آئینہِ معراج ۔ حنیف بلوچ

315

”آئینہِ معراج”

تحریر۔ حنیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شگفتہِ شاخ شبِ گُل مِزاج اپنا ہے
جہاں سےتم کہیں گزرے تھے راج اپناہے
خیال کر میرے ویران شہر کے قاتل
جو لےِ شمشیر سے اُلجھتا ہے تاج اپناہے

سفرِقلم کا اِشارہ تِرے سپرد کروں یا تیرے نقشِ قدم سپہ سالار بنوں، جہاں کہ میں خود اُلجھتاپھرتاہوں وہاں کِن غریب کادامن چاک چاک نہیں۔ جبکہ تو کہیں سوگوار ہے اور کہیں مزاق کرتے پھرتے ہو۔ کبھی تو کسی چاکِ گِریباں کا منہ تیری بے حُرمت نگاہوں کو نوچنے کا سبب ہوتا، تو کیا ہوتا۔ نظارہ ہم نے بھی کرنی ہے۔

شرفِ شاہ نوازی دیکر جِسے سوئے دار چڑھایا، مگر یہ اب کی بار نہیں۔

تشبیہہ یا مثالِ مصائب بن کر واقعات کا تعاقب پیش کروں، سوال جب سوالیہ نشان بن کر بقولِ دشمن نشانِ حیدرکا اعزاز حاصل کروں؟ جب میں خود ایک نشانِ تسلی بن کر پیش ہوتارہاہوں۔ جنونِ تشنگی تو ضرور ہے لیکن وصالِ صنم ابھی تک نہیں آئی۔ رہنما عاقلوں کے شکنجے سے بے عقلی کا سفر طے کرتے مزاق بناہواہے، یہ لکھوں یا دشمن کے کارناموں کو اپنے قلم کا زینت بناؤں کہ اپنا؟

اپنوں پہ سنانے بیھٹوں کہ زمانہ خوُش نما دیکھنےپہ تُلاہے، کیوں کہ مجرم کا خطاب میرے مقدرکے پیشانی پہ نقش ہوتا دِکھائی دیتاہے۔ غیروں سے کہاں سمندرکا تمناکروں جو ریگزار آنسوؤں کی تپش جینےکا بہا بیداری کے چار الفاظ سینے کی جلن کو تراشتے تراشتے، آیات کی مانند اختیار کرتے ہیں۔ خلوصِ تشخص کس مُنکرِ لب خندِ امید سفید لباس میں پوشیدہ شخص کہیں داغدارتو نہیں۔ انسانیت کے اخصاص میں مگن لوگ ہمیشہ تکبرکا بادشاہ بن کر مظلوم کا جوتا مظلوم کے سروں کو زیر پا خیانت میں ایمانداری سے سر نوشت رہتے رہتے، باکمال شخصیت پیغمبری کا رُتبہ قائم و دائم رہےہیں۔

جب انسان اپنے آپ سے سوال کرتا پھرے، تو اِردگِردکے سارے خدا یا خدائی کے چاہنے والوں کیلۓ بےوقوف، رہزن، یاتو پاگل قراردیاجاتاہے۔ ہوبھی سکتاہے کہ پاگل ہے، وہ جب اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد بھی کسی کو کچھ دکھا نہیں سکتے، شرفِ تحمیل و تِحلیل کا سایہ بنے پھرتے ہیں۔

تخت و تاج کوئی بھی ہو شاہانہ یا غریبوں کا مسیحا ایمان کا سوداگر شمار ہوتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ غریبوں کا مسیحا کیوں کیسے سوداگروں میں شمار کیا جاتاہے؟
,
میری اپنی تحقیق ہے کسی دوسرے کا حوالہ غلط ہوگا کیونکہ میں اپنے بلوچی کالمز میں بارہا کہتا رہاہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا بہ حیثیتِ ایک ادنیٰ شاعر یہ الفاظ میرے سینے کے قبرستان سے نکلتے ہیں، شاعری کی صورت یا کالمزکا شکل اختیار کرتے ہیں۔ بہرحال میرے اپنے احساسات ہیں۔ ان کے مطابق تخت و تاج یا کُرسی پہ بیٹھا شخص اپنے آپ کو دنیا کے سامنے جس طرح پیش کرتاہے،وہ ویسانہیں ہے نہ ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو ویسادِکھنا یا دکھانا نہیں ہوتا، کیونکہ اندھوں کو اندھا اور بہروں کو بِہرا بن کر لیڈکرنا ایک ہنر ہے، اس ہنرکے بہت سارے پہلو ہوتےہیں مثلاً یاتو دہشت کے زیر سایہ جو سردار، وڈیرہ اور قبضہ گیر ملکوں میں وہاں کے افواج یہ فوجی طور طریقے ہیں، جو ویسے بلوچستان میں آئے روز ہمارے آنکھوں کے سامنے ہوتے رہتے ہیں، دوسرا طریقہ درویشی کے لباس میں معصومیت کا روپ بناؤ، سب کےسب حماقت کرکے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور بادشاہت قائم۔

آج کل سب کُچھ ممکن ہے کوئی ایساچیز بنانہیں جس کا توڈ نہ ہو، لیکن یہ بھی سوال کسی نہ کسی کےدل میں امنڈ کر آگ کی طرح سماج میں پھیل سکتاہے کہ مومن تو مومن ہے لیکن کیسے، نہیں ہوسکتا خدا کا دعویدار کب تک خدا ہوتا، ہوا آسمان سے بارش برساتاہے۔ نہیں ہوسکتا کیونکہ روبدار انسان کا اپنا کوئی مقصد بندھا ہوتاہے، یہ کوئی اور وجہ بہرحال ہے کہ نئی اِسٹیٹس کا اپنا ایک مزہ ہے، اس مسلے کاکوئی تعبیر آج تک کسی حکمران نے دی ہے، نہ کسی آزادی کی تحریک نے، نہ غریبوں کے جرگہ میں بیھٹے فیصلہ کرنے والے مسیحا نے دیا نہ دیگا۔

قابض جہاں بھی ہو، قبضہ گیر کہلاتاہے لیکن بلوچ آزادی کی تحریک میں یہ نہ وضاحت میں آیاہے نہ آئیگا کیوں کہ ان مرحلوں سے گزرتا شخص قربانی دینے سے پہلے احساس دلاتا ہے، اپنا رُتبہ نہیں گراتا نہ کسی اور پہ قربان ہوکر امر ہوتاہے۔

بقولِ دنیا والوں کے آج کل دنیا بدل رہاہے، دنیاکے لوگوں میں احساس، شخصیت پرستی کہیں کہیں ختم ہواہے کہیں ختم ہوتا دکھائی دےرہاہے لیکن بلوچ کل کہاں کھڑا تھا، آج بھی وہیں کھڑا تماشائیوں کے ملبے میں دبا دکھائی دےرہاہے، ورکرسے لیکر لیڈر شپ تک سب تخت و تاج کا بادشاہ خوابوں میں تعبیر کرکے خوابیدہ زیرِ،
جستجو کیوں قبر اپنا لاش اپنی کسی کا کیامجال۔
مزاجِ شاعری نے سرِ بازار کیا
یہ خطا تھا کہ نہ تھا بارہا بار کیا
لفظ خوابوں کاسفر رِحم نہ کر
طفلِ تعطل کاشجر وھم نہ کر

آزادی کےرہنماوں کے خلوص کئی فیصلوں کوفاصلوں میں تعبیرکرتےہیں، تو کہیں زحمتوں کے قول کسی ویرانے میں دفن ہوتے قبرکا قبرستان اعزازِ شہادت کا درج ذیل کہانی، کبھی جوں وقت گزرتاہے تو گمنامی کے اندھیری کوٹڑی کے قید خانے میں کوئی بھوڑا شخص جوانی کی اداؤں میں مغفرت کا دعا پڑھے، بے ہوشی کا لہو پیتا پھڑپھڑاتا الفاظ محفوظ کرتےہیں، تو کہیں کسی کا اشارہ کرتے اپنے مقصد اپنے آنے والے نسل کو سبق سکھاناہے، وگرنہ ہم تو بہت کچھ ہیں سمجھنے کانہیں سوچنے کا۔
یہ مرحلے تجھے جینےکانام کیا دینگے
یہ فاصلے جو دلوں میں اُبھر کے آئینگے

خداکے لم یزل والے خدا! تجھے خدائی کے لم یزل کی سوگند اس سفر کے سفیروں کو اپنے صفوں میں ڈھونڈ جو اس مہذب شہیدوں کے بیپاری تمھیں اپنے پارسائی کے سورہ یاسین بن کر تجھے کچلنے کا راس رکھتے ہیں، وگرنہ کبھی میرے جیسے کم ظرف کابھی امتحان لیکرتو دیکھ، کم از کم جو کسی شہیدکا لہوتو نہیں پیتا۔

ایمانداری سے بے ایمان، مفلسی سے سب کو کاٹ بانٹ کر تماشا دیکھتے ہیں کیونکہ ابھی تو ہم مرحلوں سے سیکھ رہے ہیں، کتابیں پڑھ کر لوگوں نے اپنےآنکھ گنوا دیئے لیکن مرحلہ اس پار سے اُس پار نہیں ہوسکتا۔ مشکلیں بڑھتی ہیں کم نہیں ہوتیں جنگ جاری ہے، بے یار و مدد گار قافلہ کوہِ سلیمان کے تعاقب میں تھمتا نہیں۔ اس بہادر بلوچ شہید سپہ سالاروں کیلے ایک ادارہ نام کی اشد ضرورت ہےلیکن مرحلہ وار۔ ارے یہ مرحلہ یہ سخنگوی جو تیرے کان کے نیچے، سب کو کھارہاہے۔ اسے کیسے راہِ راست پر لاؤگے جو مرحلوں سے مرحلے بدلتے ہیں، تو کیا جواب ہوگا تیراَ؟ سب ایک ہوسکتے ہیں لیکن کون کس سے بہتر پیش سلام ہوگا؟ کون ہے جو اپنی انا کو پاؤں تلے روند کر شہیدوں کے لہوکو سرخروکریگا؟ یہ سب سوال ہیں آخرکار جواب وقت کی ڈور پہ باندھ کر کہتے ہیں۔ سب کو وقت ثابت کردیگا وقت کسی کو معاف نہیں کرتا۔ لیکن ان کو یہ پتہ نہیں کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا وقت کے تقاضوں کو اپنے لیئے ھم آہنگی کا ذریعہ بناؤ، کہیں ایسا نہ ہو وقت سب کچھ لے ڈوبے۔
انتظارِ شبِ شبِ مہتاب تھا،
دیکھنےکا وِھم شاید خواب تھا،
یوں گزر جاتاہےمعراجِ سفر،
میں کہاں جبریل کُچھ بیتاب تھا