مستونگ دھماکے کی مذمت کرتے ہیں، بی این پی کا فیصلہ قابلِ ستائش ہے – نورالدین مینگل

402

بلوچ رہنما میر نورالدین مینگل نے سانحہ مستونگ کے ہولناک واقعہ کوغیر انسانی عمل قرار دیتے ہوئے اس واقعہ کے نتیجہ میں ہونے والی انسانی جانی ضیاع پر اظہار افسوس کیا۔ شہداء کے لواحقین سے تعزیت اور زخمی افراد کی جلد صحتیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قیمتی جانوں کے ضیاع پر بہت دُکھ ہوا ہے اور متاثرہ خاندانوں کے صبر کیلئے دعا کرتا ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں تشدد ایک مستقل جُزوکی سےحیثیت موجود رہی ہے جس سے ہر خاندان بلواسطہ یہ بلاواسطہ طور پر متاثر ہوا ہے، ہزاروں افراد شہید یا جبری طور پر غائب کیے چکے ہیں۔ مذہبی بنیادپرست سوچ کی بیجا ریاستی سرپرستی اور مصنوعی رہنماؤں اور قوتوں کی تخلیق کے ساتھ بلوچستان کی معاشی اور سماجی ڈھانچہ کو کافی حد تک کمزور اور متاثرکیا جا چکا ہے۔ بلوچستان کے عوام انہی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چھڑتے آرہے ہیں اور ان انسان کش پالیسیوں پر نظرثانی کا مستقبل قریب تک کوئی سنجیدہ امکان نظر نہیں آتا۔

نورالدین مینگل کا کہنا تھا کہ غربت اور ناخواندگی ایک معزز قوم کی ساکھ کو بدنما کررہی ہیں اور تشدد کی پروان اور ترویج کی راہ ہمواری کاباعث بن رہی ہیں۔ اعلیٰ انسانی اقدار کی پیروی کرنےوالے اور انسان دوست سوچ رکھنے والے بلوچستان کے باسیوں کیلئے بڑھتے ہوئے پرتشدد ہولناک واقعات لمحہ فکریہ ہیں اور ان کی روک تھام کے حوالے سےتمام طبقہ ہائے جات کی فوری توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام تر مسائل کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ حقیقی جمہوریت اور جمہوری قانون ساز اداروں کی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔ ہمیشہ من پسند افراد اور قوتوں کے لیے غیر جمہوری اور ناجائزطریقے سے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا منفی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والے افراد جن کاعوام سے کوئی جذباتی لگاؤ نہیں ہوتا، جن کا کوئی مثبت سیاسی نظریہ یا فکر نہیں، وہ عوامی چاه اور ضروریات سے ناواقف ہوتے ہیں لہٰذا سماج میں مختلف جرائم اور مسائل کی جنم اور فروغ کا باعث بنتے ہیں۔بلوچستان میں تعلیم، پسماندگی اور شعور و ترقی کےزراؤں اور مواقعوں کا فقدان اس بات کا منہ بولتاثبوت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے آئین و قانون کی مسلسل بیحرمتی اور انسانی حقوق کی تحفظ میں ناکامی نے بھی سماج میں تشدد کی فروغ میں ایندھن کا کام کیا ہے اور آج ہمارے سماج میں خوف، نفرت اور عدم برداشت راج کرتی ہے۔ ان بنائے گئے حالات پر افسوس ہے اور یہ قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے اس حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اپنے انتخابی جلسوں کی منسوخی اور اس مد میں جمع تمام اخراجات کو متاثرہ خاندانوں کے لواحقین اورزخمیوں کی امداد پر خرچ کرنے کے فیصلے کو سراہا اورکہا کہ اس سانحہ کی پرتشدد اور غیرانسانی عمل کےجواب میں بی این پی نے اپنے اس اعلیٰ انسانی عمل سے بلوچستان کی حقیقی روایات کا مظاہرہ کیا ہے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بلوچستان کی عوام کو اپنی وجود کاحصہ سمجھتی ہے۔ انہوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ تشدد کی روک تھام اور بلوچستان کی حقیقی انسان دوست روایات کی پروان اور ترویج کے حوالے سےتمام تر سیاسی جماعتیں، قبائل اور مختلف ہائے جات سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تشدد سے تشدد ہی جنم لیتا ہےاور انسانی سماج کو اندھیروں کی نظر کر دیتا ہے جو کہ انسان کی ترقی پسندانہ سوچ اور فطرت کے منافی ہے۔ آج کی مہذب دنیا میں تشدد اور عدم برداشت جوکسی بھی نام پر ہو، اس کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس ناسور کی ہمارے سماج میں بیجا ترویج نے قوم کی صدیوں پر محیط انسانی اقدار اور روایات کا چہرہ مسخ کردیا ہے اور لوگوں کے دماغ اور پیروں کی زنجیر بن کرترقی کی راہ پر چلنے سے دور رکھا ہے۔ ان زنجیروں کوتوڑنے کیلئے اجتماعی کوششوں اور مثبت قانون سازی اور سماجی ریفارم کی ضرورت ہے اور اس حوالےسے بلوچستان میں آباد تمام اقوام رنگ و نسل و فرقہ پرستی سے بالا ہو کر اپنے آنے والی نسلوں کو ان نفرت کی اندھیروں سے نکالنے کا سامان بنیں کیونکہ نفرت سے کبھی بھی محبت اور خوشحالی کے گلستان آباد نہیں ہوتے اور ہمارے آنے والی نسلیں محض محبت، روشن خیال اور ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والی سماج کے مستحق ہیں۔