نظام قائم تھا۔

مجیب الرحمٰن کی حکومت مکمل طورپر ناکام ہوچکی تھی، بنگلا دیشن کے حالات مزید خرابی کی جانب گامزن تھے، اشیائے خوردو نوش کی قلت بڑھتی جارہی تھی اور لوگوں میں بے چینی کا عالم مزید بڑھ رہا تھا۔ مجیب الرحمٰن کے طرزِ سیاست اور ون پارٹی ایجنڈے کے خلاف عوامی لیگ کے طلبا ونگ بنگلا دیشن چترا لیگ میں سے ایک نئی جماعت Jatiyo Samajtantrik Dal)) وجود میں آئی جس کا Gonobahini))نامی ایک مسلح ونگ بھی وجود میں آیا، جس کی سربراہی ابو طاہر اور حسن الحق کر رہے تھے۔ جبکہ اسی تنظیم نے15اگست 1975کو مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ قتل کردیا۔ عوامی لیگ کے متعدد کارکنان، پولیس اہلکاروں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا بھی قتل عام کیا گیا۔ جس کے بعد حالات کو قابو میں لانے کے لیے بنگلا دیشن میں مارشل لا نافذ کردیا گیا اور دو سال تک فوجی حکمرانی قائم رہی۔

جنگ کے نقصانات
بنگلا دیش کی جنگِ آزادی لاکھوں بنگالیوں کی خون سے حاصل کی گئی، جنگ کے دوران پاکستانی مسلح افواج نے لاکھوں خواتین کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا، بچوں، عورتوں، بزرگوں، اساتذہ سمیت ہر مکتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت بنگلا دیشی باشندوں کی نسل کشی کی گئی، یہاں تک کہ تیس لاکھ افراد کو قتل کیا گیا۔جبکہ آزاد ذرائع کہتے ہیں کہ بنگلا دیشن کی جنگِ آزادی میں تین لاکھ سے پانچ لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ آزادی کے بعد سے اب تک بنگلا دیش کسی بھی بڑے جنگ میں شامل نہیں رہا ہے۔ اس جنگ میں بنگلا دیش کو ہندوستان کی مکمل حمایت اور مدد حاصل تھی جبکہ ہندوستانی فوج نے بنگلادیش میں پاکستان کے 90ہزار فوجیوں کو سرینڈر کرنے پر بھی مجبور کیا جس کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا۔

معیشت
بنگلا دیش کی آزادی کے فوراً بعد ہی مجیب الرحمٰن نے سوشلسٹ معیشت پر عمل درآمد شروع کردیا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ بنگلا دیش سے غربت کے خاتمے کا واحد یہی حل ہے، لیکن مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعد اس نظام معیشت پر توجہ ختم کردی گئی۔ 1980میں ملک میں ٹیکسٹائل اور سی فوڈ کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ لیکن پھر بھی 70فیصد لوگ غربت کا شکار تھے۔ جبکہ 1990کے بعد ملک میں سرمایہ کاری کے مزید مواقع پیدا کیے گئے جس سے ملکی معیشت میں بہتری آئی، اور یہ سلسلہ بہتری کی جانب چلتا گیا، ورلڈ بینک کے مطابق بنگلادیش میں 1972میں غربت کی شرع 82فیصد تھی جبکہ 2018میں یہ شرح کم ہوتے ہوئے صرف 9فیصد تک رہ گئی ہے۔

بعد از دوسری جنگِ عظیم آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں بنگلا دیشن اور مشرقی تیمور دونوں کی معیشت اور لوگوں کی معیارِ زندگی میں بہتری آئی ہے، جبکہ ساوتھ سوڈان جیسے پہلے تھا اب تک ویسا ہی ہے اور ایریتریا کی معیشت اور صورتِ حال مزید خرابی کی جانب گامزن ہے۔ سیاسی حقوق کے حوالے سے بنگلا دیش کی صورت حال خراب دکھائی دیتی ہے، ساوتھ سوڈان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، ایریتریا میں بنسبت پہلے کے بہتری آئی ہے اور مشرقی تیمور میں بھی بہتری آئی ہے۔

ہمیں ان چاروں ممالک کے بارے میں مزید مطالعہ کرنا چاہیئے اور یہ دیکھنا ہے کہ ان سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں جن کی وجہ سے ان کی معیشت اور ملک کو نقصانات کا سامنا کرناپڑا۔ ایک طرف ایریتریاہے جس نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن وہاں لوگوں کی معیارِ زندگی مزید خراب ہوئی، جبکہ دوسری طرف مشرقی تیمور ہے جہاں آزادی کے بعد لوگوں کی میعارِ زندگی میں نمایاں بہتری دیکھنے کو ملی ہے، خاص طور پرملک کے ڈکٹیٹر صدر کے اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کے بعد سے ملکی معیشت میں مزید بہتری آئی ہے۔

ایریتریا نے آزادی حاصل کر کے اپنے لیے ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھا ہوگا لیکن ملکی صدرکا اپنے عہدے پر براجمان رہنا,ون پارٹی پالیٹکس اور آمرانہ رویہ عوام اور ملک کی ترقی کے لیئے مشکلات کا باعث بنا رہا۔ ان دونوں ممالک میں بہتری اور خرابی کی اہم وجہ ٹرانسفر آف پاور یعنی اقتدار یا طاقت کی منتقلی پر انحصار کرتا ہے، مشرقی تیمور نے اس پر عمل کیا اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہے جبکہ ایریتریا میں طاقت اب تک ایک ہی شخص کے پاس ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگوں کی حالتِ زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ کسی بھی ملک کے سیاسی ادارے لوگوں کی معیارِ زندگی پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ بہتر سیاسی ادارے ملک میں معیشت کی بہتری کا ضامن ہوتے ہیں جس سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، لوگوں کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں اور قوم کو ایک اور جنگ سے روکنے کا ذمہ دار ہوتے ہیں۔

بلوچستان
آزادی کی تحریکیں دو طرح کے ہوتے ہیں ایک پُر امن اور دوسرا وہ جو مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اور ایک ہی وقت میں ان دونوں طریقوں پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں دونوں آپشنز پر عمل کیا جا رہا ہے یعنی مسلح اور غیر مسلح۔ ایک اور اہم پہلو خطے کے حالات ہیں جو تحریک کے مسلح اور غیر مسلح ہونے کا ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بلوچستان برطانیہ، فرانس، کینیڈا یا کسی اور پُرامن ریجن پر واقع ہوتا تب یقیناً مسلح جدوجہد کی ضرورت محسوس نہ ہوتی، لیکن بلوچستان ایک ایسے ریجن میں واقع ہے جہاں پُر امن جدوجہد اُس وقت ممکن ہے جب پاکستان جمہوری اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے معاملات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ بلوچستان میں جاری مسلح جدوجہد کا ذمہ دار پاکستان خود ہے جس نے بلوچوں کی پُرامن آواز کو ہمیشہ سے بندوق کی زور پر خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے، وگرنہ آج بلوچستان میں آزادی کی پُرامن تحریک چل رہی ہوتی۔

بلوچ قوم نے تحریک کے ابتدائی مراحل میں انتہائی مثبت پیش رفت دکھائی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک مشکلات کا شکار ہوتی گئی اور مشکلات و مسائل کو حل نہ کرنے کی وجہ سے یہ مزید پیچیدہ ہوتے گئے، جو 16سال گزرنے کے باوجود بھی وجود رکھتے ہیں۔ بلوچ قوم نے مسلح اور سیاسی دونوں حوالوں سے آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھا ہے، سیاسی اور مسلح محاذ میں یقیناً بہت زیادہ کمزوریاں پائے جاتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود اب تک بین القوامی حمایت یا ہمدردی حاصل کرنے میں ناکامی کا شکار ہے۔ اور بین القوامی ماہرین موجودہ تحریک کو سب سے کم درجے کا انسرجنسی قرار دیتے ہیں۔

تحریک کی کامیابی اور ناکامی مضبوط اداروں پر انحصار کرتی ہے اور بلوچ قومی تحریک کی کمزوری کا ذمہ دار بھی یہی ادارے ہیں جو اب تک قوم کو بہتر روڈ میپ دینے میں ناکام ہیں۔ بلوچ آزادی کی تحریک میں دو سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ متحریک ہیں جن میں بلوچ ریپبلکن پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ شامل ہیں، جبکہ آزادی پسند طلبا تنظیموں میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) اور بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شامل ہیں۔ دوسری جانب دو نئی جماعتیں بھی سامنے آئی ہیں جن میں فری بلوچستان موومنٹ اور ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسز، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن ، انٹر نیشنل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچستان ہیومن رائٹس کونسل شامل ہیں۔ جبکہ موجودہ اداروں کی کمزوریوں کی وجہ سے چند لوگ تحریک کا نام استعمال کرکے جداگانہ طورپر سرگرم ہیں۔

جہاں اتنے ادارے وجود رکھتے ہوں وہاں اختلافات پیدا ہونا عام سی بات ہے، اوپر جن چار کامیاب آزادی کی تحریکوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ایک یا دو جماعتوں نے اپنی قوم کو متحد کر کے آزادی حاصل کی ہے۔ ہر شخص جداگانہ طورپر اپنے طور و طریقوں پر کام کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اتنے سارے تنظیموں کے باوجود بھی ہمیں مثبت نتائج نہیں مل رے۔ انسان حقوق کے حوالے سے بھی ایک سے زیادہ تنظیمیں وجود رکھتی ہیں، جن سب کا کام ایک ہی ہے اور عالم یہ ہے کہ آج تک پاکستان کے خلاف اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق میں انسان حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک بھی کیس فائل نہیں کیا گیا۔

مثال کے طورپر اگر بلوچ ریپبلکن پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ دونوں میں سے صرف ایک جماعت قوم کی نمائندگی کر رہی ہوتی اور اس جماعت میں براہمدغ بگٹی، مہران مری ، جاوید مینگل ، حیر بیار مری، بختیار ڈومکی، خلیل بلوچ، نائلہ قادری، منیر مینگل سمیت تمام آزادی پسند کارکنان و اسٹیک ہولڈرز شامل ہوتے اور مسلح تنظیموں میں بھی ایک ہی تنظیم ہوتی تو یقین جانئے ہماری تحریک بین القوامی حمایت و ہمدردی حاصل کرنے میں کب کا کامیاب ہوچکی ہوتی۔

جیسے کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ بہتر سیاسی ادارے ہی کامیاب تحریکوں کا ضامن ہوتے ہیں، جہاں سیاسی اداروں میں غیر سیاسی سوچ اور رویے پروان چڑھ جائیں وہ ادارے کسی صورت مثبت نتائج برآمد نہیں کرسکتے۔ موجودہ کھوکھلے سیاسی اداروں کے ہوتے ہوئے اگر حادثاتی طورپر ہمیں آزادی مل بھی جاتی ہے، تو کیا ہم بلوچستان کو اریتیریا بننے سے بچا پائیں گے؟ جب ہمارے درمیان یہ اختلافات اِس مشکل وقت میں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، جب ہم ایک غیر قوم سے حالتِ جنگ میں ہیں، تو آزادی کے بعد ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں گے۔ موجودہ حالات میں ہمیں ایک گرینڈ الائنس کی ضرورت ہے جس میں تمام آزادی پسند اداروں کی موجودگی یقینی ہو، اور بعد میں یہی الائنس سنگل پارٹی کی جانب ایک اہم پیشرفت بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ جب تک ہم اپنی ضد اور انا کو قومی مفادات کے خاطر قربان نہیں کرتے تو ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم شہیدوں کے نام پر سیاست کریں۔

میری نظروں میں ہم تحریک کو صحیح سمت کی جانب لے جانے میں اب تک ناکام ہیں، جب تک ہم صحیح سمت کا تعین نہیں کرتے ، بیرونی حمایت کی امید رکھنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔ دنیا کے تمام مہذب ممالک اقوامِ متحدہ کے قواتین کے پابند ہیں اور اقوامِ متحدہ کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ہی ہم اپنے لیے بیرونی ممالک میں دوست تلاش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوامِ متحدہ نے آزادی کے لیے (حقِ خود ارادیت) کا ٹرم استعمال کیا ہے اور اگر ہم اسے لفظِ آزادی سے بدل دیتے ہیں مہذب ممالک کے سیاسی رہنما ہم سے ایک بار تو ملاقات کرلیں گے لیکن دوسری ملاقات کے لیے معذرت کر لیں گے۔ کیونکہ وہ قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں کرسکتے ۔ آج سے کچھ عرصہ قبل تک میں بھی یہی غلطی دہرا تا رہا ہوں لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی غلطیوں کو درست کرنا چاہیے۔ حقِ خود ارادیت (Self-Determination) کا مطلب وہ حقِ خود ارادیت بالکل نہیں جس کا بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) مطالبہ کرتی ہے۔ کیونکہ وہ اس ٹرم کو صرف استعمال کرتی ہے ہمیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔ یہی وہ قانونی طریقہ ہے جس سے ہم بین القوامی اداروں کے دروازوں پر دستک دے سکتے ہیں، اور ہمیں اس کنفیوژن سے نکلنا ہوگا کہ حقِ خودارادیت اور آزادی میں کوئی فرق نہیں ہے، در حقیقت دونوں کا مطلب ایک ہے۔

دورانِ جنگ ِ آزادی ہمیں اپنے مستقبل کے نظام کے لیے اب سے ہی قانون سازی کر لینا چاہیے تاکہ آزادی حاصل کرنے کے بعد شہیدوں کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ ہمیں پہلے سے منصوبہ بندی کرنا چایئے کہ آزادی کے ابتدائی مراحل میں کس طرح کی حکومت قائم کی جائے گی، لوگوں کے سیاسی و دیگر حقوق کو کس طرح تحفظ فرائم کیا جائے گا، آزادیِ اظہار رائے کے احترام کو کیسے ممکن بنایا جائے گااور ملکی معیشت کے لیے بھی ہمارے پاس روڈ میپ ہونا چاہیے تاکہ آزادی کے بعد لوگوں کی معیارِ زندگی مزید خرابی کی جانب نہ چلی جائے۔ ان تمام پہلووں پر جائزہ لینے کے لیے ہمیں مضبوط اور قابل سیاسی اداروں کی ضرور ت ہے جن میں ایسے قابل لوگ موجودہوں جو ان تمام پہلوں پر غور و فکر کرکے مستقبل کے لیے ایک روڈ میپ تشکیل دے سکیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔