شہیدوں کا آخری فیصلہ, جہد کاروں کے نام! – نادر بلوچ

248

شہیدوں کا آخری فیصلہ
جہد کاروں کے نام!

تحریر: نادر بلوچ

قومی جہد کی تاریخ دانائی، بہادری، جذبہ ایثار کی انمول، نایاب، اور لازوال داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔ جفاکش، باشعور فرزندوں کو تاریخ میں جب بھی موقع ملا، قومی بقاء، مادر وطن کی حفاظت، ننگ و ناموس کے لیئے جان کی بازی لگا کرتاریخ میں امر ہوگئے۔ بلوچ، دیگر اقوام کی بہ نسبت خوش نصیب اور وطن کے سچے فرزند ثابت ہوئے ہیں۔ قوم پرست نظریات نے وطن پرست اور سرزمین پر مرمٹنے کو قومی ثقافت کا حصہ قرار دیا ہے۔ جبکہ وطن فروشی کو قابل نفرت جرم اور سزا کا حقدار گردانا ہے۔

سرزمین، جغرافیہ، ساحل و وسائل، معدنیات قابض قوتوں کو لالچ اور قبضہ کیلئے اکساتی رہی ہے۔ بلوچ قومی مزاحمت نے اس سرزمین کو ان پر حرام قرار دیکر انکوسبق آموز بنا کر دنیا اور تاریخ میں ظلم و جبر کیلئے عبرت کی نشان بنا کر، آنیوالے نسلوں کو قابض قوتوں سے نمٹنے کا طریقہ اور مزاحمت کا سبق دیا ہے۔

بلوچ نیشنل ازم کی بنیاد بننے والی سرزمین خود بھی قوم پرست ثابت ہوتی ہے۔ بلوچ قوم کی دفاع، چلتن کی چٹانوں، ڈاک کی تپتی صحراوں، بلندو بالا پہاڑوں،بہتی، صاف و شفاف، یخ ندیوں، دشت سے لیکر کچھی کی آگ میں جلستی ہوئی چٹیل میدانوں نے، بلوچ قومی دفاع کیلئے موقع و مورچہ فراہم کی ہے۔ مرکز میں بولان کے دفتر سے لیکر مشرق میں سوئی، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، کاہان، شمال میں کوہ سلیمان سے لیکر مغرب میں زابل و جنوب میں چاہ بہار تک گہری و نیلی سمندر نے اس سرزمین کی حفاظت کیلئے ایک قدرتی طور پر قلعہ نما، چاروں طرف، فصیل تشکیل دیکر،قومی مفادات کی تحفظ کی ہے۔

مادر وطن، ننگ و ناموس کی حفاظت، قومی بقاء کے حصول میں ہمیشہ صف اول میں شامل ہوکر گرم پانیوں کی طرف حمل و جیند،بولان کی چوٹیوں پر علی شیر، حمید و رحمت شاہین، کریم و حکیم سے شہداء کوہ سلیمان تک ہزاروں شہدا نے شعوری طور پر وطن کی دفاع کیلئے آخری فیصلے کو ہی قومی منزل کے حصول کیلے اپنا کر قوم پرست ہونے کا حق ادا کیا۔ بزرگوں سے لیکر نوجوانوں تک، محراب خان و بابو نوروز سے لیکر پیر مرد اکبر بگٹی تک، شہید مجید اول۔و۔ثانی، شہید حمید و شفیع ، سفر و اسد مینگل تک نوجوانوں کا آخری فیصلہ، فلسفہ قربانی رہا ہے۔ قومی تحریک میں شامل ہونے کا فیصلہ کرکے اسی منزل سے ابتداء کی اور اسی پر اختتام ہوئی۔

پتھر تو بہت ہوتے ہیں لیکن ہیرا انمول، چمک و دمک رکھتی ہے اور اسکی اپنی اہیمت و افادیت ہوتی ہے۔ قومی احساس و شعور، سوچ و فکر، جہدکار کو ممتاز بناتی ہے، قومی حق کی پہچان رکھتا ہے، شعور کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے قائل و قابل بناتی ہے۔ تاریخی تسلسل میں جوڑ پیدا کرتی ہے۔ جھنڈ بنا کر متحد رکھتی ہے۔ تاریخی و مشترکہ قومی فیصلے کو قبول کرتا ہے۔ اسکو جاری رکھنے میں ہی قومی بقاء ہے۔ تب اندھیروں، ظلمتوں، جبر کی داستانوں کے خٖلاف غلامی سے آزادی کیجانب،قومی مزاحمت کی سوچ کو ابھارنے کیلئے ایک تاریخی کردار کا چناو ہوتا ہے۔ علم و عمل، شعور وعقل میں ربط کی بنیاد پر اپنی قومی ضرورتوں کو سمجھنا، جغرافیہ، زبان، ثقافت سے واقفیت اور قومی احساسات کی پہچان ہی ایک حقیقی قوم پرست کو، حق و سچ پر مبنی فیصلوں کو قائم رکھنے، باطل و گمراہ نظریات سے دور رکھ کر،عظیم قربانیوں کی تسلسل کو برقرار رکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

آزادی کی اہمیت و افادیت، شعور کو پختہ بنانے میں کارآمد کردار ادا کرتی ہے۔ فرد کے بعد اس کا اثر اجتماعی قومی شعور پر پڑتی ہے۔ ایک باشعور انسان انفرادی شعور سے انکار کر سکتی ہے، نہ اسکے قومی شعور پر ہونے والے اثرات سے بے بہرہ ہوتی ہے۔ جہد کار قومی شعور کو کامیابی سے اجاگر، اور آخری فیصلہ کیلئے بنیاد قرار دیتی ہے۔ شعور کی بنیاد یا سرچشمے پر غور کریں تو فرد کے شعور کو اجتعماعی فکر کیلئے ضرورت و اہمیت کا حامل قرار دیتی ہے۔ نظریات و سوچ پر، جہد کار کی گرفت جتنی مظبوط ہوگی فیصلہ کرنے میں اتنی ہی کامیابی و آسانی پیدا ہوگی۔

فیصلہ جتنا شعوری ہوگا، حقیقتوں، مشکلات، مصائب سے آگاہی ہوگی، فرایض کو ادا کرنے اور بامقصد زندگی گزارنا اتنا ہی آسان بن جاتی ہے۔ مایوسی قریب بھی نہیں بھٹکتی بلکہ عمل کی اہمیت ہی سے کامیابی اور کاوشوں کی بنیاد پڑتی ہے۔

آخری فیصلے میں بلوچ ماوں، بہنوں کا ذکر نہ ہو تو یہ ایک نامکمل ذکر ثابت ہوگی۔ قومی تشکیل میں جنسی تقسیم سے اجتناب اور مرد و عورت کا ساتھ اہم اور فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اسی لیئے قومی تقسیم کو ختم کرنے اور قوم کو طبقاتی سوچ سے بچانے کیلئے ایک قوم پرست ماں،بہن، بیٹی، نیشنل ازم کی بنیاد پرقومی فیصلے کو انجام دینے کیلے تحریک کا ایک اہم جز کی حیثیت سے اپنی تاریخی کردار کو ادا کرکے قربانی کے فلسفہ عظیم کو قبول کرتی ہے۔ جس کی مثال بلوچ وطن کی باشعور بیٹیاں دھرتی پر اپنے بھائیوں، بیٹوں، خاوندوں کی قربانی کے ساتھ ساتھ خود بھی جانی و مالی قربانیوں، مصائب و مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتی پیش پیش رہی ہیں۔

قومی غلامی کی تاریخ میں ریاستی ظلم و جبر،، چال باز کاونٹر انسرجنسی کی جنگ میں قابض ریاست، انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کرتے ہوئے، بلوچستان میں پانچویں فوجی آپریشن کر رہی ہے۔ مگر ان ستر سالوں سے جاری آپریشنوں میں اس قومی فیصلے کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلوچ قوم کا آخری فیصلہ سنانے کیلئے بلوچوں کی تیسری نسل میدان عمل میں شہادتوں اور قربانیوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے، اگلی نسل کو کامیابی و کامرانی سمیٹےمنتقل ہورہی ہے۔ سن دو ہزار میں، قومی تحریک کی تاریخی تسلسل کے حوالے سے تیسری نسل سے فیصلہ لیا گیا، تو بلوچ نوجوانوں نے قابض ریاست کی حقیقت کو ماننے سے انکار کیا، قومی فیصلے کو اپنا کر، سیاسی اور مزاحمتی جہد کے ذریعہ قومی تحریک کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جس کی فلگ شگاف نعرہ، بلوچستان سمیت دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔

شہیدوں نے لہو دیکر بلوچ سرزمین پر دشمن قوتوں کو اپنا آخری فیصلہ سنا چکی ہیں۔ قبضہ گیر اور بلوچ قوم کو غلام بنانے والوں کی نیندیں اڑا چکی ہیں۔ مہذب دنیا جان چکی ہے کہ بلوچ قوم پرست قوتوں کا یہ آخری فیصلہ، بلوچ جغرافیہ پر بلوچ قوم کی منشاء و رضامندی کے بغیر اب رہنا ناممکن ہے۔

ریحان بلوچ سمیت شہداء کی قربانیاں، مایوس و تھکے ہوئے لوگوں کیلئے روشنی و جہد کی علامت بن چکی ہے۔ سیاسی کارکن،جہدکار،ہمدرد و ہمسفر، انکی ثمرات کو قومی تحریک، آخری فیصلہ کو کارآمد بنانے کیلے مسلسل جہد، حکمت عملی،عمل میں کامیابی و مایوسی کے خاتمہ، لاشعور کو شعور سے روشن کرنے، پرخار راستوں پر چلنے، صبر و عزم کے ساتھ، جہد کو جاری و ساری رکھیں۔ آزادی کو حاصل کرنے کیلئے، آخری فیصلہ کریں، اس سے واپسی صرف موت کی صورت ہوگی نہیں تو آخری سانس تک جہد جاری رکھیں، یقینی طور پر فتح و نصرت بلوچ قوم کا مقدر و نصیب ہوگا۔ روشن مستقبل،ہماری نسلوں کی کامیابی و قسمت ثابت ہوگی۔ کل کو آج سے بہتر بنانے کیلئے آخری فیصلہ کی جانب مستقل مزاجی و انکساری سے بڑھنا ہوگا۔