حالات کروٹ لینے میں دیر نہیں کرتے – کمال بلوچ

299

حالات کروٹ لینے میں دیر نہیں کرتے

کمال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں پاکستانی فوج کے زیر دست انتخابات ہوئے۔ اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ فوج کی رضامندی کے بغیر کوئی ایک انتخابی نشست نہیں جیت سکتا۔ حال ہی میں فوج نے بلوچستان میں وفاقی پارٹیوں میں شامل کچھ لوگوں کو جو اکثر مسلم لیگی تھے کو اکھٹا کرکے ایک نئی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ تشکیل دی۔ یہ کوئی انہونی یا نئی بات نہیں ہے کیونکہ فوج اور ریاستی خفیہ ادارے ہمیشہ انتخابات سے پہلے اپنے من پسند اور وفادار لوگوں کو نوازنے کیلئے ایسی جماعت اورانتخابی اتحاد کا نام استعمال کرتے ہیں، تاکہ دھاندلی میں ہاتھ کی صفائی دکھائیں اور عوام یہی سمجھے کہ یہ شخصیات ہمارے ووٹ کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں۔

2013کے الیکشن کے بعد فوج نے جو حکمران لائے بعد میں وہ باری باری تبدیل ہوتے گئے، یہ بھی حیران کن نہیں کیونکہ یہاں شاید وفادار زیادہ تھے اور بدلے میں ہر کوئی حصہ مانگ رہا تھا۔ بلوچستان میں فوج کا کردار نہایت واضح ہے۔ وہ بلوچستان پر قبضے کو مضبوط کرنے کیلئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہی پیغام بھیجنا چاہتے ہیں کہ یہاں عوامی حکومت اور بلوچ قوم کی شمولیت اور پاکستان میں ان کی رضامندی شامل ہے۔ اس دفعہ چہرے بدلائے گئے ہیں۔ اس گروہ میں اختر مینگل اور اس کی جماعت بی این پی بھی شامل ہے، جس کے لیڈران سیاست میں وقت کی مناسبت سے لفظو ں کے چناؤ میں کافی ماہر ہیں۔ اسی وجہ سے بلوچستان میں آج بھی تھوڑی بہت سیاسی مقام رکھتے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے سیاسی جو ڑ توڑ کیلئے رائیونڈ، بنی گالہ اور بلاول ہاؤس کی جانب رخ نہیں کیا بلکہ اختر مینگل نے اس روایت میں کچھ تبدلی لائی ہے تاکہ بلوچستان کے لو گوں کی ذہنوں میں مزید راج کرسکیں۔ انہو ں نے تحریک انصاف کے قائدین کو خاران ہاوس میں بلا کر نیا ڈرامہ رچایا۔ پاکستانی دانشور اور میڈیا اس بات پر کافی تعریف کے ساتھ بحث کر رہے ہیں کہ’’ پہلی بار اسلام آباد کو کوئٹہ کے سامنے جھکتے دیکھا ہے‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔ بی این پی نے جو چھ نکات پیش کئے ہیں، ان میں کوئی نئی ڈیمانڈ نہیں۔ لہٰذا نتیجہ بھی پرانے ڈیمانڈ اور وہی وعدے اور سیاسی چالبازیاں ہوں گی۔

2008کے پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کی پہلی بات لا پتہ افراد کی بازیابی اورآپریشن ختم کرنے کا وعدہ تھا۔ اس کے بعد 2013میں مسلم لیگ نے بھی یہی وعدے کئے لیکن کو ئی فرق نہیں پڑا۔ رضا ربانی ہوں یا جاوید اقبال کی کمیشن ہو سب کے سب بعد میں فوج کی زبان بولنے لگے۔ آئندہ بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہوگا۔

بلوچستان میں جو انسر جنسی چل رہی ہے، اسے روکنے کیلئے ریاست پاکستان ری ایکشنری ہو چکی ہے۔ پو رے بلو چستان میں مکمل فوجی طا قت کے ساتھ زور آزمائی کر رہا ہے۔ بلوچ عوام اپنے جمہوری حق آزادی کیلئے جد وجہد میں مصروف عمل ہیں مگر ریاست پاکستان تمام اصولوں کو پامال کر چکاہے۔ حقیقت یہ ہے جنگ بے رحم ہو تا ہے۔ اس بات سے ہر ذی شعور اتفاق کرتا ہے لیکن جنگی اصول بھی دنیا میں رائج ہیں۔ گھر میں بیٹھے ہوئے معصوم اور نہتے عورتوں بچوں اور بزرگوں پر کو ئی کسی قسم کا تشدد نہیں کر سکتاہے، مگر پاکستانی فو ج تمام اصولوں کو پامال کرکے بچوں اور عورتوں کو اغوا کرکے اپنے فوجی کیمپوں میں بند کرکے ان کو ذہنی اور جسمانی اذیت سے دوچار کررہا ہے۔

پاکستان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ بنگلہ دیش میں انکی فو ج نے حریت پسند بنگالیوں کے عورتو ں کو اٹھا کر غائب کیا۔ بنگلہ دیش کے کالج اور یونیورسٹیو ں کے طالبات غائب کیئے گئے۔ انکے ساتھ غیر انسانی سلو ک روا رکھا گیا۔ اس فوج سے بلوچستان میں بھی توقع رکھنا چاہیئے۔ پاکستانی فوج نے 1973 میں بھی بلوچ عورتوں کو اٹھا کر غائب کیا۔ نام نہاد قوم پرستی کے دعویدار جو پاکستانی پارلیمنٹ میں موجود ہیں انہیں بلوچ قومی بقا ء سے کو ئی واستہ اور سروکار نہیں۔ میں پھر بھی کہتا ہوں کہ اگر انہیں اس تاریخی جد وجہد میں اکبر خان کی طرح نئی تاریخ رقم کرنا ہوگا ورنہ یہ تاریخ میں مجرم ہی ٹہریں گے۔ انہیں بنگلہ دیش کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے کیونکہ جماعت اسلامی نے جو کردار وہاں ادا کیا تھا، آج انکاکردار جماعت اسلامی سے مختلف نہیں۔ نیشنل پا رٹی سمیت کو ئی بھی یہاں پاک دامن نہیں۔ سب کے سب اس گناہ عظیم میں فوج کے ساتھ برابر شریک ہیں۔ دوسری طرف آزادی کے جہد کاروں کو چاہیئے وہ بھی اپنی جد وجہد پر ازسرنو غور کریں کیو نکہ کامیابی کیلئے ناکامیوں پر غور کر نا ناکامی نہیں بلکہ بہترین سبق ہو گا۔

سیاسی کارکن کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ما ضی، حال اور مستقبل کے بارے میں علم رکھیں، تاکہ وہ ہر کام کی نو عیت اور اہمیت کے بارے میں بہتر رائے سے اُس کی اہمیت کو اجاگر کرسکیں۔ کھبی کبھار ایسے سوال ذہن میں جنم لیتے ہیں کہ انکے حل کی ضرورت پر کچھ لوگ اُس کی تا ریخی پس منظر میں جانے کی زحمت نہیں کر تے، جس طر ف پانی کا رُخ ہوتا ہے، اُس طر ف چلنے کی تگ و دو میں ہو تے ہیں۔ سیا سی دانشور ایسے لو گوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ صرف طاقت کے غلام ہو تے ہیں۔ وہ اختلاف رائے کی اہمیت سے کہیں بھی نزدیک نظر نہیں آتے ہیں۔

یہ سب کچھ لکھنے کی جسارت اس لیئے کررہا ہوں کہ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی سا لمیت کیلئے سیاست کر نے والوں کی سیاست اسی طرح ہے۔ انکی سیاست جس فلسفے پر چل رہی ہے، وہ اجتماعی اصولوں کے خلاف ہے، بلکہ ان کو اجتماعی مجرم کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔

پاکستان کی سیاست میں جب تبدیلی رونما ہو تی ہے، جہاں سے تبدیلی لائی جاتی ہے، وہ فوج کی شکل میں مصنوعی خدا بن کر پاکستان کی سیاست پر حاوی ہے۔ 1948سے لے کر آج تک بلوچستان میں ہر الیکشن میں فوج کا ہی اثر و رسوخ رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کی باتیں بلوچستان میں ہو تی تھیں کہ فوج مداخلت کرکے سب کچھ کر رہاہے۔ اس دفعہ پاکستان میں شدت اور نسبتاً کھلے الفاظ میں یہ بات کی جارہی ہے، یہاں سکہ صرف فو ج کا ہی چلتا ہے۔ اس پر ہم بہت پہلے اظہار خیال کرچکے ہیں۔ نتائج کے خلاف اکثر پاکستانی پارٹیاں احتجاج کر رہے ہیں، لیکن پارلیمنٹ کا حصہ بھی بننے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ تما م باتیں اپنی جگہ، اب پاکستان میں جو مشکلا ت جنم لے چکے اور جو تبد یلی دنیا میں آ رہی ہے، کیا پاکستان ان کا مقابلہ کر سکے گا؟ فوج نے اس دفعہ ایم ایم اے کو کارنر کرکے کچھ سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ ان سے بہترین کھلا ڑی نئی طا قت کے ساتھ فوج کو مل چکی ہے۔ اُس سے کھیل کر کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کو باور کرانے کی کو شش ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا پہیہ رواں دواں ہے۔

کیا بلوچستان سے گزرنے والی سڑک جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے، کیا یہ پاکستان کے معاشی بقا کے لیئے بہت اہم ہے؟ اس بارے میں معاشی ماہرین کا جواب ہاں میں ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت سی پیک کو پاکستان کے عوام کے فائدے کے لیئے کیسے استعمال کر سکتی ہے۔ اب یہاں یہ سوال جنم لیتاہے، کیا پاکستان بلوچ انسرجنسی کو روک کر اس سی پیک کو فنکشنل کرسکتا اور دوسری طرف یہاں چائنا جو اپنی عسکری اور اقتصادی طاقت کو مضبو ط کرنے یہاں سرمایہ کا ری کر رہاہے، کیا پاکستان اور چائنا امریکہ سمیت خطے دیگر عالمی طا قتوں کو راضی کر سکتے ہیں؟ کیا جنوبی ایشیاء کی یہ تبدیلیاں باقی دنیا کیلئے قابل قبول ہیں؟ نئے طاقت کا جنم لینا،جو معاشی حوالے دنیا کے ہر کو نے تک پہنچنے کی تگ ودو میں ہے اور اب چائنا کا یہاں آباد ہونا دنیا کے امن کےلئے انتہائی خطرے کا باعث ہوگا کیونکہ مذہبی انتہا پسند مالی امداد حاصل کرنے کیلئے کسی کے پاس بھی جاسکتے ہیں۔ جس طر ح روس کے خلاف امریکہ سے امداد حاصل کرنا اوراسے اللہ کی طرف سے مد د کہنا۔ اسی طرح آج انہی طالبان کو چائنا کی مکمل مدد حاصل ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اس سے دنیا کو سوچنا ہو گا، کیونکہ سعودی عرب اور پا کستان یہی چاہتے ہیں کہ وہ چائنا کے ذریعے طالبان کو آگے لے جا ئیں۔ چائنا یہی سب کچھ کر رہاہے۔

’’اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں نئی حکومت کو دوبارہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ کوئی اور راستہ نہیں۔ پاکستان پر قرض بہت زیادہ ہو گیا ہے اور سب سے اہم بات قرض منیجمنٹ کا ہے اس کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے‘‘۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ مکانات بنائیں گے۔ کیا مکانات بناکر وہ قرض کی دنیا سے باہر نکل سکتاہے؟ کیا وہ آئی ایم ایف کی ہرشرط قبول کرنے پر راضی ہیں؟ اگر ہاں، تو یقیناًیہ ایک اور امتحان ہوگا۔

ایک طر ف پاکستان کی پیدا کردہ مذہبی دہشت گرد جو دنیا کے امن کےلئے نا سور بن چکے ہیں، وہ پاکستان کے گود سے جنم لے رہے ہیں، انکے خلاف جو جھوٹ کے آپریشنز کیئے جارہے ہیں، یہاں ایک اور سوال پیدا ہو تا ہے، وہ یہ جو نام نہاد فوجی کا روائی ہو رہی ہے، تو انتہاء پسندوں کی کاروائی میں کیوں تیزی آئی ہے؟ خاص طور خیبر پختواہ اور بلوچستان میں انکے خود کش حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مظلوم بلوچوں اور پختونوں کی نسل کشی میں تیزی آئی ہے۔ یہ پاکستانی فوج کی اپنی پالیسی ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں پختون لیڈروں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں خاص طور پر اسفند یار خان اور محمود خان کو کہ وہ اپنے قوم کو دھوکہ میں نہ رکھیں۔ پشتونوں کی بقا پاکستان میں نہیں بلکہ آزادپختونستان میں ہے۔ پشتون کس نام سے اور کس کیلئے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ یہ پشتون لیڈر شپ کیلئے غیر معمولی فیصلے لینے کا وقت ہے۔

اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔