سوشل میڈیا اور منفی باتیں ۔ بازی بلوچ

322

سوشل میڈیا اور منفی باتیں

تحریر۔ بازی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر دیکھا جائے تو دنیا میں زیادہ تر لوگوں نے اپنی قوم کی بقاء کیلئے اپنی ذات اور خواہشات کو ترک کرکے قوم اور سرزمین کا غم اپنا کر اس پر مرمٹے۔ ایسے لوگوں کو دنیا بھر میں یاد رکھا جاتا ہے۔ ایسے بھی لوگ آپ کو دیکھنے کو ملیں گے جو چند مراعات کی خاطر اپنی ہی قوم اور سرزمین سے غداری کررہے ہیں۔

آج میں پہلی دفعہ قلم اُٹھاکر بلوچ تحریک کے بارے میں کچھ لکھنے کاخواہشمند ہوں۔ بلوچ کون ہے؟ اگر بلوچوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ بلوچ تاریخی حوالے سے بہت ہی بہادر بتایا جاتا ہے، ہماری نظروں میں آج تک یہ بات ثابت ہوتی جارہی ہےاور بلوچوں کا اپنا ایک الگ پہچان ہے، اپنا الگ ایک مُلک ہے، جسکو لوگ بلوچستان کے نام سے جانتے ہیں۔

بلوچستان خود ایک آزاد ریاست تھا۔ جس پر قبضہ گیر پاکستانی ریاست نے بلوچ قوم کے منشاء کے بغیر قبضہ کرلیا۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بلوچوں نے اپنی قوم اور اپنی عزت اور اپنی آنے والے نسلوں کیلئے اپنی جانوں کا نظرانہ کئی نسلوں سےپیش کرکے چلے آرہے ہیں۔ اگر بلوچ تحریک پر گہری نظر دوڑائی جائے تو ہمیں یہ بات ضرور غور اور فکر کےلیئے ملے گی کہ بلوچ کئی دہائیوں سے اپنے جدوجہد کو کئی پارٹیوں کی شکل میں آزادی کے منشور کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ان پارٹیوں کے الگ ہونے کی وجہ میرے ذہن میں سیاسی اختلافات اور وقت کی ضرورت ہے. آج بلوچ قوم نے ایک حدتک یہ ثابت کردیا ہے کہ بلوچ قوم آخری حدتک اپنے دشمن کو ختم کرنے کیلئے مختلف حربے استمال کرسکتا ہے، بلوچ لیڈر اپنے حقیقی مقصد کیلئے کسی کو بھی غلط تصور کرنے کو گریز نہیں کریں گے۔ جو اپنے مقصد کو بھول چُکے ہیں۔

جنگِ آزادی میں بہت سے ایسے بھی لوگ آپ لوگوں کو دیکھنے کو ملیں گے۔ جو مایوسی کا شکار ہیں۔ دیکھا جائے ایک حدتک ان کی مایوسی کا ذمہ دار وہ خود ہیں۔ مایوس ہونے والے میری نظر میں وہ ہوتے ہیں۔ جو اپنے لیڈروں سے کچھ زیادہ اُمید رکھتے ہونگے کہ ان کی فردی غلطی کو تحریک کی غلطی سمجھتے ہونگے، وہ لیڈروں کی ذاتی یا فردی غلطی کو تحریکی غلطی سمجھ کر تحریک سے بدزن ہوکر خاموشی اختیار کرتے ہیں یا دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ہاں یہ بڑا راستہ ہے اس راستے میں تحریک سے مُنسلک کامریڈوں کو تحریک سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے، اگر ہم شہیدوں کے فلسفے کو یاد رکھیں، ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، تو ہمیں یہ احساس ہوگا کہ ہمارا حقیقی لیڈر کون ہے اور ہم کس کیلئے لڑ رہے ہیں، جن شہداء نے اپنے مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے اپنے سروں کو قُربان کردیا۔

میں ہروقت سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں کہ ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف منفی باتیں کرتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہم کررہے ہیں۔ ان منفی چیزوں کے اثرات صرف تحریک کو نقصان دے رہے ہیں، کسی فرد یا لیڈر کو نہیں
کسی نے آرٹیکل میں لکھا تھا اسلم بلوچ نے حیربیار سے اختلافات رکھ کر بی ایل اے کو تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ یہ تو تاریخی غلطی ہے۔ تو میرا خیال یہ ہے مجھے اس میں کوئی غلطی نہیں لگتی۔ اسلم بلوچ نے آج یہ ثابت کردیا ہے وہ کس حد تک اپنے قوم کی بقاء کیلئے قدم اٹھا سکتے ہیں۔ آج قوم جان چکا ہے کہ اس کے حقیقی لیڈر کون ہے۔ اسلم جیسے عظیم لیڈر کل بھی ہمارے تحریک میں تھے اور آج بھی ہیں۔ اسلم نے بی ایل اے کو دو میں تقسیم نہیں کیا۔ اسلم نے شروعات سے بلوچ لبیریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے مُسلح جہد و جُہد کا آغاز کیا۔ ایک مزاحمتی اہم کمانڈر جس نے ساری زندگی بلوچ لبیریشن آرمی کے اندر گُذار دی۔ اُستاد اسلم اور بشیر زیب اور بی ایل اے کے کئی نوجوان کامریڈوں نے حیربیار سے اختلافات رکھ کر اپنے ترجمان کو الگ کردیا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پلیز سوشل میڈیا میں بلوچ لیڈر یا کمانڈروں کے کِردار کُشی مت کریں، جسکی وجہ ہماری بلوچ تحریک کو دشمن پاکستان آسانی سے کاونٹر کرسکے لہٰذا آپ لوگوں سے میرا گُذارش ہے آپ لوگ سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا میں مثبت چیزوں پر مباحثہ کریں۔