نیشنلزم کی بنیاد اور بلوچ قومی تحریک ۔ عبدالواجد بلوچ

452

نیشنلزم کی بنیاد اور بلوچ قومی تحریک

تحریر : عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

قوم اور قوم پرستی جیسے تصورات کی حیثیت بالائے تاریخ یا ماورائے سماج نہیں ہے کہ جو ازل سے موجود تھے اور ابد تک موجود رہیں گے. ’قوم‘ کا لفظ تاریخ میں پہلی بارتیرھویں صدی میں استعمال ہوا، جب کہ قوم پرستی کی اصطلاح پہلی بار اٹھارویں صدی میں فرانسیسی انقلاب کے دوران فرانسیسی پادری آگسٹن بارئیل نے استعمال کی۔ قوم پرستی کی اصطلاح کو انقلابِ فرانس نے استحکام بخشا۔ جس کا حقیقی محرک فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو کے 1764 میں لکھی گئی کتاب ’معاہدہ عمرانی‘ میں پیش کیے گئے انقلابی خیالات تھے، جو اقوام کے بارے میں ماضی کے تمام رائج تصورات سے بنیادی طور پر مختلف تھے۔

روسو کے تصورِ قوم میں بادشاہوں اور فرماں رواؤں کے اس بنیادی تصور کو دلائل سے مستردکردیا گیا تھا، جس کے تحت وہ خود کو طاقت یا پیدائشی حق کی بنا پر حکومت کرنے کا اہل سمجھتے تھے۔’معاہدہ عمرانی‘ کے تحت ریاست کی طاقت کو چیلنج کیا گیا اور آزادی، انصاف اور اخلاقیات جیسی اقدار کی بنیاد قوم کے اجتماعی مفاد میں رکھی گئی اور قوم کے’’ اجتماعی ارادے‘‘ کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ یہی وہ جدید جمہوریت کا تصور ہے جو فرانسیسی انقلاب اور روسو کے خیالات سے طلوع ہوا۔

اس سے پہلے کوئی بھی قوم بادشاہوں، فرماں رواؤں اور شہنشاہوں کے نام سے جانی جاتی تھی۔ رعایا کا فرض محض یہ تھا کہ وہ شہنشاہ یا فرماں روا کی اندھی اطاعت کریں۔ اس طرح عوام کا اپنا کوئی وجود یا شناخت نہیں تھا. قوم پرستی کے تصورات کے تحت انیسویں صدی امریکا اورمغربی دنیا کی ازسرِ نو تشکیل کی صدی کہلاتی ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں امریکا میں سائمن بولیور نے قوم پرستی کے خیالات کے تحت ہسپانوی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ روس، ترکی اور آسٹریا جیسی عظیم سلطنتوں کا خاتمہ ہوا، جس کے نتیجے میں پولینڈ، یوگوسلاویا، فن لینڈ، ہنگری اور چیکوسلواکیہ جیسی ریاستیں وجود میں آئیں۔ جرمنی اور اٹلی جو مغربی ممالک کی آپسی جنگوں کے دوران ٹوٹ چکے تھے، قوم پرستی کے تصورات کے تحت وہ متحد ہوئے۔ انیسویں صدی میں قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی کی بہت سی تحاریک چلیں۔ وجہ اس کی یہ کہ قوم پرستی کے تصور میں بادشاہوں کے برعکس عوام کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ فرانسیسی انقلاب سے عوام کی مرکزیت کا تصور ابھر چکا تھا۔اس کے علاوہ قومی ریاست کی حقیقت و ماہیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قوم پرستی کے آغاز، موجدین، خصوصیات اور ارتقا کو سمجھا جائے.

قوم پرستی کا پہلا موجد انگلینڈ ہے جیسا کہ ہم نے بالا سطور میں یہ ذکر کیا تھا کہ فرانس، جرمنی، روس اور امریکا اسی سے متاثر ہیں۔ قوم پرستی کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں فرد کی شناخت کا سرچشمہ قوم ہوتی ہے۔ قوم حاکمیت کی مالک ہوتی ہے، وفاداری کا مرکز ہوتی ہے اور معاشرتی اتحاد کی بنیاد ہوتی ہے۔ قوم افراد کا گروہ ہوتی ہے، جو مختلف حیثیتوں، طبقات، خطوں اور نسلوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم پرستی کی بنیاد جس کے بغیر کسی قوم پرستی کا تصور نہیں کیا جا سکتا، وہ ہے نظریہ۔ قوم پرستی ایک نقطہ نظر اور فکری رویے کا نام ہے۔ اور یہ نظریہ کیا ہے؟ قوم پرستی کا جوہر “قوم ہونے کا نظریہ ” ہے۔ کسی بھی قوم پرستی میں باقی تمام حیثیتیں اور شناختیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور صرف ایک شناخت ابھرتی ہے وہ ہے قوم کی شناخت.

مندرجہ بالا تاریخی حوالاجات و مندرجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بلوچ قومی تحریک پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ آیا بلوچ قومی تحریک خالص بنیادوں پر نیشنلزم کے معیار پر اترتا ہے یا نہیں اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اس امر کو طے کریں کہ بلوچ نیشنلزم کے نظریے کو لیکر کس طرح تحریک کی بنیاد رکھی گئی. بلوچستان کی سیاسی تاریخ کو مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بلوچستان شروع دن سے ہی جنگوں قبضہ گیریت کی وجہ سے مکمل طور پر ایک ایکتا نہ بن سکا گو کہ نوری نصیر خان نے بلوچ زمین اور بلوچ قوم کو ایک شناخت دینے کی کوشش کی لیکن ان معیارات پر پورا اترنے میں شاید ان کی پالیسیاں کارآمد ثابت نہ ہوئیں کیونکہ بنیادی وجہ یہ تھی کہ “بلوچ” نام تھا، لیکن نیشنلزم کے پیرائے میں نہیں بلکہ قبائیلیت کی مضبوط زنجیروں میں جکڑا ایک نظام تھا. یہی وہ اسباب تھے کہ بلوچ جدوجہد کو نیشنلزم کے نظریے سے محروم ہونا پڑا گو کہ اس کے بعد بہت سی تحریکیں چلیں، جنگیں ہوئیں لیکن بنیاد قبائیلیت مختلف النوع اقسام کے گروپس میں تقسیم مختلف لشکر تھیں.

بلوچ قوم پرستی کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے کا تاریخی سہرا میر یوسف عزیز مگسی کے سر جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ماضی کے پرانے اصطلاحات مختلف النوع کے لشکر اور تقسیم در تقسیم کے بنیاد پر جنگوں کا قلعہ قمع کرکے بلوچ زمین پر قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ کو نیشنلزم کے مضبوط نظریئے کے اندر باندھنے کی کوشش کی۔ کہتے ہیں کہ مضبوط ادارے ہی مضبوط تاریخی انقلابات کی بنیادیں ڈالتی ہیں، اس لئے میر یوسف عزیز مگسی نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے نیشنلزم کی بنیاد پر ایک مضبوط پارٹی بنائی جو قبائلی تنظیموں سے مختلف تھی۔ جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ خونی رشتوں کی بجائے ذہنی و شعوری رشتوں سے ایک تشکیل یافتہ قومی تنظیم بنی.اس سے پہلے بلوچ جنگیں مختلف قبائلی لشکروں پر محیط تھے، میر یوسف عزیز نے نے قبیلوی شاؤنزم سے بالاتر ہوکر بلوچ سطح کی سیاست کو فروغ دیا، جس کی وجہ سے بلوچ قوم میں ہم آہنگی اور ایک سوچ پیدا ہوئی. لیکن بدقسمتی سے وہ زیادہ دیر اس خطہِ زمین پر نہ رہے 1931 کے زلزلے میں وہ جہانِ فانی سے کوچ کرگئے اور بلوچ ایک مرتبہ پھر درگاں درگاں رہا.

1931 سے لیکر دوہزار کی دہائی تک بلوچ قومی جنگ قبائلی بنیادوں پر چلتا رہا گو کہ مکران میں ایک سیاسی ابھار پیدا ہوئی تھی لیکن اس ابھار کی کوئی حیثیت نہیں تھی کیونکہ اسے کنٹرول کرنا اور اسے انرجی فراہم کرنے والا عناصر وہی قبائلی سوچ رکھنے والی قوتیں تھیں، اس لیئے بلوچ قومی تحریک ہمیشہ تقسیم کا شکار رہا. یہ حقیقت ہے کہ قوم پرستی کی بنیاد پر چلی تحریکیں اگر مختلف گروہوں اور قبائلز پر محیط ہوں تو دورانِ جہدوجہد دم توڑ دیتی ہیں، حالیہ دنوں استاد واحد قمبر اور میر عبدالنبی بنگلزئی کے دو مختلف انٹرویوز اس امر کے غماز ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کو قبائلی و فرسودہ سوچ نے چنداں نقصان پہنچائے. لیکن یہ بلوچ قوم کی خوش قسمتی ہی ہے کہ شہید قائد غلام محمد بلوچ نے خالص ادارتی حوالے سے میر یوسف عزیز مگسی کے تسلسل کو بامِ عروج پر پہنچانے کے لئے “بلوچ نیشنل موومنٹ “کی بنیاد رکھی اور خاص نیشنلزم کے نعرے کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرکے آگے بڑھنے کا عزم کیا. گو کہ موجودہ حالات میں کافی کمزوریاں پائی جاتی ہیں لیکن اس بنیاد کو انرجی فراہم کرنے کا سہرا آج بلوچ نیشنل موومنٹ کے سر ہے، اس لیئے میر عبدالنبی بنگلزئی نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ بی این ایم اور بی ایل ایف بلوچ قومی جدوجہد کے اندر ادارے کی شکل میں موجود ہیں۔

لیکن موجودہ دور کے اس پرآشوب لمحے میں غاصب قوت سمیت ان قوتوں کے عزائم کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح نیشنلزم کی بنیاد بنی اس تحریک کو ایک مرتبہ پھر بکھیرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ اس طرح غاصب قوت نیشنلزم کے نظریے کو مذہب کی بنیاد پر یکسر مسترد کرنے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ مذہب ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے بلوچ قومی تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی. اس کے علاوہ نیشنلزم کے خالص نظریئے کو ناکام کرنے کے لئے قبائیلیت ذات پات اور مختلف گروہوں کو ایک مرتبہ پھر زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر بالادونوں امر کامیاب ہوئے تو ایک مرتبہ پھر بلوچ قومی تحریک کے لئے مسائل پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔